صدیوں پہلے عباسیوں کے عروج کا زمانہ ہم پہ حیرت کے کئی در وا کرتا ہے۔ زراعت پر پورے سائنسی انداز میں توجہ دی جا رہی تھی۔اسی طرح صنعت و حرفت پر عباسیوں نے بڑی بھر پور توجہ دی۔ یہاں تک کہ جنگی جہاز بنا ڈالے۔ اس دور کو اپنے تصور میں لائیے کہ جب ابھی علم طب کی بنیاد رکھی جا رہی تھی ۔کیمیا کی بنیاد رکھی جا رہی تھی، مشینیں نہیں تھیں۔ یورپ اس وقت اندھیروں میں ڈوبا ہوا تھا لیکن ادھر عباسیوں نے صنعت و حرفت میں شاندار ترقی کی ۔ ڈاکٹر حسن ابراہیم حسن کی کتاب مسلمانوں کی سیاسی تاریخ میں ایک باب ہے جو عباسیوں کی صنعت و حرفت میں ترقی اور تجارت کے حوالے سے ہے۔ایک جھلک ذرا عباسیوں کے کارناموں کی دیکھئے۔ قلم رو عباسیہ میں فارس اور خراسان میں چاندی، پیتل سیسہ اور لوہے کے کارخانے ، بیروت کے قریب لوہے کی کانیں تھیں۔ بصرہ صابن سازی اور شیشہ سازی کے صنعت میں بہت مشہور تھا۔ معتصم نے اپنے عہد میں متعدد شہروں میں ورق سازی کے کارخانے قائم کیے ۔اس صنعت کی تعلیم کے لیے مصر سے ماہرین بلوائے گئے۔ مصر ورق سازی کی صنعت میں عرصہ دراز سے بہت مشہور تھا۔ اس زمانے میں مسلمان ریشم واطلس کے کپڑوں کی صنعت میں امتیازی درجہ رکھتے تھے۔ فارس، عراق اور شام کی منڈیوں میں ان نفیس کپڑوں کی بڑی مانگ تھی۔کوفہ، دمشق اور مصر اپنے ریشمی کپڑوں کی صنعت میں مشہور تھے۔اس شہر میں خلفاء کے لیے خاص کپڑا بنایا جاتا تھا جسے بدنہ کہتے تھے۔ اس میں صرف دو اونس تانا بانا ہوتا تھا باقی سارا خالص سونے کا کام ہوتا تھا۔اس کی بناوٹ بڑی مضبوط ہوتی تھی۔ اس کپڑے کی قیمت ہزار دینار تھی ۔تاریخ میں کسی دوسری جگہ کے بنے ہوئے سوتی کپڑے کے تھان کی قیمت 100 دینار سے زیادہ نہیں تھی۔اس سے اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ خلافت عباسیہ کے دور میں امراء کس طرز زندگی کے مالک تھے ۔اس تاثر کو مزید تقویت اس وقت ملتی ہے جب ہم پڑھتے ہیں کہ دوسری صدی ہجری کے شروع میں بلاد شام، جو شیشے کی ظروف سازی کے لیے مشہور تھا یہاں امرا اور بادشاہوں کے شیشے کے برتن بنتے جن پر سونے کے پانی سے مینا کاری کی جاتی تھی۔ اس زمانے میں بلاد شام کے کاریگر شیشے پر سونے کے پانی ودوسرے مختلف رنگوں سے نقش و نگار بنانے میں غیر معمولی ملکہ رکھتے تھے۔ عباسیوں کے دور اول میں دارالخلافہ بغداد میں مختلف صنعتوں کے کارخانوں کی بہت بڑی تعداد موجود تھی ۔ مورخین کا بیان ہے کہ اس دور میں بغداد میں چار سو پن چکیاں تھیں۔ چار ہزار شیشہ کی صنعت کے کارخانے تھے۔30 ہزار ظروف گری کے کارخانے تھے۔مصر کے باشندے فراعنہ کے زمانے سے معدنیات کی صنعت و سونے اور چاندی کا پانی چڑھانے کی صنعت میں مشہور تھے۔ عباسیوں کے دور اول میں مصر دریا میں چلنے والے جہازوں کی صنعت میں بہت شہرت رکھتا تھا۔