وہ جو بیچتے ہیں دوائے دل اُن کا ایک اور تجربہ ناکام ہو گیا۔بقول شاعر۔۔۔اب یہاں سے کہاں جائیں ہم؟ مگر سوال جتنا سادہ ہے،جواب اتنا سادہ نہیں۔وہ تجربہ جو روٹین لیڈر شپ ہٹانے کا کیا گیا تھا ناکام ہو گیا۔وجہ؟اُن کے مطابق عمران اُس توازن سے محروم تھا جو سیاست میں درکار ہوتا ہے۔پنڈتوں کا ایک حصہ بشریٰ بی بی کے غلط فیصلوں کو قرار دیتا ہے۔کچھ ایسے مشیر بھی تھے جو عمران کو بند گلی میں لے گئے۔وہ دوستوں کو تیزی سے ناراض کرتے چلے گئے۔سیاسی حریفوں سے تو لڑ ہی رہے تھے مگر اپنے سرپرستوں سے بھی الجھتے چلے گئے۔ ہمارے جیسے ملکوں میں، ہم جیسے سماجوں میں مسیحا کی تلاش ایک پرانی کہانی ہے۔کرشمہ ساز لیڈر شپ کی تلاش۔۔۔مسائل بے شمار اور وسائل پر صرف5فیصد قابض۔ایسے میں ہر شخص کسی شارٹ کٹ کی تلاش میں ہوتا ہے۔عوام بھی۔پھر کوئی ذوالفقار علی بھٹو ابھرتا ہے تو کہیں جمال عبدالناصر،کبھی سوئیکارنو تو کہیں مائو زے تُنگ اورکبھی امام خمینی۔پاپولر لیڈر شپ میں اخلاص ہو،انقلاب دشمن زیادہ طاقتور نہ ہوں توکبھی کبھی بات بن جاتی ہے جیسے چین اور ایران۔جب کبھی تبدیلی لانے کی کوشش کی جائے تو ایک پڑھا لکھا لیڈر زمینی حقیقتوں کا گہرا مطالعہ کرتا ہے ورنہ انقلاب کا خواب صرف خواب ہوتا ہے اور پھر آنکھ کھل جاتی ہے۔اب اگر عمران یا اُن کی مڈل کلاس ٹیم یا کوئی گھڑ سوار شخص یا اشخاص یہ سمجھ رہے تھے کہ پاکستان کی تقدیر بدل جائے گی تو۔۔۔یہ نہ تھا میں نے فقط چاہا تھا یوں ہو جائے۔ پنجابی محاورے کے مطابق گدھی برگد کے درخت تلے واپس آ کر گُم سُم کھڑی ہے۔مگر بہت سا وقت ضائع ہو چکا ہے۔وقت کرتا ہے پرورش برسوں۔۔۔حادثہ ایک دم نہیں ہوتا۔پاکستان کے ساتھ پچھلے 75 سالوں میں ہر قسم کی اشرافیہ(Elite)نے جو کیا وہ ایک مقالے کا موضوع ہے۔سب اپنے اپنے حصے کی بالٹیاں اس کنویں سے نکالتے رہے۔سیاستدان،صنعتکار،بیوروکریسی،جاگیردار،خاکی افسر، مذہب کے اجارہ دار اور پھر میڈیا بھی۔تو پھر کیا ہونا تھا؟ یہی کچھ۔عمران کی آمد سونے پر سہاگہ ثابت ہوئی۔۔۔موم کے مکانوں پر دھوپ تھی اور اسے لانے والے شیشے کا سائبان بھی لے آئے۔اب نا معاشی استحکام ہے نہ سیاسی۔صرف اب کا بجٹ نہیں،سب برسوں کے سب بجٹ نکال کر دیکھ لیں۔Elite Captureہے۔کسی کی بھی حکومت ہو،کوئی بھی وزیر اعظم ہو۔5فیصد دیاں موجاں ای موجاں۔باقی کروڑوں شناختی کارڈ نمبرز رُلتے رہیں گے۔اس Elite Captureکو میرے استاد جن جپھا بھی کہتے ہیں۔ اشرافیہ ہر ملک اور ہر سماج میں ہوتی ہے مگر عام آدمی کو روٹی کپڑا مکان اور تعلیم کی سہولت ہر اشرافیہ دیتی ہے۔مگر پاکستان کی یہ 5 فیصد کلاس آدم خور کلاس ہے۔روم جل رہا ہے اور سینٹ کی مراعات اپنی بانسری بجا رہی ہیں۔یہ ایک مائینڈ سیٹ ہے،ایک رویہ ہے،ہمارے سروں پر مسلط جعلی حکمرانوں کا۔الحمد للہ اگر یہ قابض طبقات کا رویہ ہے تو ماشا ء اللہ محکوم عوام بھی جگاڑیے ہیں۔