مشہور شاعر جرأت پیدائشی نابینا نہیں تھے۔ جوانی میں وہ اندھے پن کی اداکاری کرتے رہے۔ پرانے زمانے میں غیر مردوں سے بھی، کم از کم کانا پردہ کیا جاتا تھا۔ لیکن اندھے سے کیا پردہ؟ اندھے پن کے پردے میں، جرأت کو حسینوں کے دیدار، بے روک ٹوک نصیب ہوتے تھے۔ ان کی رسائی بیٹھک سے آگے، زنان خانے تک تھی۔ لیکن کرنی خدا کی ایسی ہوئی کہ ان کی آنکھیں سچ مچ جاتی رہیں۔ خدا جانے یہ شعر اسی واقعے کی یادگار ہے یا نہیں۔ ہے سراسر افسوس کا مضمون۔ رونا آتا ہے ہمیں رونے پہ اپنے یارو اس قدر روئے کہ آنکھوں کو بھی رو بیٹھے ہم ممکن ہے کہ انسان لنگڑے پن کی اداکاری کرے اور یہ حالت مستقل ہو جائے۔ بدمعاشی کی ادا کاری کرے اور سچ مچ بدمعاش بن جائے۔ مگر یہ محال ہے کہ شرافت کی صرف اداکاری کرنے سے، آدمی شریف بن جائے! اس لیے کہ اس اداکاری کی بنیاد ہی بدمعاشی پر ہے! یہ صرف دل کی صفائی ہے، جو انسان کو آئینے کے مانند چمکا دیتی ہے۔ بقول ِمیر ؎ دل نے ہم کو مثال ِآئینہ ایک عالم کا رْوشناس کیا افراتفری اور آپا دھاپی کے اس دور میں، لوگوں کو سب سے زیادہ فکر، اس بات کی رہتی ہے کہ ہمارا پبلک امیج، کیا بن رہا ہے۔ اس میں سب سے بڑا کردار، کیمرے کا ہے۔ کیمرے کی آنکھ جتنی بْت تراش ہے، اتنی ہی بت شکن بھی ہے! کیسے کیسے بْت، کیمرے کی بلا توڑتی جاتی ہے۔ اور وہ صرف اس لیے کہ ع چوں بخلوت می روند، آن کار ِدیگر می کنند چہرے پر سجایا ہوا ماسک، تنہائی میں جب اترتا ہے تو ایک اور ہی، لیکن اصلی شکل سامنے آتی ہے۔ شومئی قسمت، ایسے میں اگر کیمرا یا کوئی ریکارڈر آن ہو تو قصور کِس کا؟ ان دنوں یہ شکایت بھی عام ہے کہ فلاں جماعت کے حمایتی، گالی گلوچ بہت کرتے ہیں۔ کبھی وہ بھی زمانہ تھا کہ سیاست عدم رواداری اور نری دشنام دہی نہیں تھی۔ مخالفین کو الٹا لٹکا دینا اور اختلاف کرنے والوں پر گالیوں کے جھاڑ باندھ دینے کی روایت، بھٹو صاحب سے شروع ہوتی ہے۔ سیاسی جلسوں میں مغلظات کا سر ِعام استعمال، سب سے پہلے انہی نے کیا۔ قائد ِعوام کی اس ’’عوامی‘‘ زبان کے باوجود، پیپلز پارٹی کا یہ عمومی مزاج نہ بن سکا۔ یہ کار ِخیر، میاں نواز شریف اینڈ کو کے لیے اٹھ رہا۔ سن اٹھاسی میں جب بے نظیر وزیر ِاعظم بنیں تو قومی اسمبلی میں ان کا استقبال، شریف برادران کے اہالی موالی، فحش پھبتیوں سے کیا کرتے۔ یہ پھبتیاں بعض اوقات اتنی نازیبا ہوتی تھیں کہ شیطان کے بھی کان بہرے ہو جائیں۔ بات یہیں تک نہیں رکی بلکہ لپاڈگی اور دھینگا مشتی تک پہنچ کر رہی۔ ڈاکٹر شیرافگن میرے جواں مرگ اور نہایت عزیز دوست بیرم خان کے والد تھے۔ ڈاکٹر صاحب بہت پڑھے لکھے اورشریف آدمی تھے۔ میرے والد اظہر سہیل مرحوم مذاقا ًکہا کرتے تھے کہ ڈاکٹر صاحب نے بادام کھا کھا کر، سارا آئین حفظ کر رکھا ہے۔ وہ دن مجھے نہیں بھولے گا، جب اپنے قائد کا اشارہ پا کر، جاوید ہاشمی ڈاکٹر صاحب پر حملہ آور ہوئے۔ شریفوں کے اس شیر نے، مرحوم کی قمیض پھاڑ ڈالی اور ڈاکٹر صاحب حیرت سے دیکھتے ہی رہ گئے۔ دوسری طرف تہمینہ دولتانہ وزیر ِاعظم بے نظیر بھٹو کی طرف لپکیں۔ اگر اس روز بے نظیر کے گرد حلقہ حفاظتی حلقہ نہ بنایا جاتا تو بات بہت بڑھ جاتی۔ یہ واقعات تاریخ ساز ہی نہیں تھے، آئندہ کی سمت کا تعین بھی کرتے گئے۔ سیاست میں بدتہذیبی کی شکایت، کم از کم نون لیگ والوں کو نہیں کرنی چاہیے۔ یہ جو ہنگامہ ہے، جس کی ہر طرف تائید ہے آپ کی تعلیم ہے اور آپ کی تقلید ہے مستحقان ِادب کو، آپ نے رسوا کیا آپ کے دعوائے ِعظمت کی بھی اب، تردید ہے! لیکن کسی بھی میدان کے سارے لوگ, ایک جیسے نہیں ہوتے۔ ع ا "اکثر" ہے رنگ جدا جدا، "اکثر" ہے بْو الگ الگ مجھے اْن پرانے بزرگوں کا نوحہ پڑھنا ہے، جو سخت سے سخت بات، یوں سلیقے سے کہتے تھے کہ کسی کو انگلی اٹھانے کا موقع نہ ملے۔ اور ع آناں کہ خاک را بنظر کیمیا کنند مثلاً چودھری خلیق الزماں۔ وہ کس پائے کے سیاست دان تھے ۔جنرل ایوب خان کے اقبال کا سورج، جب نصف النہار پر تھا، تو چودھری صاحب نے انہیں، خدا جانے کیوں کر راضی کیا کہ جنرل صاحب کو باقاعدہ ایک سیاسی جماعت بنا لینی چاہیے۔ یہ کام کر کے، چودھری صاحب اس وقت کے سربرآوردہ سیاستدانوں سے ملے اور کہا کہ شیر کو پنجرے تک میں لے آیا ہوں، اب اسے بند رکھنا آپ کا کام ہے! مثلا نوابزادہ نصراللہ خان۔ کسی بھی حکومت کے قائم ہونے سے پہلے، اپوزیشن میں ایک نشست پکی ہوتی تھی۔ یہ نوابزادہ مرحوم کی تھی! بڑی نستعلیق اور کڑھی ہوئی شخصیت تھی مرحوم کی۔ دشنام کا تو سوال ہی نہیں پیدا ہوتا، کوئی اوچھا بلکہ سخت فقرہ کہنے سے بھی انہیں گریز رہتا۔ بسا اوقات، صرف ایک برمحل شعر میں، وہ پورا تبصرہ کر جاتے تھے۔ کم لوگ واقف ہوں گے کہ وہ خود بھی شاعر تھے۔ اور پیر صاحب پگاڑا؟ خدا بخشے، ان کا تو جواب ہی نہیں تھا۔ جس زمانے میں پیر صاحب فعال تھے، ملکی سیاست پر ان سے زیادہ گہری نظر کسی کی نہ تھی۔ لوگوں کو پیر صاحب کے بیانات کا، انتظار رہتا تھا۔ محمد خان جونیجو، انہی کی سفارش پر وزیر ِاعظم بنے تھے۔ جب ان میں اور جنرل ضیا ء الحق مرحوم میں بگڑنے لگی، تو پیر صاحب نے اسے چوہے اور بلی کا کھیل قرار دیا۔ چوہے اور بلی کا یہ کھیل، کئی مہینے چلتا رہا۔ لیکن جنرل صاحب کو گرفت کا، کبھی موقع نہیں ملا۔ کہاں یہ پرانے بزرگ اور کہاں یہ تازہ ’’دلیل اور غلیل‘‘ والے! یہ بات بھی یاد رکھنے کے لائق ہے کہ سیاست ہی کی طرح، صحافت کا مزاج بگاڑنے میں بھی، سب سے بڑا ہاتھ شریف برادران کا ہے۔ یہ بندوں کو گنا ہی نہیں، تولا بھی کرتے ہیں! اور اخباروں کو نہیں، یہ اخبار نویسوںکو پڑھتے ہیں! کوئی دلچسپ بیان سنے، ایک مدت گزر گئی۔ لے دے کے ایک حافظ حسین احمد ہیں ، سو انہیں مولانا فضل الرحمٰن کی نظر کھا گئی! کتنا ہنگامہ ہے، کتنی ہائے و ہْو۔ لیکن ایک آواز ایسی نہیں، جسے سننے کو جی چاہے۔ ع اللہ رے سناٹا، آواز نہیں آتی