فیصلہ مجھے ہی نہیں پوری قوم کو عجیب لگا ہے۔ مگر یہ قانون کا فیصلہ ہے۔ قانون سے اس سے بہتر فیصلے کی امید نہیں ہوتی۔ انصاف اور قانون دو مختلف چیزیں ہیں۔ قانون کتابوں میں ہوتا ہے ۔ کتابوں میں لکھا صحیح بھی ہو سکتا اور غلط بھی ۔یہ جج ہوتا ہے کہ جس کو یہ فیصلہ کرنا ہوتا ہے کہ یہاں قانون کا اطلاق کتنا ہونا اور کیوں ہونا ہے اور انصاف کا تقاضہ کیا ہے۔ قانون کتاب کا محتاج ہے جب کہ انصاف عقل کا شعور کا۔کتاب حوالہ ضرور ہوتی ہے مگر فیصلہ شعور کا کارنامہ ہوتا ہے۔ ہمارے جج زیادہ تر قانونی ہیں۔ ایک سیاسی پارٹی سے اس کا نشان چھین لینا ، گو ایک قانونی فیصلہ ہے جو قانون کے مطابق تو ٹھیک ہو گا ، اس پارٹی کو بھی فرق ڈالے گا جس نے کچھ غلط کیا مگر میرے جیسے غیر سیاسی اور کم پڑھے لکھے اس فیصلے سے زیادہ متاثر ہونگے۔ میرے جیسے لوگ ڈھونڈھ رہے ہوں گے کہ اب بھینگن کو ووٹ دینا ہے کہ کوئی آلو اور مٹر بھی مقابلے پر ہے۔یہ بھی ہو سکتا ہے کہ قومی اسمبلی کا ووٹ کسی بھینگن کا ہو مگر صوبائی اسمبلی کا ووٹ کسی آلو کی قسمت ٹھہرے۔ قانونی فیصلے تو پھر اسی طرح کے ہوتے ہیں۔ اس لئے کہ وہ عقل کی کسوٹی پر نہیں مفادات کی کسوٹی پر کئے جاتے ہیں۔ انصاف بہر حال بہت مختلف ہوتا ہے۔ آج فیصلہ کرنے والوں کو فیصلہ کرتے ہوئے محسوس نہیں ہوتا مگر آنے والا کل تو دور کی بات ہے میڈیا کے تبصرے بتا دیتے ہیں کہ یہ فیصلہ سر آنکھوں پر بٹھانے کے لائق ہے یاکہ نہیں۔ حال پولیس کے حصار میں کٹ جاتا ہے اورمستقبل کا کیا ہے ۔ وہ پتہ نہیں کہاں ہوں گے۔ مفادات کے تحت انصاف کے اصولوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے جو قانون کی کتابوں کے مطابق فیصلے کئے جاتے ہیں ان کی شہرت اگر کوئی جان لے تو مستقبل میں تاریخ میں اپنے مقام کو پہچان لیتا ہے۔ہاںبھلے وہی لوگ ہوتے ہیں جو مستقل میں اپنی ساکھ کی پرواہ کئے بغیر فیصلہ انصاف سے کرتے ہیں۔سچ تلاش کرتے ہیںاور فیصلہ لکھتے ہوئے رب کی ذات کو گواہ رکھتے ہیں۔ کتابیں بھی ان کے زیر مطالعہ ہوتی ہیں مگر وہ روبوٹ نہیں ہوتے۔ اپنے فہم سے اپنے شعور سے لوگوں کے لئے آسانیاں پیدا کرتے ہیں۔یہی لوگ تاریخ میں اعلیٰ مقام پاتے اور ہمیشہ زندہ رہتے ہیں۔ امریکہ کی ایک عدالت میں ایک بارہ تیرہ سالہ بچہ پیش کیا جاتا ہے کہ اس نے ایک سٹور سے بریڈ چرائی ہے۔جج صاحب پوچھتے ہیں، بیٹا بریڈ چرائی۔ بچہ جواب دیتا ہے کہ بالکل چرائی۔ اگلا سوال تھا کیوںچرائی۔ جواب ملا، بھوکا تھا کیا کرتا ، کھانے کوچرائی۔اپنے گھر میںتم نے کیوں نہیں کھایا۔ بچہ کہنے لگا کہ گھر میں صرف ایک میری ماں ہے وہ بیمار ہے اور پورے دن سے بھوکی بھی تھی۔ گھر میں کھانے کو کچھ نہیں تھا کیا کرتا۔جج نے کہا، کسی رشتہ دار یا جاننے والے سے منت کی ہوتی۔ بچے نے گن کر بتایا کہ میں فلاں فلاں جاننے والے اور اس اس رشتہ دار کے ہاں گیا کسی نے میری مدد نہیں کی۔ جج نے کہا کہ مزدوری کر لیتے۔بچے نے پھر ایک لمبی لسٹ بتا دی کہ میں کس کس ادارے کے پاس گیا کہ مجھے نوکری دے دیں، کوئی وقتی کام ہی دے دیں، مگر کسی نے مجھ پر رحم نہیں کھایا۔ میں بھوکا تھا، گھر میںمیری ماں بھوکی اور بیمار تھی۔ پتہ نہیں اب وہ کس حال میں ہے۔میں مجبور تھا اس لئے یہ چوری کی۔ بچے کی بات سن کر جج کی آنکھ میں آنسو تھے۔ جج نے کہا یہ بچہ نہیں، اصل میں یہ سارا معاشرہ مجرم ہے جو ایک بھوکے بچے کو روٹی بھی فراہم نہیں کر سکا۔ یہ بات جو بچہ اس وقت عدالت میں بتا رہا ہے یہ اس نے پکڑنے والوں کو بھی بتائی ہو گی۔ پولیس کو بھی یہ بیان دیا گیا ہو گا۔ مگر کسی کو اس پر رحم نہیں آیا۔جج نے اپنی جیب میں ہاتھ ڈالا۔ دس ڈالر نکالے اور کہا کہ بچے کے ساتھ زیادتی سارے معاشرے کا جرم ہے اور اس معاشرے کے فرد کی حیثیت سے میں دس ڈالر جرمانہ اس بچے کو دے رہا ہوں اور یہاں موجود ہر شخص یہ دس ڈالر جرمانہ ادا کرے گا۔ سٹور والوں کو زیادہ جرمانہ کیا گیا جو بچے کو دلایا گیا اور بچے کو چوری کے الزام سے بری کر دیا گیا۔ قانون اور انصاف میں یہی فرق ہے ۔ جج کو قانون کا پتہ تھا۔ قانون کی کتابیں اس کے ارد گرد پڑی تھیں۔ قانون دان اپنے جوہر دکھانے اس کی عدالت میں موجود تھے۔ مگر اس نے ایک اچھوتا فیصلہ کیا۔ ایک ایسا فیصلہ جس نے سارے قانون رد کر دئیے۔مگر یہ فیصلہ منطقی اور حقیقی انصاف تھا جس کوسارے معاشرے اور ساری دنیا نے قبول کیا۔کسی نے اس پر تنقید نہیں کی بلکہ اس فیصلے نے اس جج کی عزت اور وقار میں اس قدر اضافہ کیا کہ دنیا آج اسے اچھے الفاظ میں یاد کرتی ہے۔اس کا فیصلہ انصاف کے حوالے میں استعمال ہوتا ہے۔ قانون کے شکنجے میں پھنسے ہوئے کتابی فیصلے کبھی شاندار نہیں ہوتے۔ عقل اور شعور سے کئے گئے فیصلے اچھے ، شاندار اور مستقل ہوتے ہیں ۔ ایسے فیصلے جن میں مجرم کو سزا ہو یا اس کی اصلاح ہو جائے ، مقدمہ اپنے انجام کو پہنچ جائے اور خلق خدا کو کوئی نقصان نہ پہنچے۔ ہماری اعلیٰ عدالتیں تو خیر بہت بہتر ہیں مگر ہماری چھوٹی عدالتوں کا مزاج کچھ سمجھ نہیں آتا۔ ضروری ہے کہ ہر سطح پر ججوں کی سلیکشن کے لئے ایک معیار مقرر ہو ۔ ججوں کو امتحان دینا ہو اور اس امتحان کی بنیاد پر ان کی تعیناتی ہو۔ گو ڈر ہے کہ اس میں تجربے اور کارکردگی والے وکیل تازہ پڑھے لکھے کتابی وکیلوں سے مات ہو جائیں گے مگر کوئی نہ کوئی اصول توطے کرنا پڑے گا۔