ایک پنڈت کے مطابق کسی کی چونچ ہے کسی کا جبڑا اسی لیے ہر کوئی ہے اپنی اپنی جگہ نیت کا کُبڑا۔ اشرافیہ کے ڈسے ہوئے اس ملک میں سونے پر سہاگہ یہ ہے کہ آبادی کو کنٹرول کرنا ہر حکومت کی ذمہ داری ہے ورنہ ہر قسم کی رتی تولہ ترقی بھی اونٹ کے منہ میں زیرہ بن جاتی ہے۔مگر کمال کی حکومتیں ہیں ، آبادی100میل فی گھنٹہ کی رفتار سے بڑھ رہی ہے اور یہ ڈرتے ہیں ایک خاص طبقے سے،کہ کہیں جبہ و دستار کے امین ہمارے خلاف فتوؤں کی فیکٹری نہ کھول دیں۔کبھی کسی حکومت نے ان سے مؤدبانہ گذارش نہیں کی کہ حضور،محترم،قبلہ ہمارے وسائل مر رہے ہیں،قرضے بڑھ رہے ہیں۔آپ ذرا عوام سے درخواست کر دیں کہ وہ خاندانی منصوبہ بندی پر غور فرمائے۔آبادی کا عفریت کسی لیڈر کی ترجیح میں شامل ہی نہیں۔شہر اتنے پھیل گئے ہیں کہ ہائوسنگ اسکیموں کا جال ہے اور ہری بھری کھیتیاں غائب ہوتی جا رہی ہیں۔باقی اللہ بھلا کرے،میڈیا اور سوشل میڈیا کا۔ملک چل نہیں رہا،ڈیفالٹ، ڈیفالٹ کی صدائیں ہیں اور بابرکت میڈیا اور متبرک سوشل میڈیا پر کثیر طرفہ لڑائی جاری ہے۔یہPDMہے۔یہ عدلیہ کی باہمی لڑائی ہے۔یہ اسٹیبلشمنٹ کا رُخ ہے۔ آصف زرداری یہ چال چلنے والے ہیں۔ میاں نواز شریف بنفسِ نفیس آ رہے ہیں۔ مریم نواز قیمتی ترین لباس اور میک اپ کے ساتھ انقلاب لا رہی ہیں۔شہباز شریف روٹین کا پرانا بجٹ لا کر داد کے خواہشمند ہیں۔عمران کولانے والوں کو کس حکیم نے کہا تھا پاکستان کی لڑکھڑاتی نائو پر ایک اور تجربہ کرڈالیں۔کیا جنرل ضیاء اور جنرل مشرف کی برکات کافی نہ تھیں؟مگر تاریخ کا سب سے بڑا سبق یہ ہے کہ تاریخ سے کوئی کچھ نہیں سیکھتا۔جنرل شجاع پاشا،جنرل ظہیر الاسلام،جنرل قمر باجوہ اور جنرل فیض حمید بھی۔جیسے جیسے تاریخ عمران دور کے چھلکے اتارے گی،رہ رہ کر اس گھائو کی گہرائی کا احساس ہو گا۔موورز اور شیکرز پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کی ادائوں سے پریشان تھے،مگر عمران بھی کچھ مختلف ثابت نہ ہوا بلکہ ان کا رویہ زیادہ بدصورت،بھونڈا اور کرخت تھا۔وہ اپنے فین اور فالوئرز کو کہتے تھے کہ ہم کوئی غلام ہیں اور خود غلام تھے جن کے اُن کو کبھی تڑیاں لگاتے تھے اور کبھی اُن کے ترلے اور منتیں کر تے تھے۔اب جو لیڈر شپ پاکستان کو میسر ہے اس سے کیا کوئی توقعات وابستہ کی جاسکتی ہیں؟اگر اس کو جمہوریت کہتے ہیں تو یہ کیسا ڈریس پہنے گی اور کیسا میک اپ کرے گی۔الیکشن کیسے ہوں گے؟ کون کون کوجیتے گا؟کون کون منظر سے ہٹے گا؟عمران کا ووٹ بینک۔۔۔کس کا مقدر ،کس کا نصیب ہو گا؟کیا کوئی بھی حکومت کی صورت میں یا لیڈر شپ کی شکل میں پاکستان کے بے وقوف عوام کو اس "جن جپھے "سے رہائی دلوا سکتا ہے؟ اس کا جواب دیوار پر لکھاہوا ہے۔کبھی نہیں۔۔۔نواز شریف آ بھی جائیں تو کیا؟بلاول بھٹو وزیر اعظم بن بھی جائیں تو کیا! ترین اور علیم حکومت میں آ بھی جائیں تو کیا؟۔’’تبدیلی آ نہیں سکتی کبھی کاغذ کے پھولوں سے‘‘۔