اَمریکہ، جاپان اور جنوبی کوریا کے مابین کیمپ ڈیوڈ کے مقام پر سہ فریقی سربراہی اِجلاس 18 اگست کو منعقد ہوا ہے۔ اِجلاس کی میزبانی امریکہ کے صدر جو بائیڈن نے کی ہے۔ 2015 کے بعد یہ پہلا موقع ہے جب غیر ملکی رہنماؤں نے صحت افزا مقام پر واقع خصوصی صدارتی رہائش گاہ کا دورہ کیا ہے۔ کیمپ ڈیوڈ سمٹ یہ ظاہر کرنے کی ایک کوشش ہے کہ صدر بائیڈن، جاپان اور جنوبی کوریا کے درمیان تعلقات کو کتنی سنجیدگی سے لیتے ہیں۔ جاپان اور جنوبی کوریا ایک دوسرے کے پڑوسی جبکہ اَمریکہ کے پرانے اتحادی ہیں لیکن وہ کبھی دوست نہیں رہے۔ حالیہ مہینوں میں، جاپانی وزیر اعظم مسٹر کیشیدا اور جنوبی کوریا کے صدر یون نے دونوں ملکوں کے مابین دشمنی ختم کرنے اور واشنگٹن کے ساتھ تعلقات کو فروغ دینے کے اقدامات کیے ہیں تاہم اِنتہائی قریبی تعلقات قائم کرنے کی غرض سے اٹھائے گئے موجودہ اقدامات کے پیچھے ایک اہم محرک چین کی ابھرتی ہوئی طاقت کا خوف ہے۔ ٹوکیو اور سیئول کے درمیان طویل عرصے سے سیاسی اور قانونی تنازعات پر ناخوشگوار تعلقات رہے ہیں جو 1900 کی دہائی کے اوائل سے 1945 تک جاپان کے کوریا پر قبضے کے گہرے تاریخی زخموں سے پیدا ہوئے تھے۔ یہ تنازعات دونوں ممالک کے سیاسی مسائل کے طور پر برقرار ہیں اور ماضی میں واشنگٹن کے ساتھ سہ فریقی تعاون کو روک چکے ہیں۔ جنوبی کوریا کے باشندوں کا خیال ہے کہ جاپانیوں نے 1910 سے 1945 تک جزیرہ نما کوریا کی نوآبادیات کے لیے کبھی بھی مناسب طریقے سے معافی نہیں مانگی۔ تاہم، ٹوکیو کا یہ مؤقف ہے کہ اس نے کئی معاہدوں میں اپنے تاریخی گناہوں کا کفارہ ادا کیا ہے۔ چین اور شمالی کوریا کی طرف سے بڑھتے ہوئے خطرات ٹوکیو اور سیول کو ماضی میں ہوئی باہمی تلخیوں کو بالآخر دفن کرنے کے لیے مجبور کر رہے ہیں، اور دونوں ممالک نے روس کے یوکرائن پر حملے کے تناظر میں نیٹو ممالک کے ساتھ تعاون کو بھی بیک وقت بڑھایا ہے۔ عالمی سیاست کے منظر نامے پر اِس وقت اَمریکہ اور چین کے مابین معاشی مسابقت، روس اور یوکرائن کے مابین جنگ جیسے اہم عوامل کارفرما ہیں جن کے عالمی سیاست پر دوررس نتائج مرتب ہوسکتے ہیں جبکہ ان عوامل کی وجہ سے عالمی معیشت دباؤ کا شکار ہے۔ سہ فریقی سربراہی اجلاس کے اِختتام پر جاری ہونے والے اِعلامیہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ممبران، گروپ کو مزید وسعت دینا چاہتے ہیں۔ بیانات کے مطابق اعلیٰ رہنماؤں، وزرائے خارجہ اور دیگر اعلیٰ حکام کی سالانہ ملاقاتیں ہوںگی جبکہ رابطے کے لیے ایک نیا مواصلاتی چینل جسے صدر بائیڈن نے "ہاٹ لائن" کہا ہے قائم کیا جائے گا۔ اجلاس میں کیے گئے اہم اقدامات میں تینوں ممالک کے درمیان انٹیلی جنس شیئرنگ کو فروغ دینے کے لیے ایک نیا اقدام؛ ابتدائی انتباہی میزائل لانچ کا پتہ لگانے کو اپ گریڈ کرنا (شمالی کوریا کے بیلسٹک میزائل اور جوہری پروگراموں کی طرف نظر رکھتے ہوئے) سہ فریقی مشترکہ فوجی مشقیں (جن میں آبدوز شکن جنگی مشقوں پر خصوصی زور دیا جاتا ہے)، تینوں ممالک کے درمیان بحرانی ہاٹ لائن قائم کرنا؛ اور، سفارتی محاذ پر، تینوں ممالک کے درمیان پہلی مرتبہ مشترکہ "اصولوں کا بیان" جو ان کے مشترکہ وژن اور ترجیحات کا خاکہ پیش کرتا ہے۔ اِس کے علاوہ تینوں ممالک کا ایسے نئے اقتصادی اقدامات کا اعلان کرنا جن کا مقصد سیمی کنڈکٹرز اور دیگر اہم ٹیکنالوجیز کے لیے اپنی سپلائی چین (supply chain) سکیورٹی کو مضبوط بنانا شامل ہے۔ اِجلاس میں تینوں رہنماؤں نے سہ فریقی تعاون کو تمام اِنڈو پیسیفک اور اس کی حدود سے باہر بڑھانے پر تبادلہ خیال کیا ہے جبکہ شمالی کوریا کی طرف سے لاحق مسلسل خطرے سے نمٹنے، آسیان اور بحرالکاہل کے جزائر کے ساتھ تعلقات کو مضبوط کرنے پر بھی اِتفاق کیا ہے۔ بین الاقوامی تعلقات کے ماہرین کے مطابق تینوں ممالک اِس سہ فریقی اجلاس کو ادارہ جاتی شکل دینے کی کوشش کررہے ہیں تاکہ آنے والے دنوں میں یہ ایک باقاعدہ، پیش گوئی کے قابل اسٹریٹجک تعاون بن جائے۔ گزشتہ سالوں میں جاپان اور جنوبی کوریا کے مابین تعاون "تین قدم آگے، دو قدم پیچھے جانے والے عمل" کے طور پر جانا جاتا رہا ہے۔جاپان اور جنوبی کوریا کے مابین باہمی تعلقات کے اِس نئے عہد کے آغاز کا بہت سا کریڈٹ جنوبی کوریا کے صدر یون کو جاتا ہے جنہوں نے مئی 2022 میں صدارت کا عہدہ سنبھالا اور جاپان کے ساتھ تعلقات کی بحالی کو اولین ترجیح دی۔ اَلبتہ اس کے ردِ عمل میں جاپانی وزیرِاعظم نے بھی خوش دِلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اِسے قبول کیا ہے.اعلیٰ امریکی حکام اِس سَمِٹ کو ایک تاریخی لمحہ قرار دے رہے ہیں جن کے بقول یہ اِیشیا پیسیفک کی سیاسی بساط پر ایک بہت بڑا اقدام ہے جو دیرپا رہے گا۔ ماضی میں سیئول اور ٹوکیو میں یہ ایک کھلا راز تھا کہ یون اور کشیدا کے پیش رو بالترتیب مون جائی اِن اور شنزو آبے کے مابین اچھے ذاتی مراسم نہیں تھے۔ اس لیے جنوبی کوریا کے صدر مون نے جاپان کے ساتھ تعلقات کی بحالی میں بہت کم دلچسپی لی تھی لیکن امریکی صدر جو بائیڈن کی ذاتی کوششوں کی وجہ سے باالخصوص شمالی کوریا اور چین کے خوف جیسے مشترکہ مفادات کی بنائ￿ پر جاپان اور جنوبی کوریا ماضی کی تلخیوں کو بھلا کر باہمی تعلقات کے ایک نئے دور کا آغاز کررہے ہیں جن کے پیچھے انکے سٹریٹجک مفادات ہیں۔ جاپان اور جنوبی کوریا کے مابین مضبوط باہمی تعلقات کے متعلق مزید پیش گوئی کرنا بھی قبل از وقت ہے کہ آیا یون اور کشیدا کے جانشین سہ فریقی تعلقات کی موجودہ رفتار کو جاری رکھیں گے؟دوسری طرف 2024 میں ہونے والے امریکی صدارتی انتخابات میں حصہ لینے والا ہر شخص چین کے متعلق اگرچہ اپنے آپ کو عقابی اور جارحیت پسند سوچ کا حامل قرار دے رہا ہے، لیکن یہ واضح نہیں ہے کہ جو بھی 2024 میں وائٹ ہاؤس کو سنبھالے گا وہ ایک مضبوط سہ فریقی اتحاد کو ترجیح دے گا یا نہیں؟ دوسری عالمی جنگ کے بعد ابھرنے والا عالمی نظام امریکہ اور سابقہ سوویت یونین کے مابین سرد جنگ کا شکار ہوگیا جس نے تمام دنیا بالخصوص پسماندہ اور ترقی پزیر ملکوں پر منفی اثرات ڈالے جس کا خمیازہ انہیں باہمی مخاصمتوں اور کشمکش کی صورت میں بھگتنا پڑا۔ بین الاقوامی تعلقات کے ماہرین میں یہ خدشہ پایا جاتا ہے کہ امریکہ اور چین کے مابین جاری معاشی مسابقت ایک مستقل مخاصمت میں تبدیل ہوکر دوسری سرد جنگ کی شکل اِختیار کرسکتی ہے۔ اَمریکی صدر جو بائیڈن کا بارہا یہ کہنا کہ مغرب کو چین اور روس جیسی مطلق العنان حکومتوں کے ساتھ لڑائی کا سامنا ہے آئیڈیالوجی کی جنگ کی طرف کا اشارہ ہے جو اَمریکہ اور روس کے مابین سردجنگ کا خاصا تھی۔ اَلبتہ چینی قیادت نے اِس بات کی ہمیشہ نفی کرتے ہوئے اِسے سرد جنگ کی ذہنیت قرار دیا ہے۔ وقت کا تقاضا ہے کہ ممکنہ دوسری سرد جنگ سے بچاؤ کے لیے اَمریکہ اور چین سمیت عالمی رہنماؤں کو ذمہ دارانہ رویہ اِختیار کرنا چاہیے۔