معاملہ تو ٹی ٹی پی ، افغان طالبان اور پاکستان کے تحفظات کا ہے لیکن درمیان میں ایک اہم بات دریائے کابل اور اس کے پانی کی آن پڑی سو دونوں معاملات کو ایک ہی فریم میں رکھ کر دیکھ لیتے ہیں ۔کئی سال پہلے انڈس واٹر کمشنر سید جماعت علی شاہ سے یکے بعد دیگرے دوتین ملاقاتیں ہوئیں۔میں پاک بھارت آبی تنازع کو سمجھنا چاہ رہا تھا۔ جماعت علی شاہ نے بھارت میں زیر تعمیر آبی ذخائر کے تکنیکی امور پر مفید معلومات دیں۔ سندھ طاس معاہدہ میں نے پڑھ رکھا تھا بلکہ اس وقت اتنا گھول رکھا تھا کہ ہماری ایک نیوز اینکر نے ایک خبر پر تبصرہ کے دوران جب بگلیہار ڈیم پر اعتراضات کی حیثیت سے متعلق سوال کیا تو میں نے سندھ طاس معاہدے کی رو سے پوری ایک فہرست فی البدیہہ بیان کر دی۔خیر ان ملاقاتوں کے دوران میں نے سید جماعت علی شاہ سے سوال کیا کہ اس وقت افغانستان میں طالبان کی حکومت ہٹا کر امریکہ نے اپنی کٹھ پتلی حکومت حامد کرزئی کی صورت میں بٹھا دی ہے۔اس حکومت میں بھارت کے لئے وفاداری رکھنے والے کئی لوگ شامل ہیں۔بھارت جس طرح اپنی جانب سے آنے والے دریائوں کے پانی کو روک رہا ہے کیا وہ افغانستان کے ساتھ مل کر کبھی پاکستان کے لئے دریا کابل کا پانی بھی روک سکتا ہے؟ یہ 2004ء کے لگ بھگ کا زمانہ تھا۔ جماعت علی شاہ شاید اب بھی انڈس واٹر کمشنر ہیں ۔تب انہوں نے اس خدشے کو بے بنیاد قرار دیا تھا۔ 26جولائی 2015ء میں افغانستان نے اپنے آبی ذخائر محفوظ بنانے کی آڑ میں دریائے کابل پر ڈیم کی تعمیر کا آغاز کیا۔4جون 2016ء کو اس کا افتتاح بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی اور افغان صدر اشرف غنی نے مشترکہ طور پر کیا۔17اگست 2021ء کو طالبان کی نئی حکومت نے سلماڈیم کا نام افغان انڈیا فرینڈ شپ ڈیم رکھ دیا۔بتایا گیا کہ طالبان حکومت اپنے متعلق خطے میں مخالفانہ سوچ رکھنے والے ممالک سے دوستانہ تعلقات استوار کرنا چاہتی ہے۔بھارت نے دریائے کابل پر مجموعی طور پر 12ڈیم بنانے کی فزیبلٹی رپورٹس تیار کرنے میں افغانستان کی مدد کی ہے۔ماہرین کا خیال ہے بھارت افغانستان کے دریائے کابل کو پاکستان کے خلاف بطور ہتھیار استعمال کرنا چاہتا ہے۔یہ سارا قصہ یاد آیا کہ برادرم آصف محمود نے پچھلے کالم میں طالبان حکومت‘ بھارت اور تحریک طالبان پاکستان کے متعلق کچھ خدشات کا اظہار کیا ہے۔میں نے دریائے کابل کے روٹ کو اس وقت دیکھا تھا جب سید جماعت علی شاہ سے اس دریا کے پانی کو روکے جانے کے خدشات پر بات ہوئی تھی۔چین سے شروع ہونے والا یہ دریا‘ گلگت بلتستان سے ہوتا ہوا سوات کے قریب افغانستان کی حدود میں داخل ہوتا ہے۔ممکن ہے سوات کے قریب اس دریا کا پانی ذخیرہ کرنے یا ڈیم بنانے میں دقت ہو لیکن پاکستان چاہے تو افغانستان کی یہ بلیک میلنگ پوزیشن ختم کر سکتا ہے لیکن اس کے لئے اسے واٹر شئرنگ کے انٹرنیشنل پروٹوکولز اور افغانستان کے ساتھ جڑے اپنے مفادات کا تجزیہ کر کے پالیسی تشکیل دینا ہو گی۔پاکستان افغانستان کے ساتھ آبی معاہدے کی تیاری چھ سال سے کر رہا ہے ،ایسی پالیسی کا اب تک نہ بن پانا بھارت کو شہہ دے رہا ہے کہ وہ افغانستان میں انسانی ہمدردی کے نام پر پاکستان کے کھیت ویران کرنے کے منصوبے بنائے جائے۔دریائے کابل پر پاکستان میں پشاور سے شمال مغرب میں 20کلو میٹر کے فاصلے پر وارسک ڈیم بنایا گیا ہے۔کابل میں اس پر ناگلو‘ سوروبی اور ڈارونٹا ڈیم بھی بنے ہیں۔ پاک افغان تعلقات میں کئی عشروں تک اختلاف ڈھونڈنے والے صرف ڈیورنڈ لائن کا نام لیتے تھے۔بھارت نے اب اس میں پانی کی تقسیم اور ٹی ٹی پی جیسے تنازعات بھی شامل کرا دیے ہیں۔ افغانستان کا ایسی قوتوں کے ہاتھ میں کھیلنا جو پاکستان کی سلامتی کے لئے خطرات پیدا کرتی ہیں اور تحریک طالبان پاکستان کے خلاف موثر کارروائی نہ کر پانا دو طرفہ تعلقات میں دراڑیں ڈال رہا ہے۔ تحریک طالبان پاکستان خود کو افغان طالبان کا فکری حصہ قرار دیتی ہے۔جب کبھی اس کی سرگرمیوں سے پاکستان میں امن امان کی صورت حال کو لاحق خطرے کی بات کی جاتی ہے تو افغان طالبان ٹی ٹی پی کو اپنے سے الگ بتاتے ہیں۔چند برس پہلے جب پاکستان نے ٹی ٹی پی کے خلاف سخت کارروائی کا ارادہ کیا تو افغان طالبان نے ٹی ٹی پی کے ساتھ پاکستان کو نرمی اختیار کرنے کا مشورہ دیا‘ طالبان حکومت مصالحانہ کوششوں کے ذریعے پاکستان اور ٹی ٹی پی کے درمیان فائر بندی کا معاہدہ کرایا۔ٹی پی ٹی نے یہ معاہدہ یکطرفہ طور پر ختم کر دیا ۔اس دوران افغان طالبان پاکستان کے ساتھ کئی دو طرفہ امور پر بات کرتے اور امریکی انخلا کے بعد مسائل کی شکار افغان حکومت کے لئے سہولیات کی درخواست کرتے رہے۔ ٹی ٹی پی نے حال ہی میں کئی تشدد پسند گروپوں کے ساتھ اتحاد کیا ہے۔کچھ منتشر چھوٹے گروپ ٹی ٹی پی میں مدغم ہو رہے ہیں۔ٹی ٹی پی طاقتور اور بڑی ہو گئی تو اس کی کارروائیاں پاکستان میں بدامنی کا سبب ہوں گی۔ ٹی ٹی پی مالی اور کراس بارڈر سہولیات کے بنا منظم نہیں ہو سکتی۔ٹی ٹی پی کے کئی کمانڈر افغانستان میں روپوش ہیں۔افغان طالبان دنیا سے وعدہ کر چکے ہیں کہ وہ افغان سرزمین کسی دوسرے ملک کی سلامتی کے لئے خطرہ بننے والے عناصر کو استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ خطے کو عدم استحکام سے دوچا رکھنے کی خواہش کئی بین الاقوامی طاقتوں نے پال رکھی ہے۔اس خواہش کے مقامی ہمخیال ایک جگہ اکٹھے کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔ افغانستان مستحکم نہیں۔اس عدم استحکام کو فقط طالبان کے سخت ضابطوں سے دور نہیں کیا جا سکتا۔ دوسری طرف پاکستان جس عدم استحکام کا شکار ہے اس کی بڑی وجہ افغانستان ہے۔ٹی ٹی پی کی موجودگی نے افغانستان کے لئے اثاثوں اور مسائل کے حل کے درمیان انتخاب کا امتحان پیدا کر دیا ہے۔طالبان کو اپنی خارجہ پالیسی میں اس مسئلے سے جان چھڑانا ہوگی، طالبان براہ راست پاکستان کے متعلق منفی رائے کا اظہار نہیں کرتے لیکن بھارت کے ساتھ مراسم اور ٹی ٹی پی کے متعلق نرم گوشہ رکھنا یہ تاثر دیتا ہے کہ افغان حکومت ٹی ٹی پی سمیت کچھ تنازعات کو پال پوس کر پاکستان کے ساتھ بارگیننگ میں مساوی حیثیت حاصل کرنے کی کوشش میں ہے۔