مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناحؒ ایک راسخ العقیدہ مسلمان تھیں۔اگرچہ انہوں نے انگریزی سکولوں میں تعلیم حاصل کی تھی اور بہت دنوں تک قائداعظمؒ کے ہمراہ انگلینڈ میں مقیم رہی تھیں اس کے باوجود دین اسلام ان کے خون میں رچا بسا تھا۔ انہوں نے ہمیشہ مشرقی لباس اور طور اطوار کو ترجیح دی۔ انہوں نے جب سیاسی میدان میں قدم رکھا تو اپنی تقریروں میں ہمیشہ اسلام کی سربلندی کا تذکرہ کیا۔ اپریل 1943ء میں انہوں نے دہلی میں خواتین کے ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: ’’دس کروڑ مسلمان ایک قوم ہیں جن کی اپنی تہذیب ہے۔ زبان ہے‘ روایات ہیں‘ تاریخ ہے اور اپنا ایک سماجی نظام ہے۔ وہ کبھی کسی دوسری قوم کی غلامی قبول نہیں کرسکتے۔‘‘ اسی طرح کے خیالات کا اظہار انہوں نے دہلی ہی میں منعقد ہونے والے خواتین کے ایک اور جلسے میں کیا۔ انہوں نے فخریہ انداز میں کہا: ’’اپنے ورثے میں ہم مسلمانوں کو ایک شان دار تاریخ ملی ہے۔ گو گذشتہ دو سو برس کی گردش زمانہ نے ہمیں بہت پیچھے دھکیل دیا ہے لیکن اسلام کی نشاۃٔ ثانیہ کی لہر دوبارہ چین سے کلکتہ کی جانب حرکت کررہی ہے۔‘‘ قیامِ پاکستان کے بعد مادرِ ملتؒ نے مسلمانوں میں صحیح اسلامی روح زندہ کرنے کی خاطر ہمیشہ دینِ حق کی بات کی اور عوام کو سچا مسلمان بننے کی تلقین کی۔ انہوں نے 11نومبر1947ء کو لاہور میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: ’’ہم مسلمانوں کو ناکارہ اور بے کار قوم قرار دے دیا گیا تھا۔ اس پروپیگنڈے کا ہم پر یہ اثر ہوا کہ ہم خود اعتمادی سے محروم ہوگئے مگر تقسیمِ ہند کے بعد یہ فریب ٹوٹ گیا ہے۔ ہندوستان کے مسلمانوں نے پاکستان حاصل کرکے ثابت کردیا ہے کہ وہ ایک زندہ اور بیدار قوم ہیں۔ لہٰذا اس لغو پروپیگنڈے کا اثر زائل کرنے کے لیے اب ہمیں اپنے فرائض نہایت عمدگی سے ادا کرنے چاہئیں۔‘‘ 28مارچ1948ء کو ڈھاکہ ریڈیو سے قوم کو مخاطب کرکے انہوں نے مملکت پاکستان کے خدوخال یوں واضح کئے: ’’آپ اپنے ادب اور آرٹ میں اسلامی تہذیب اور معاشرت کو زندہ کریں۔ اپنے عظیم ماضی سے رشتہ جوڑیں۔ جس کا کوئی مقابلہ نہیں کرسکتا۔ مجھے یقین ہے کہ آپ پاکستان کو اس کی اسلامی و تاریخی روایات کے شایانِ شان ایک مضبوط اور طاقتور ملک بنانے میں کوئی کوتاہی نہیں برتیں گے۔‘‘ 2نومبر1948ء کو کراچی میں منعقد ہونے والے آل پاکستان مسلم یوتھ کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے نوجوانوں کے سامنے اپنے خیالات کا اظہار ان الفاظ میں کیا: ’’ہمیں اپنے سماجی ڈھانچے کو اسلامی اصولوں پر استوار و منظم کرنا ہے۔ رشوت‘ اقرباپروری‘ بدنیتی جیسی برائیوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا ہے۔