ان جہازوں سے دریائے نیل کے ایک سرے سے دوسرے سرے پر پیداوار کی نقل و حمل کا کام لیا جاتا تھا۔ مصر جنگی جہازوں کی صنعت میں بھی مشہور تھا۔اس زمانے میں مصر کے بنے ہوئے جنگی جہاز دنیا بھر میں مشہور تھے۔ اندلس میں مختلف کانوں سے مختلف معدنیات نکالی جاتی تھیں۔ سونا ان کانوں سے نکالا جاتا تھا جو دریائے تاجہ کے ساحل پر واقع تھیں۔ قرطبہ کے بعض حصوں سے چاندی بھی نکالی جاتی تھی۔قرطبہ چمڑے کی صنعت کا مرکز تھا۔بلاد اندلس جنگی آلات ڈھالنے، نیزے بنانے ، زینیں ،لگامیں ، زرہیں اور جہاز سازی کی صنعت میں بہت شہرت رکھتے تھے۔ اندلس میں زیتون سے تیل نکالنے کی صنعت نے بڑی ترقی کی۔دمشق میں بہت بڑی تجارتی منڈی تھی جہاں طرابلس ،بیروت اور آس پاس کے علاقوں سے لوگ اپنی ضرورت کی چیزیں لینے آتے تھے۔عباسیوں کے دور اول میں بصرہ ایک اہم تجارتی مرکز تھا۔بصرہ بغداد میں داخل ہونے کا بڑا دروازہ تھا۔ بصرے کی بندرگاہ دجلہ پر طرح طرح کا سامان تجارت ساری دنیا سے پہنچتا تھا۔دنیا کے کونے کونے سے تجارتی قافلے بصرے کا رخ کرتے تھے اور چین سے لے کر صحرائے اعظم تک کے تاجر بصرے کے تجارتی مرکز میں پہنچتے تھے۔ اس کی وجہ سے بصرے میں غیر معمولی خوشحالی پیدا ہو گئی ۔ وہاں کثرت سے کارخانے اور صنعت گاہیں قائم تھیں ۔شام سے حاجیوں کے وہ قافلے جو مکہ جاتے تھے وہ بیت المقدس میں بھی رکتے تھے۔جہاں ، مغربی ملکوں سے بیت المقدس کی زیارت کے لیے مسیحی قافلے آتے۔اس طرح مسلمانوں کا مسیحیوں سے ملنا جلنا ہوتا تھا اور یہاں پر مسلمان اور مسیحی آپس میں سامان تجارت کا تبادلہ کرتے تھے۔ ایک اور بہت دلچسپ بات جو اس کتاب میں پڑھی کہ ہر سال 15 ستمبر کو بیت المقدس میں بہت بڑا بازار لگتا تھا جیسے آج کے دور میں مختلف مصنوعات کی ایکسپو لگائی جاتی ہیں اور اس بڑے بازار میں مختلف ملکوں کے تاجر سامان تجارت لے کر پہنچتے تھے۔منصور نے اپنے زمانے میں بغداد میں صنعت و حرفت کے الگ الگ بازار بنائے۔ عطر فروش، لوہاروں بڑھئیوں ، گل فروشوں اور قصائیوں کے الگ الگ بازار تھے۔ بلاد شام میں امپورٹ ایکسپورٹ کے لیے ایسے بازار تھے جہاں پر غیر ملکی تاجر اپنا سامان لے کر آتے ۔ ان غیر ملکی تاجروں کے لیے دو منزلہ ہوٹل بنائے گئے تھے جہاں نیچے کی منزل میں اپنا تجارتی سامان رکھتے، اوپر کی منزل میں رہائش اختیار کرتے۔سامان بیچتے اور یہاں سے سامان لے کر اپنے ملکوں میں جاتے۔ حیرت ہوتی ہے کہ اس زمانے میں کس بڑی سطح پر مسلمان تجارتی سرگرمیوں میں مصروف تھے۔ صدیوں کا سفر طے کر کے جب میں واپس اسلامی جمہوریہ پاکستان کی معاشی بدحالی، مہنگائی میں پستا ہوئے خستہ حال عام پاکستانی اور بے سمت اہل اختیار کو دیکھتی ہوں تو بے اختیار اقبال یاد آتے ہیں۔ تمہیں آباء سے اپنے کوئی نسبت ہو نہیں سکتی!( جاری ہے)