اس سے بڑھ کر مجھے کچھ اچھا نہیں لگتا کہ دور دراز جگہوں پر جاکر ، عام لوگوں سے ان کے ماحول کے بارے میں بات کی جائے اور یہ جانا جائے کہ وہ روزمرہ کی حقیقتوں سے کیسے نمٹ رہے ہیں۔ گزشتہ چند ہفتوں میں بیک وقت دو بے مثال واقعات رونما ہوئے ہیں ؛ اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں ہوش ربا اضافہ اور پنجاب کی 20 صوبائی اسمبلی کے حلقوں میں ضمنی انتخابات کا انعقاد۔ اگرچہ ایسی حماقتیں ہماری اشرافیہ کا پسندید ہ مشغلہ ہے ، بددماغ سے جاندار مزاحمت کی سوچ چھین لیتا ہے۔ میں نے سوچا کہ لوگوں کے ساتھ کچھ دیر وقت گزارنے کا یہ بہترین وقت ہے۔ میرے سمیت پتن ٹیم کے چار ارکا ن رابعہ غنی ، ایاز وھاگہ اور ولیم پرویز 23 جون کو اسلام آباد سے لاہور کے لیے روانہ ہوئے۔ ہم نے لاہور کے چار میں سے تین حلقوں کا دورہ کیا جہاں ضمنی انتخابات ہونے والے ہیں۔ لاہور سے ہم چک جھمرہ فیصل آباد اور پھر ملتان اور مظفر گڑھ گئے۔ ہم نے صحافیوں، سول سوسائٹی کے کارکنوں، مزدور یونینوں کے رہنماؤں، سیاسی جماعتوں کے کارکنوں اور ووٹروں سے ملاقاتیں کیں۔ ہم نے سندھ کے بلدیاتی انتخابات کا شراکتی تجزیہ بھی کیااور شراکت داروں کو یہ تربیت بھی دی کہ انتخابی ڈھانچے اور عمل کا شراکتی احتساب کیسے کیاجا سکتا ہے۔ ہمارے دورے کی چند اہم باتوں میں پہلی اور اہم بات یہ ہے کہ ، سند ھ کے بلدیاتی انتخابا ت میں ایک غریب کسان، کامریڈ غلام مصطفی چانڈیو ، جس کا تعلق رسول بخش پلیجو مرحوم کی عوامی تحریک سے ہے ، نے پیپلز پارٹی کے ایک جاگیردار ایم پی کے نامزد امیدوار کو بھاری مارجن سے شکست دی ہے۔ ایکسپریس ٹریبیون کی کہانی ہمارے نتائج کی تصدیق کرتی ہے کہ اسے ہر قسم کی دھمکیوں اور رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑا، لیکن اس نے ہار نہیں مانی۔ بے شک اس کا سہرا عوامی تحریک کو جاتا ہے جو سندھ میں طویل عرصے سے ہاریوں کو بااختیار بنا نے کی جدوجہد کر رہی ہے۔ یہ جیت ایک ایسے ماحول میں ہوئی ہے جہاں بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے کی کل 6,131 نشستوں پر 900 (15فیصد) سے زیادہ امیدوار بلامقابلہ منتخب ہوئے ہیں۔ مقامی حکومتوں کے انتخابات کی تاریخ میں شاید ہی اس تناسب سے بلامقابلہ امیدوار پہلے کبھی جیتے ہوں۔ لیکن پاکستانی سیاست ، جو چند خاندانوں کے ہاتھوں یرغمال ہے ، میں کچھ بھی ناممکن اور حیران کن نہیں۔ ایک اور بے مثال واقعہ یہ ہے کہ خیبر پختونخواہ اور بلوچستان میں، حال ہی میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں بالترتیب 5اور 7فیصد امیدوار بلا مقابلہ منتخب ہوئے ہیں۔ جھرلو (جادوئی دھاندلی) کے کچھ حربے استعمال ہونے کے علاوہ اس کی اور کیا وجہ ہو سکتی ہے ؟ جو بھی ہو ، جمہوریت پسندوں کیلئے پاکستانی سیاست میں یہ رجحان بد نما داغ ہے۔ سندھ کے حالیہ بلدیاتی انتخابا ت میں سرکاری مشینری کے جابرانہ استعمال کے وہ واقعات سا منے آئے ہیں کہ مخالفین سر پیٹ کے رہ گئے ہیں ، حتی کہ اتحادی جماعتیں بھی چیخ اٹھی ہیں۔ جیسے کچھ دیہی علاقوں میں مندرجہ ذیل بنیادوں پر مخالف امیدواروں کے کاغذات نامزدگی مسترد کر دئیے یا کروائے گئے۔ وارڈ یا یونین کمیٹی کی انتخابی فہرستوں سے امیدواروں، یا ان کے نامزد کردہ یا حمایتیوں کے نام ہی سرے سے غائب تھے۔ کچھ امیدواروں کو ڈرائیونگ لائسنس یا کاروں کے کاغذات وغیرہ اور کچھ کو پانی کے بل پیش کرنے کے لیے کہا گیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ سندھ کے بہت سے دیہی علاقوں میں نل کا پانی دستیاب ہی نہیں ہے۔ اْن امیدواروں سے گاڑیوں کی ملکیتی دستاویزات کا تقاضہ کیا گیا جن کے پاس کاریں تھیں ہی نہیں۔ مقامی لوگوں کے مطابق یہ تمام حربے انہیں مقابلے سے نااہل قرار دینے کے لیے استعمال کیے گئے۔ بہت سے علاقوں میں، ممکنہ امیدواروں کو مقابلے سے دستبردار ہونے کیلئے دھمکیاں دی گئیں یا 'حوصلہ افزائی' یعنی لالچ دیا گیا ،جس سے پسندیدہ امیدوار کے بلامقابلہ جیتنے کی راہ ہموار ہوئی۔ اب اس پر ماتم ہی کیا جاسکتا ہے کہ جیتنیوالی پارٹی کی طرف سے اسے مقبولیت کی نشانی کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔ سندھ کے بلدیاتی الیکشن کا ایک اور غور طلب پہلو یہ بھی ہے کہ پہلے مرحلے میں اِن مخصوص اضلاع میں ہی الیکشن کیوں کروائے گئے ہیں ۔ بلدیاتی انتخابات کے مختلف مراحل کے لئے اضلاع کے انتخاب کے لیے کوئی معیار بھی تیار کیا گیا تھا یا نہیں؟ اور اگر کیا گیا ، تو وہ کہاں اور کس قانون کے تحت طے کیا گیا ؟اس میںحیرت کی کوئی بات نہیں کہ پی ڈی ایم کے بیشتراتحادی بھی کھلے عام بلدیاتی انتخابات کے نتائج پر معترض اور انہیں چیلنج کر رہے ہیں۔ اب آتے ہیں پنجاب میں ہونے والے ضمنی انتخابات کی طرف۔ اس حوالے سے دوران گفتگو ، ایک آدمی کے رد عمل نے ہم سب کو چونکا دیا ، اس نے کہا "میں نے ہمیشہ اپنا ووٹ دیا لیکن آئندہ کبھی یہ غلطی نہیں کروں گا کیونکہ میرے ووٹ میں ہمیشہ گنتی کے دوران ہیرا پھیری کی گئی اور میرے ایم پی نے اکثر اپنا مینڈیٹ بیچ دیا۔" یہ جذبات مظفر گڑھ کے رہائشی منظور بلوچ کے تھے ، جو سڑک کے کنارے چائے خانے میں کچھ او ر ساتھیوں کیساتھ بیٹھا ہمارے ساتھ گفتگو کر رہا تھا۔ مزید حیرت کی بات یہ تھی کہ باقی سب بھی اس سے اتفاق کر رہے تھے۔ میرے نزدیک یہ ردعمل کسی المیہ سے کم نہیں کہ امیدوا ر ذاتی مفا د کے تحت اپنی جماعتوں سے منحرف ہورہے ہیں اور انکے رویوں سے بد دل ہو کرووٹر ز جمہوری عمل سے انحراف کر رہے ہیں ۔ پاکستانی جمہوریت کو مضحکہ خیز ،اسکے دشمنوں نے نہیں ،بلکہ جمہوریت کے چیمپئن ہونے کے دعویداروں نے بنایا ہے۔ کارخانوں کے ملازمین، کھیت مزدور اور ٹھیکے پر کام کرنے والے مزدور وں کی انتخابات میں دل چسپی ختم ہوتی نظر آرہی ہے۔ کراچی این اے 240 کے ضمنی انتخاب میں پاکستان کی انتخابی تاریخ کا کم ترین ٹرن آؤٹ اسی شدید بیگانگی کا واضح مظہر ہے اوراس کا اظہار ضمنی الیکشن میں بھی ہو سکتا ہے۔ (جاری ہے)