ماہ صیام میں دو روز قبل ہم دارالحکومت کے نئے کشادہ ایئر پورٹ پر اترے تو آسمان بادلوں سے بھرا ہوا تھا اور بارشوں نے موسم کو دل فریب بنا دیا تھا۔ سڑکیں بھیگی ہوئیں اور فضا میں مٹی کی سوندھی سوندھی خوشبو رچی بسی تھی۔ اخباری صفحات پہ اور ٹی وی چینلوں پہ سیاسی بیانات کی گھن گرج اور تجزیوں کا جو طوفان بپا رہتا ہے۔ اسلام آباد کی روز مرہ کی زندگی اس کے برعکس اوپر سے پرسکون اور شانت سی نظر آتی ہے۔ یہاں اولین ملاقات علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر شاہد صدیقی سے ہوئی جن کا کمرہ متنوع موضوعات پر کتابوں کے انبار سے کسی صاحب علم اور دانش ور کا لگتا ہے۔ انہوں نے ہمارے استفسار پر یونیورسٹی کے انتظامی نظم و نسق‘ تدریسی و تحقیقی پیش رفت و ترقی اور دیگر معاملات و امور کی بابت جو چشم کشا معلومات فراہم کیں اور پھر ہمیں معذور طلبہ کی لائبریری‘ پرنٹنگ پریس‘ ریڈیو اور ٹیلی ویژن اسٹوڈیو‘ دیگر شعبہ جات وغیرہ کا دورہ کرا کے یونیورسٹی کا جو چشم دید مشاہدہ کرایا‘ اس نے سرکاری جامعات کے ابتر انتظام اور معیار تعلیم کی بابت ہماری تشویش کو رفع کر دیا اور اس احساس کو راسخ کیا کہ ملک میں سب کچھ‘ سارے ادارے نہیں بگڑے‘ بگاڑ کے ماحول میں بنائو کی صورتیں بھی نمایاں ہی۔ تخریب کے ساتھ تعمیر کا عمل بھی ساتھ ساتھ جاری ہے۔ ادارہ ہو یا ملک‘ اوپر بیٹھا سربراہ اگر دل درد مند رکھتا ہو‘ تدبیر و تعمیر میں مخلص و خوش نیت ہو اور ساتھ ہی جوش کردار کا حامل ہو تو کوئی وجہ نہیں کہ اس کے خوش کن اور حوصلہ افزا نتائج برآمد نہ ہوں۔ اسی روز مقتدرہ قومی زبان جس کا نیا نام اب ادارہ فروغ قومی زبان رکھ دیا گیا ہے اور جس کے صدر نشیں ان دنوں معروف شاعر و دانش ور افتخار عارف اور جن کا ایک افتخار و امتیاز یہ بھی ہے کہ جب بھی کسی سرکاری ادارے کے ذمہ دار بنائے جاتے ہیں‘ ادارے کی کارکردگی کو چار چاند لگ جاتے ہیں۔ وہ جب اس سے پہلے مذکورہ ادارے کے سربراہ تھے تو انہوں نے دنیا کی عظیم کتابوں کے تراجم کی اشاعت کا ڈول ڈالا تھا اور ایسی شاہکار کتابیں اسی ادارے سے شائع کی تھیں جن سے اردو زبان کا دامن ہی وسیع نہیں ہوا۔ بات پھر سے ثابت ہوئی کہ ہماری قومی زبان میں جملہ علوم کو سمیٹنے کی صلاحیت بدرجۂ اتم پائی جاتی ہے۔ تو ہم عرض کر رہے تھے کہ اسی روز علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کی شاندار کارکردگی اور عمرہ انتظام کے مشاہدے سے مسرور و مطمئن ہونے کے بعد ہمیں ادارہ فروغ اردو کے زیر اہتمام وہاں کی چھپنے والی ایک نئی کتاب کے رسم اجرا میں شرکت کا موقع ملا۔ یہ نئی کتاب کہ عنوان اس کا ’’روشنی کے سفیر‘‘ ہے دراصل ملک کے ان مثالی اساتذہ کی بابت ہے جنہوں نے اپنے علم اور ذوق علم نیز اپنی سیرت اور تربیت سے کئی نسلوں کی ذہنی و علمی آبیاری کی۔ کتاب میں ملک کے کم و بیش تمام ہی صوبوں کے اساتذہ کی بابت ان کے شاگردوں کے مضامین شامل ہیں۔ کتاب کیا ہے جذبہ تحسین و شکر گزاری کا مرقع ہے اور یہ ہمارا ایمان ہے کہ مملکت عزیز کی بدنصیبوں میں ایک بڑی بدنصیبی احسان ناشناسی اور محسن فراموشی کی عادات بد ہے کہ ہم بہت جلد اپنے محبت کرنے والوں اور خیر خواہوں کو نظر انداز کر کے اپنے وقتی مفادات کے اسیر ہو جانے کے عادی ہو گئے ہیں۔ یہ کتاب اور اس کی اشاعت بتاتی ہے کہ نہیں ایسا بھی نہیں ہے۔ ہم اب بھی اپنے محسنوں کے احسانات کو یاد رکھنے اور ان کی شکر گزاری کے سچے جذبات سے بالکل عاری نہیں ہوئے۔ تقریب میں مقررین نے اپنے زمانے کے فراموش شدہ اساتذہ کو جی بھر کے یاد کیا اور ان کے ذوق علم اور انداز تربیت پر روشنی ڈالی۔ اس تقریب سے واپسی پہ بار بار ایک ہی احساس کچوکے دے رہا تھا کہ ملک میں تخریب اور بگاڑ کے معاملات کو تو ہمارا میڈیا پوری شدت اور حدت کے ساتھ پیش کرتا ہے لیکن آخر ایسی کیا افتاد پڑی ہے کہ تعمیر اور بنائو کا جو عمل خاموشی کے ساتھ جاری ہے‘ میڈیا اس کی عکاسی میں سستی اور غفلت کا مظاہرہ کرتا ہے آپ اداروں کی خراب کارکردگی اور ان کی بدعنوانیوں اور بدمعاملگیوں کی نقاب کشائی میں تو بہت چاق و چوبند اور مستعد نظر آتے ہیں لیکن وطن عزیز میں جو ادارے اپنے سربراہان ادارہ کی دل سوزی محنت و منصوبہ بندی دیانت داری و حسن انتظام کے سبب پر اعتبار سے دوسرے اداروں کے لیے ایک لائق تقلید مثال کی حیثیت رکھتے ہیں‘ انہیں نظر انداز کیوں کرتے ہیں؟ کیا اس منطق کی بنا پر کہ میڈیا کا کام ناہمواری اور ناکارکردگی کو نمایاں کرنا ہے۔ کارکردگی اور عمدہ نتائج دینا تو ہر ادارے کا معمول کا فریضہ ہے اس میں ’’خبریت‘‘ کہاں؟ اگر اس اصول کی روشنی میں بھی دیکھا جائے تو کیا یہ کہنا غلط ہو گا کہ جب بدعنوانی اور کرپشن معاشرتی معمول بن جائے تو ایمانداری اور فرض شناسی کے ادنیٰ سے مظاہر بھی خلاف معمول ہو جاتے ہیں اور میڈیا کو انہیں مشتہر کرنا چاہیے تاکہ تاریکی اور مایوسی کی جگہ امید اور حوصلے جوان و ترو تازہ ہو سکیں۔ کوئی مضائقہ نہیں یہ بتا دینے میں اگلے روز ہمیں عزیز مکرم اور صاحب اسلوب ادیب اور صدر مملکت میڈیا کنسلٹنٹ فاروق عادل نے ایوان صدر کی حساس اور پرشکوہ عمارت میں قائم اس لائبریری کو بھی بہ نفس نفیس دکھایا کہ جس کے دیکھے سے آنکھیں روشن ہوئیں اور دل کو اطمینان ہوا کہ ایوان صدر میں بھی علم کی شمع روشن ہے فاروق عادل صاحب کی اطلاع کے مطابق بھٹو مرحوم نے یہ لائبریری قائم کی تھی اور موجودہ صدر کی ہدایت پر اس لائبریری میں معتدبہ کتابوں کا اضافہ کیا گیا ہے۔ وہ کرسی بھی نظر نواز ہوئی ہے کہ جس پہ بیٹھ کر فرصت کے اوقات میں صدر جنرل ضیاء الحق کتابوں کا مطالعہ کیا کرتے تھے۔ مہمانوں کی کتاب پر اپنے تاثرات رقم کرنے سے پہلے ہم نے اس کی ورق گردانی کی تو صدر مملکت جناب ممنون حسین کے ارشادات نے بھی ہمیں خوشگوار حیرت میں مبتلا کیا۔ صدر صاحب نے رقم فرمایا تھا کہ اس شاندار لائبریری کو دیکھ کر یہ احساس شدت سے پیدا ہوتا ہے کہ اس کے استفادہ کرنے والے تعداد میں اتنے تھوڑے کیوں ہیں؟ اس مفید لائبریری کے دروازے ہر اس شخص کے لیے کھلنے چاہئیں جو علم و ادب کا ذوق رکھتا ہے۔ ہم نے یہ پڑھ کر عرض کیا کہ ممکن ہے سکیورٹی کے سنگین مسائل کی وجہ سے صدر صاحب کے لیے بھی عام استفادے کے لیے لائبریری کے دروازے ہر کس و ناکس پر وا کرنا ممکن نہ ہو لیکن صدر صاحب کے تبصرے سے یہ بات تو بہرحال واضح ہے کہ ان کا دل صحیح سمت میں دھڑکنا جانتا ہے۔اور جب دل درست طور پر کام کر رہا ہو اور صحت مند ہو تو بہتری اور اصلاح کی بابت مایوس نہ ہونا چاہیے۔ آج نہیں تو کل اور کل نہیں تو کبھی نہ کبھی بند راستے بھی کھل ہی جائیں گے ایوان صدر کی بابت ہم نے بہت سی کہانیاں میڈیا کے ذریعے سن رکھی تھیں۔ پچھلے ادوار حکومت میں اس پرشکوہ عمارت میں کیا کچھ ہوتا رہا کہ اب انہیں دہراتے ہوئے بھی حجاب سا محسوس ہوتا ہے لیکن کیا یہ بات باعث تعجب نہیں کہ جب ماضی میں اس کے کچن‘ تزئین و آرائش اور لان وغیرہ کے انتظام پر اخراجات کی تفصیل کو ہدف تنقید بنایا گیا تو کوئی مضائقہ تھا کہ اس عمدہ لائبریری کا بھی تذکرہ کر دیا جاتا جس میں تاریخ و سیاست مذہب و تمدن ادب و ثقافت ‘ سواح عمری و آپ بیتیاں‘ سیرت و تصوف کے موضوعات پر نہایت اہم اور قابل ذکر کتابوں کے ساتھ پندرہویں اور سولہویں صدی میں نہایت خوش رنگ و خوش نما خطاطی کے نمونے قرآن حکیم کے بڑے سائز کے نسخوں میں موجود و محفوظ ہیں جن پر ایک سرسری نظر ڈالنا بھی عین سعادت ہے۔ اسی طرح اسلام اور اور اسلامی تاریخ و شریعت پر اردو‘ انگریزی زبانوں میں ضخیم جلدوں پر مشتمل انسائیکلو پیڈیا بھی ہیں۔ سیاسی و سوشل موضوعات پر رسائل و جرائد کی فائلیں بھی یہاں موجود ہیں۔ جو عملہ ہے وہ اتنا مستعد ہے کہ کوئی کتاب طلب کی تو اس نے کمپیوٹر کی مدد سے تھوڑی ہی دیر میں تلاش کر کے پیش کر دی۔ اس لائبریری سے متاثر ہو کر ہم نے اگر تاثراتی کتاب میں یہ لکھا تو کیا غلط لکھا کہ خداوند تعالیٰ ہمار ے حکمرانوں اور عوام میں علم کا ذوق عام کرے کہ علم ہی سے انسان کو شرف انسانیت حاصل ہے۔ البتہ بعد میں ہمیں خیال آیا کہ علم کے ساتھ تاثیر علم کی دعا بھی درج کرنا کچھ بے محل نہ ہوتا۔ بقول اشفاق احمد ملک کو اب تک نقصان جو کچھ کہ پہنچا ہے جاہلوں سے نہیں لکھے پڑھوں ہی سے پہنچا ہے علم اگر علم نافع نہ ہو تو بے فائدہ ہے ایک صوفی نے ابن سینا کی علمی شہرت کا چرچا سن کر ان سے ملاقات کی اور پھر اپنے احباب سے ان کے استفسار پر یہ تبصرہ کیا کہ ابن سینا کو اخلاق سے کیا واسطہ‘ ابن سینا تک یہ تبصرہ پہنچا تو انہوں نے اخلاق کے موضوع پر جو کچھ تصنیف کیا تھا‘ مبصر کو بھجوا دیا۔ جواب آیا۔ یہ کب کہا کہ ابن سینا کو اخلاق کا علم نہیں۔ توجہ صرف اس طرف دلائی گئی تھی کہ اخلاق میں آپ کے تاثیر نہیں۔ تو قصہ یہ بھی ہے کہ علم جب تک اپنی تاثیر کے ساتھ سارے وجود میں رچ بس نہ جائے اور انداز نظر‘ انداز فکر اور رویوں میں اپنا اثر نہ دکھائے اس کا حاصل بھی کیا ہے۔ (باقی صفحہ13پر ملاحظہ کریں) حافظے میں ہزارہا کتابیں بھی محفوظ کر لی جائیں‘ ان کتابوں سے درجہ ان کا بڑھ تو نہیں جاتا جو شیلف پر سجی ہوتی ہیں۔ ان سطور کے لکھتے ہوئے بھی ہم بدستور دارالحکومت میں ہیں۔ وجود انسانی میں جو اہمیت قلب و ذہن کو حاصل ہوتی ہے کہ یہ صحت مند ہوں تو سارا وجود صحت مند ہی رہتا ہے ویسے ہی مملکت میں دارالحکومت کی ہوتی ہے کہ اگر دارالحکومت اندر اور باہر سے تندرست و توانا ہو تو اس کے دور رس اور دیرپا اثرات پورے ملک پر مرتب ہوتے ہیں اور ہمارے دارالحکومت کا شمار تو یوں بھی دنیا کے تین بہترین شاندار اور خوب صورت دارالحکومتوں میں ہوتا ہے۔ ماضی میں اس دارالحکومت کے حسن تعمیر سے اہل بنگال کو پٹ سن کی بُو آئی اور انہوں نے شکایتوں کے جو انبار لگائے‘ ان کا ازالہ نہ پا کر اپنا دارالحکومت ہی الگ کر لیا۔ اس سے ہم نے تاحال کوئی سبق نہ سیکھا تو یہ بھی المیہ ہی ہو گا۔ وطن عزیز میں تعمیر و تخریب کی صورتیں باہم گھل مل کر کچھ اس طرح مشکل ہو رہی ہیں کہ بہ ظاہر تو تخریب ہی غالب نظر آتی ہے لیکن دارالحکومت میں جو کچھ دیکھ رہا ہوں اس میں امید کا پہلو اور یہ امکان نمایاں ہے کہ تعمیر ہی غالب آئے گی تخریب پر ‘ چاہے جب بھی آئے۔