برازیل،روس،بھارت ، چین اور جنوبی افریقہ پر مشتمل گروپ BRICS کا 15واں سربراہی اجلاس 22 سے 24 اگست کو جنوبی افریقہ کے شہر جوہانسبرگ میں منعقد ہوا ہے۔ اِجلاس کی میزبانی گروپ کے موجودہ صدر ہونے کی حیثیت سے جنوبی افریقہ نے کی ہے۔ اِس سربراہی اِجلاس کی صدارت جنوبی افریقہ کے صدر سیرل رامافوسا نے کی اور ممبران ملکوں کے سربراہان نے شرکت کی ہے، سوائے روس کے صدر ولادی میر پیوٹن کے جنہوں نے اِجلاس میں آن لائن شرکت کی۔ اِس سربراہی اِجلاس کی سب سے اہم بات BRICS کے ممبران کا گروپ کی توسیع کا فیصلہ ہے، جس میں چھ نئے ممالک کو گروپ کی رکنیت دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے،جن میںارجنٹائن،سعودی عرب،اِیران،متحدہ عرب امارات،مصر،اور اِیتھوپیا شامل ہیں، جو یکم جنوری 2024 سے BRICS میں باقاعدہ طور پر شمولیت اِختیار کرلیں گے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ جنوبی افریقہ میں اس سالانہ سربراہی اجلاس کے آغاز سے قبل 40 سے زائد ممالک نے BRICS میں شمولیت میں دلچسپی ظاہر کی تھی جبکہ 23 نے شمولیت کے لیے باضابطہ طور پر درخواست دی تھی۔ بَرِکس، دنیا کے پانچ بڑے ترقی پذیر ممالک پر مشتمل اِقتصادی تعاون کا گروپ ہے جو تخمینہ کے مطابق مجموعی طور پر عالمی آبادی کا 41 فیصد ، عالمی جی ڈی پی کا 24 فیصد اور عالمی تجارت کا 16 فیصد ہے جبکہ توسیع کے بعد عالمی آبادی کا 48 فیصد اور عالمی جی ڈی پی کا 37 فیصد ہوجائیگا۔ عالمی سیاست کے منظر نامے پر اِس وقت اَمریکہ اور چین کے مابین معاشی مسابقت، روس اور یوکرائن کے مابین جنگ جیسے اہم عوامل کارفرما ہیں، جن کے عالمی سیاست پر دوررس نتائج مرتب ہوسکتے ہیں، دوسری عالمی جنگ کے بعد ابھرنے والا عالمی نظام امریکہ اور سابقہ سوویت یونین کے مابین سرد جنگ کا شکار ہوگیا، جس نے تمام دنیا بالخصوص پسماندہ اور ترقی پزیر ملکوں پر منفی اثرات ڈالے، جس کا خمیازہ انہیں باہمی مخاصمتوں اور کشمکش کی صورت میں بھگتنا پڑا۔ بین الاقوامی تعلقات کے ماہرین کے مطابق، اَمریکہ اور چین کے مابین جاری اِقتصادی مسابقت کا نتیجہ ممکنہ طور پر دوسری سرد جنگ کی صورت میں نکل سکتا ہے جس سے بچاؤ کے لیے امریکہ اور چین کے رہنماؤں کو ذمہ دارانہ رویہ اِختیار کرنا چاہیئے۔ عالمی سیاست کے اِس منظر نامے میں BRICS کی کیا اہمیت ہے اور برکس کی حالیہ توسیع عالمی منظر نامے کو کس حد تک متاثر کرسکتی ہے؟ اِس کالم میں اِن نکات پر بحث کی جائیگی۔ 2006 میں ، برازیل ، روس ، بھارت اور چین کے وزرائے خارجہ نے پہلی بار اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے موقع پر ملاقات کی ، جس میں برک (BRIC)تعاون کے آغاز کی نشاندہی کی گئی۔ جون 2009 میں، (BRIC) رہنماؤں نے اپنی پہلی میٹنگ روس میں منعقد کی ، جس میں برک تعاون کو سمٹ لیول پر اپ گریڈ کیا گیا۔ 2011 میں ، جنوبی افریقہ کے باضابطہ طور پر رکن بننے کے بعد ، BRIC کو BRICS میں بڑھا دیا گیا۔ جہاں تک برکس کی حالیہ توسیع کا تعلق ہے، برکس کے پانچ ممبران نے ممکنہ ممبران کی جیو پولیٹیکل پوزیشننگ کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک اسٹریٹجک نقطہ نظر اپنایا ہے اور مختلف خطوں سے چھ نئے ممالک کو مدعو کیا ہے جو اپنے خطوں میں اہم ریاستیں ہیں۔ اِس تناظر میں BRICS کا کردار عالمی افق پر مزید اہمیت اِختیار کرگیا ہے کیونکہ برکس تعاون کا اثر پانچ ممالک سے بڑھ کر گیارہ ممالک تک پھیل گیا ہے جن میں افریقہ، ایشیا، جنوبی امریکہ سمیت مشرقِ وسطیٰ کے تیل پیدا کرنے والے ملک شامل ہیں۔ چین نے حال ہی میں ایران اور سعودی عرب کے درمیان ایک امن معاہدے کی ثالثی کی ہے جس کا اعلان جمعہ 10 مارچ 2023 کو بیجنگ میں چار روزہ مذاکرات کے اختتام کے بعد کیا گیا تھا۔ اب ایران اور سعودی عرب دونوں کو جنوری 2024 میں باضابطہ طور پر برکس میں شامل ہونا ہے۔ افریقی براعظم میں اِیک بڑی فوج کے حامل مصر جیسے ملک کی برکس میں شمولیت اہمیت رکھتی ہے۔ عرب اور مشرق وسطیٰ سے روابط کی وجہ سے بھی مصر کی الگ اہمیت ہے۔ دوسری طرف سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور ایران اپنے اسٹریٹیجک محل وقوع کی وجہ سے اہم ہیں۔ سعودی عرب، ایران، متحدہ عرب امارات اور مصر کی شمولیت کے تناظر میں یہ دلیل دی جا سکتی ہے کہ برکس کی حالیہ توسیع مشرق وسطیٰ پر مرکوز ہے۔ نتیجتاً،برکس کی توسیع جیو اسٹریٹجک، جیو اکنامک اور جیو پولیٹیکل فیکٹرز کی تناظر میں ایک خاص اہمیت رکھتی ہے۔ برکس کی رکنیت بڑھانے کی غرض سے ممالک کو مدعو کرنے کے لیے ایک اور اہم بات 'توانائی کی ضروریات' ہے۔ نئے اراکین کا انتخاب کرتے وقت، برکس ممالک نے توانائی کی مصنوعات کی قیمتوں کے تعین اور تیل کی قیمت کے لحاظ سے اِن ممالک کے کردار کو ضرور مدنظر رکھا ہو گا۔ دوسرے الفاظ میں، حالیہ توسیع "تیل اور توانائی کی ضروریات پر مرکوز" ہے۔ بین الاقوامی تعلقات کے ماہرین بَرِکس کی توسیع کو "بَرِکس پَلس اوپیک" قرار دے رہے ہیں۔ روس کے علاوہ تمام موجودہ برکس ممالک توانائی پیدا کرنے والے ممالک نہیں ہیں۔ انہیں اپنی معیشتوں کو متحرک رکھنے کے قابل بنانے کی ضرورت ہے، لیکن وہ پابندیوں کے اضافی نقصانات میں نہیں پھنسنا چاہتے۔ اگرچہ ہندوستان نے اِیران کو رکنیت دینے کی منظوری دینے میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کیا تاہم اتفاق رائے ہوگیا۔ بَرِکس کی حالیہ دانستہ توسیع کے پیچھے ایک مقصد بَرِکس ممالک کے لیے مقامی کرنسیوں کا استعمال کرتے ہوئے ایک دوسرے کے ساتھ آسانی سے تجارت کرنے کے مواقع پیدا کرنا ہے اور یہ قدم عالمی تجارتی لین دین میں اَمریکی ڈالر کی بجائے دیگر کرنسیوں کے استعمال کی صلاحیت کو بڑھا سکتا ہے، خاص طور پر ایسے ممالک کا نیٹ ورک بنا کر جو ان کی متعلقہ کرنسیوں کی اہمیت کو بڑھا دے گا۔ میرے خیال میں اِس تجارتی نظام سے زیادہ فائدہ اٹھانے والے ممالک میں سے ایک ایران ہے ہوگا۔ برکس میں ایران کی شمولیت یہ بھی ظاہر کرتی ہے کہ ایران سیاسی طور پر اتنا تنہا نہیں ہے جتنا کہ امریکہ چاہتا ہے۔ ہندوستان، مصر، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، اور کسی حد تک، جنوبی افریقہ ایسے ممالک ہیں جن کا ایک پاؤں برکس میں اور دوسرا پاؤں مغربی کیمپ میں ہے۔ تاہم، سعودی عرب، خاص طور پر، اپنے آپ کو اس طرح سے پیش کر رہا ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ صرف اَمریکی کیمپ میں نہیں ہے بلکہ متبادل آپشنز کی تلاش میں ہے۔ اگرچہ بَرِکس ایک سیاسی فورم نہیں ہے، لیکن یہ بن بھی سکتا ہے۔ مغرب کے لیے سب سے زیادہ تشویش ناک بات اِن چھ ممالک کی نہیں جن کا انتخاب کیا گیا ہے بلکہ وہ 40 ممالک ہیں جنہوں نے بَرِکس میں شمولیت میں دلچسپی ظاہر کی ہے۔ جہاں تک ڈالر کی اجارہ داری کے خاتمے کے بارے میں جوش و خروش کا تعلق ہے، اگرچہ اس کی تشہیر نہیں کی گئی ہے لیکن روس کے صدر پوٹن نے بَرِکس کے حالیہ سربراہی اجلاس کے دوران بَرِکس ممالک کے لیے "سنگل کرنسی" کی بات کی ہے۔ مقامی کرنسیوں میں باہمی تجارت کی غرض سے برکس ممالک کے ارادوں کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ پیش گوئی کی جاسکتی ہے کہ آئندہ چند سالوں میں، دنیا کی تین بڑی معیشتوں (برکس ممبران) میں سے دو اَمریکی ڈالر کے بغیر ایک دوسرے کے ساتھ تجارت کر سکتے ہیں۔ اور یہ اَمریکہ کے لیے تشویش کا باعث ہوگا۔