28 جون 2023بدھ کوجب سویڈن سمیت پورے یورپ میں مسلمان عیدالاضحی منارہے تھے توعید کی شام کوسویڈن کے دارالحکومت سٹاک ہوم میں ایک ناپاک وجود کے حامل سلوان مومیکا نے قرآن مجید کی توہین کاارتکاب کیا۔ظلم بالائے ظلم یہ ہے کہ ملعون نے اس بدترین گھٹیاحرکت انجام دینے کے لیے کورