انسان سبق صرف کتابوں سے حاصل نہیں کرتا، زندگی خود بہت بڑا سبق ہے، ہر قدم ایک نئے تجربے کی بنیاد بنتا ہے جبکہ ہر تجربہ کامیابی یا ناکامی دونوں صورتوں میں کوئی نہ کوئی سبق دیتا ہے۔ بعض فلسفی تو اپنی سوچ کو اس نقطے پر منجمند رکھتے ہیں کہ دنیا میں ناکامی اور کامیابی سرے سے ہوتی ہی نہیں، محض تجربات ہوتے ہیں، بہرحال تجربے انسان کو اپنا اگلا لائحہ عمل مرتب کرنے میں مدد دیتے ہیں۔انسان اپنی تخلیقی فطرت کے مطابق اپنے مستقبل کو آسان اور محفوظ بنانے کی تگ و دو میں مصروف رہتا ہے جبکہ وقت سب سے بڑے مرہم کا کردار ادا کرتا ہے۔ وقت مرہم کی صورت میں زخموں کر بھر دیتا ہے اور افراد مستقبل کی جانب گامزن ہو جاتے ہیں۔ افراد کی ایسی کاوشوں کی بدولت معاشروں کے رجحانات طے پاتے رہے اور دنیا کے نقشے پر بیشتر ممالک ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک کی صفوں میں شامل ہوگئے۔ ہر معاشرے کے رجحانات وہاں کے ممالک کے مروجہ قوانین اور آئین کے تابع تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔ پاکستان 14 اگست 1947ء کو حضرت قائد اعظم محمد علی جناح کی قیادت میں معرضِ وجود میں آیا ۔ وطن عزیزمیں ہر دور میں محسوس یا غیر محسوس انداز میں عام آدمی کو زندگی سے حاصل کردہ سبق کی روشنی میں اپنے مستقبل کے لائحہ عمل کو مرتب کرنے کے بعد اس پر عمل پیرا ہونے سے روکا گیا ۔ جس کے نتیجہ میں آج ہنر مند قابل نوجوانوں کی اکثریت دیار غیر نقل مکانی کر رہی ہے جبکہ اندرون ملک موجود افراد زندگی کے مختلف شعبہ جات میں خود کو غیر مستحکم تصور کرتے ہیں۔ لیبر لاز کا وجود فقط قانون کی کتابوں تک محدود ہے، ان کا اطلاق کہیں نظر نہیں آتا اور سرمایہ درانہ نظام کو مزید استحصال کی راہ دکھاتا ہے۔ تعلیم یافتہ مڈل کلاس حالات کی بے رحمی کے باعث اپنے حق ترقی سے مسلسل محروم ہے جبکہ معاشرے میں معاشی ناہمواری ایسی محرومی کو جنم دے چکی ہے کہ پڑھا لکھا تنخواہ دار طبقہ ریٹائرمنٹ کی عمر کو پہنچ کر بھی تا وقت مرگ روزگار ہاتھ سے چھن جانے کے خوف میں مبتلا رہتا ہے۔ دوسری جانب مادر وطن میں بیوروکریسی کا سرکش گھوڑا بھی کسی کے ہاتھ میں آنے کو تیار نہیں اور شائد کوئی حکمران اسے لگام ڈالنے کو تیار بھی نہیں، ہر حکمران کی خواہش ہوتی ہے کہ بیوروکریسی کو صرف اور صرف اپنے مفادات کی تسکین کیلئے بروئے کار لایا جائے۔ بیوروکریسی نے اسے اپنی چاندی کے مواقعے قرار دے لیا ہے، لہذا نوکر شاہی کا اپنے اپنے متعلقہ محکمہ جات میں رہتے ہوئے مسائل حل کرنے کی بجائے خود ایک بڑا مسئلہ بننا کوئیحیرت کی بات نہیں، یہ حالات بلاشبہ اقتدار کے مراکز سے پیدا کیے جاتے ہیں اور ہماری تاریخ کے مطابق قیام پاکستان کے ابتدائی برسوں میں بیوروکریسی کی طاقت سے پیدا ہونے والے بحران آج تک ختم نہیں ہوسکے البتہ 1985ء کے غیر جماعتی انتخابات کے نتیجہ میں ایسے تمام مسائل اور بحران دوچند ہو کر نئے زاویوں سے سامنے آئے۔ 1985 کا سیاسی ڈھانچہ انتقام کی بنیادوں پر کھڑا کیا گیا تھا، لہذا سیاست کی الف ب سے ناآشنا نومولود سیاسی بونوں کی موجودگی کے باعث بیوروکریسی نے ان کے ذاتی کام کاج پر توجہ دینی شروع کردی اور اس طرح سے وہ بیوروکریسی جو قیام پاکستان کے ابتدائی برسوں میں حکمرانوں کی کامیابی یا ناکامی کا باعث ٹھہرتی تھی، اس کی اہمیت بھی گھٹنے لگی۔ آج پولیس، انتظامیہ غرضیکہ کسی بھی سرکاری محکمے اور آفیسران کی بات کرلیں، ان کے پاس لامحدود اختیارات تو ضرور ہیں لیکن ان کا استعمال حکومتوں کی ہدایات کا مرہون منت ہے۔ موجودہ وقت کی بیوروکریسی اپنے محکمانہ فرائض کی ادائیگی کی بجائے جو معاملات اس نے چلانے ہیں، ان میں خود سب سے بڑی رکاوٹ ہے، عام آدمی کا غربت کی چکر سے نکنا، ان تمام کرداروں نے مشکل اور بڑی حد تک نا ممکن بنا رکھا ہے۔ ترقی کے مواقعوں پر تالے لگانے والوں میں سب برابر کے قصوار ہیں۔ حالیہ دنوں میں اس تناظر میں سب سے واضح مثال عمران خان کی ہے، ان کی اپنی حکومت کوئی زیادہ کامیاب نہیں تھی بلکہ موجودہ ناکام ترین حکومت کے بعد عمران خان کی حکومت کامیاب لگتی ہے، تاہم عمران خان کا اصل قصور جو تصور کیا جا رہا ہے، وہ یہ ہے کہ انھوں نے اس پورے نظام کو چیلنج کر دیا ہے جو معاشرے کے افراد کو اشرافیہ کی مانند مستقبل کی جانب ترقی کرنے سے روکتا ہے۔ ہماری من حیث القوم، معاشرہ اور مملکت بدقسمتی ہے کہ ہم عام آدمی کو راستہ دے کر ترقی کو یقنی بنانے کی بجائے بڑی ڈھٹائی کے ساتھ اس کا راستہ روکنے میں مصروف ہیں اور حکمران اشرافیہ اسے اپنی کامیابی گمان کرتی ہے، عام آدمی ملازم ہو یا کاروباری اسے حالات سے بیزار کرنا پورے نظام نے اپنا فرض سمجھ لیا ہے۔ سرکاری محکمے، افسر شاہی عام آدمی کی حقیقی معنوں میں ناک سے لکیریں نکلوا رہے ہیں، یہ پاکستانی معاشرے کے باسیوں کے مضبوط اعصاب ہیں کہ وہ ان حالات کا بھی مقابلہ کر رہے ہیں۔ نا امید ہو بھی جائیں تو پھر پر امید ہو جاتے ہیں، زندگی سے سبق سیکھتے ہیں، آگے بڑھنے کی جستجو میں مگن رہتے ہیں۔ زندگی کے سبق کو مقدر مان لیتے ہیں، وقت کی مرہم پٹی سے توانائی حاصل کرتے ہیں۔ قربانی کی ایسی زندہ تصویر ہیں ہم کہ مشرق و مغرب میں ترقی یافتہ کہلوانے والی ریاستوں کے مکین اس کا تصور بھی بجا نہ لا پائیں لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ ہمارے حکمران سبق حاصل کرنے کیلئے تیار نہیں، وہ عام پاکستانی کی بیزاری کو بغاوت سے تعبیر کر رہے ہیں، یہ جاننا ان کیلئے ناجانے کیوں مشکل ہو چکا ہے کہ عام آدمی کی ترقی کے بغیر موجودہ دور میں ان کی اپنی ترقی ممکن نہیں، وجوہات اس کی بیشتر ہیں، سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ زندگی کا سبق انھیں ہر حال میں راستہ اور حق مانگنے یا چھیننے پر مجبور کر رہا ہے۔ آپ خود فیصلہ کریں: ایسی کیفیت سے دوچار افراد کا راستہ روکنا دانشمندی ہے؟