اس عنوان کا یہ مطلب نہیں کہ ان کا تعلق شام چوراسی گھرانے سے ہے۔ ان کی نسبت تو صبح چوراسی کے اس خاندان سے ہے، جس کا ستارہ آسمانِ ادب پہ کئی دہائیوں تک پوری آب و تاب سے چمکاتا رہے گا۔ ندا فاضلی کا نہایت خوب صورت شعر ہے کہ: ہر آدمی میں ہوتے ہیں دس بیس آدمی جس کو بھی دیکھنا ہو کئی بار دیکھنا لیکن آپس کی بات ہے کہ اس شعر کی نزاکت، لطافت اور تاثیر کو پوری طرح محسوس کرنے کے باوجود ہمیں اس کے مفہوم و معانی سے اتفاق نہیں ہے کیونکہ اسی دنیا میں نصف صدی کی اننگز کھیلنے کے بعد ہم اس نتیجے پہ پہنچے ہیں کہ دس بیس کی شرط تو بہت کڑی ہے یہاں تو اکثر لوگوں کے اندر ایک آدمی ڈھونڈنا مشکل ہوا جاتا ہے۔ ہمارا مشاہدہ ہے کہ یہاں نوے پچانوے فیصد لوگ اپنے وجود میں قدرتی طور پر در آئی محض پانچ حِسیات (باصرہ، سامعہ، شامہ، ذائقہ،لامسہ) پر موجیں مارتے پھرتے ہیں۔ وہ اس بات پہ بھی تأمل نہیں کرتے کہ یہی پانچوں خاصیتیں تو مکھی، مچھر، گدھے، بکری، اونٹ، لکڑ بھگڑ وغیرہ کو بدرجۂ اتم ودیعت کی گئی ہیں اور پھر یہ بھی حقیقت ہے کہ بلی ان سے زیادہ دور تک دیکھ سکتی ہے، کتا ان سے زیادہ بہتر سونگھ سکتا ہے، کوا سننے کے معاملے میں ڈھیر باریک ہے، مکھی کی چکھاوٹ ہم سے فزوں تر ہے اور ہاتھی کہیں بہتری اور مضبوطی سے چیزوں کی چھُوا چھُو کر سکتا ہے۔ ہمیں تو غالب کی آدمی سے انسان بننے کی فکر، خواہش یا حسرت کے پیچھے بھی چھٹی حِس (Common Sense) حسِ جمال اور حسِ مزاح کا فقدان حارج دکھائی دیتا ہے۔ کامن سینس کی بابت تو اہلِ دانش و بینش نے ''Is not so common'' جیسا دو ٹوک فیصلہ دے رکھا ہے۔ حسِ جمال کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ ہمارا پیارا تاریخی اور ثقافتی شہر لاہور، دنیا کے گندے ترین شہروں میں شمار ہوتا ہے۔ اس پر ستم یہ کہ ذمہ داران کو ڈوب مرنے کی توفیق بھی نہیں… اور حسِ مزاح جیسی لطیف چیز کا تو پوچھیے ہی مت! ایسے پیغمبری وقت میں کسی آدمی کے اندر دس بیس آدمی ڈھونڈنے کی بات چلے تو نظر خود بہ خود مستنصر حسین تارڑ جیسے نابغاؤں پہ آ کے ٹھہر جاتی ہے۔ کیسا عجیب شخص ہے کہ بہ ظاہر دیکھنے میں تو ایک ناول نگار، سفرنامہ نویس یا کالمسٹ ہے لیکن ان کے بھیتر جھانک کے دیکھیں تو کئی دنیائیں گردش میں دکھائی دیتی ہیں۔ ہمارے نزدیک ایک ناول، ایک جیون بِتانے جیسا عمل ہے۔ عام لوگوں سے تو ایک زندگی بھی ڈھنگ سے نہیں گزرتی، یہ دسیوں کا رسیا ہے۔ اسی طرح سفرنامہ بھی محض آوارہ گردی کا برادرِ خُرد نہیں بلکہ کئی تہذیبوں کی چٹخارے دار چٹنی تیار کرنے جیسی مہارت ہے۔ ہمارے ہاں اخباری کالم کو بھی محض وقتی غبار، بخار یا خمار سمجھ کے ٹرخا دیاجاتا ہے حالانکہ یہ عزیزی اپنے عہد کی ہر لمحہ بدلتی صورتِ حال کا سچا اور چشم دید ترجمان ہوتا ہے۔ ہم نے کسی زمانے میں لکھاتھا کہ ’اگر قلم کا سر جھکا ہوا ہو تو حرف بنتا ہے اور قلم کار کا سر جھکا ہوا ہو تو حرف آتا ہے۔‘ المیہ یہی ہے کہ ہمارے ہاں اپنی اور دوسروں کی خواہشوں کے سامنے جھکے سروں کی منڈی لگی ہوئی ہے۔ جعلی ماحول بنانے کے ’ماہرین‘ کی پانچوں گھی میں ہیں۔ لالہ بسمل نے ایسے ہی نہیں کہا تھا کہ: وڈے آ گئے ، نِکے آ گئے ہر شعبے وچ پھِکے آ گئے کھریاں تھوڑی دیر کیہ کیتی ہر تھاں کھوٹے سِکے آ گئے آون والے لیٹ ہوئے تے یحیے آ گئے، ٹِکے آ گئے چُلھا چونکا ایسا بھُلیا برگر آ گئے، تِکے آ گئے ایسے میں مستنصر حسین تارڑ جیسے جہاں دیدہ، غیر جانب دار اور دیدہ و بینا لوگوں کا اس شعبے سے وابستہ ہونا غنیمت سے آگے کی چیز ہے کہ جن کا ہر کالم بصارت کی پگڈنڈی پہ چلتے چلتے، چپکے سے بصیرت کی حدود میں داخل ہو جاتا ہے۔ جہاں تک ان کی ناول نگاری کا تعلق ہے، یہ ناول جمالیات کے عَلم بردار ہونے کے باوجود محض رومانوی قصے نہیں ہیں۔ وہ تہذیبوں کے موازنے اور تاریخ کے تڑکے کے ذریعے اسے چیزے دیگر بنا دیتے ہیں۔ تارڑ صاحب کا کمال یہ ہے کہ انھیں تاریخ اور تہذیب جیسے بزرگوں کو بچوں کی طرح انگلی لگا کے ساتھ لیے چلے جانے کا ہنر آتا ہے۔ پھر یہ بھی ہے کہ وہ اپنی تحریروں میں چین و عرب یا روم و ایران کی ثقافت کے قصے سنانے پہ اکتفا نہیں کرتے بلکہ جا بہ جا اپنی جیسی تیسی پنجابی رہتل پہ فخر کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ انھیں رومیو جیولٹ یا لیلیٰ مجنوں کی بجائے اپنی سسی، سوہنی، صاحباں پہ ٹوٹ کے پیار آتا ہے۔ وہ تو مولانا روم کے بدیسی پرندوں کو بھی گھیر گھار کے پنجاب کی سر زمین پہ لینڈ کرانے کی تمنا رکھتے ہیں۔ ان کے ضخیم ناول ’’خس و خاشاک زمانے‘‘ میں روایتی اُردو فکشن میں پیش کی جانے والی دیہاتی معاشرت کی جگہ سچا اور کھرا پنجابی کلچر ہُمکتا ہے۔ یہ محض ناول نہیں بلکہ سکھوں کی فائن الیون سے لے کے امریکیوں کی نائن الیون تک کا دل فریب ساگا ہے۔ اسی طرح ’’اے غزالِ شب‘‘ ہماری نوجوان نسل کو کئی دہائیوں تک بہکائے اور دہکائے رکھنے والے سرخ سویرے کی گھناؤنی اور ڈراؤنی، سناؤنی ہے۔ جب سے مَیں ساٹھ سال کے قریب سرکتا جا رہا ہوں ’’قربتِ مرگ میں محبت‘‘ میرے اندر دھمالیں ڈالتی چلی جاتی ہے۔ ’’بہاؤ‘‘ کا گھاؤ ناول کے ہر معقول قاری کے دل پہ دیکھا جا سکتا ہے۔ ’’راکھ‘‘ کی ساکھ تو ناول کی سرزمین پہ معیار کا سمبل بنی بیٹھی ہے۔ یہ چوراسی سال کا نوجوان تو کرونا کے شب و روز میں بھی فارغ نہیں بیٹھا۔ لوگ حیران ہیں کہ اس عمر میں تو سوچ، اپروچ کے سوتے خشک ہو جاتے ہیں لیکن ان کی آئے دن کوئی نہ کوئی کتاب تازگی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کے سامنے آن کھڑی ہوتی ہے۔ ’’شہر خالی، کوچہ خالی‘‘ ہتھیلی پہ سرسوں جمانے کی ایسی ہی دل پذیر مثال ہے۔ کس کس کا ذکر کروں؟ ابھی تو ’’قلعہ جنگیـ‘‘ وقت اور اخباری کالم کی تنگی کی بھینٹ چڑھتی جاتی ہے۔ مستنصر حسین تارڑ کے ناولوں، سفرناموں، کالموں میں مختلف کرداروں کے تعارف، مناطر کی عکس بندی اور مکالموں میں ہلکا پھلکا مزاح ان کی شخصیت کی پختگی کا پتا دیتا ہے۔ کسی زمانے میں ان کی نرگسیت اور دوسروں کو دو ٹوک ہدف بنانے پہ غصہ آتا تھا لیکن اب تو ان کی فن کاری، دلداری کی ایسی دھاک بیٹھ چکی ہے کہ لوگ موضوعِ بحث بننے کی دعوت چہرے پہ سجائے پھرتے ہیں کہ:تُو مشقِ ناز کر خونِ دو عالَم میری گردن پر ایسے میں لاہور کا تذکرہ تو رہا جاتا ہے جو ہمہ وقت تارڑ صاحب کی رگوں میں خون کی طرح دوڑتا رہتا ہے۔ مختصر یہ کہ ہم ان کی ہمہ جہتی، ہمہ فکری اور ہما ہمی کی بابت فخر و انبساط کے ساتھ کہہ سکتے ہیں: ’’اس کو جو دیکھنا تو کئی بار دیکھنا‘‘ ٭٭٭٭٭