‘‘ دراصل محترمہ فاطمہ جناحؒ مملکت خداداد کے نوجوان طبقہ کو اسلامی قدروں سے روشناس کرانا چاہتی تھیں تاکہ وہ آگے چل کر ملک کو مکمل طور پر اسلامی‘ جمہوری اور فلاحی ریاست بنا سکیں۔ وہ نوجوان طالب علموں کے ساتھ ساتھ طالبات کو بھی اسلامی سانچے میں ڈھالنا چاہتی تھیں۔ چنانچہ کراچی کے مدرستہ البنات اسلام کے افتتاح پر30جنوری 1949ء کو انہوں نے مسلمان طالبات کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا: ’’آپ لوگ دنیاوی علم کے ساتھ ساتھ دین کا دامن بھی مضبوطی سے تھامنا چاہتی ہیں اس رجحان پر میں آپ کو مبارک باددیتی ہوں۔ اﷲ کرے کہ ہماری بچیاں صحیح اسلامی زندگی کا نمونہ بن کر یہاں سے نکلیں۔ اسلام ان کے رگ و پے میں رچا بسا ہو۔ وہ اپنے بعد آنے والیوں کے لیے ایک مثال بنیں۔ اگر آپ خلوص اور سچائی کے ساتھ اپنے مذہب کی تعلیمات پر عمل کرتی رہیں تو ہم اس خطہ پاک میں اسلام کے نشاۃٔ الثانیہ کی ضرور بنیاد رکھ سکیں گے۔‘‘ مادرِ ملتؒ کو دین اسلام سے کس درجہ محبت و عقیدت تھی اس کا اظہار ان کی اس تقریر سے بھی ہوتا ہے جو انہوں نے 20فروری 1949ء کو موتمر عالم اسلامی کے زنانہ اجلاس میں کی تھی۔ اس تقریر کا ایک ایک لفظ خلوص و صداقت کی روشنی سے منور ہے اور اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ محترمہ فاطمہ جناحؒ دین اسلام کی تمام خوبصورتیوں اور باریکیوں سے آشنا تھیں۔ انہوں نے فرمایا: اسلام ایک ایسا مذہب نہیں ہے جو محض بندے کے خدا کے ساتھ تعلق تک محدود ہو بلکہ یہ ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے جو ہمارے تمام اعمال و وظائف پر محیط ہے۔ اسلام کے ظہور سے ایک نئی تہذیب جس کی بنیاد عدل‘ انصاف‘ احسان‘ مساوات اور اخوت پر رکھی گئی ہے پوری قوت کے ساتھ عالمِ وجود میں آئی۔ انسانی مساوات‘ انصاف اور اخوت کا یہ سبق محض زبانی طور پر نہیں دیا گیا بلکہ اس کو عملی جامہ بھی پہنایا گیا۔ 23مئی 1949ء کو مادرِ ملتؒ نے ایبٹ آباد میں ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے اسلام کے بارے میں فرمایا: ’’آپ اس امر کو ہرگز فراموش نہ کریں کہ ایمان اور اسلام کی لافانی قوت نے آپ کو پاکستان دلایا ہے اب اس کی بقا بھی اسلام کے اصولوں میں مضمر ہے آپ کو اس وقت تک ہرگز چین سے نہ بیٹھنا چاہیے جب تک آپ اپنے پیارے وطن کے ہر محکمے اور شعبے کو خالص اسلامی اور پاکستانی نہ بنا لیں۔‘‘ محترمہ فاطمہ جناحؒ نے چونکہ دین کا فطرت کی عمیق نگاہوں سے خود مطالعہ کیا تھا اس لیے ان کی نظر میں وسعت اور افکار و عمل میں روشنی تھی۔ وہ اس اسلام کی پیروکار تھیں جو پیغمبرعالمؐنے متعارف کرایا تھا۔ غرض یہ کہ مادرِ ملتؒ اس اسلامی خطہ ارض پر حقیقی اسلامی اقدار کو پروان چڑھتے ہوئے دیکھنے کی متمنی تھیں۔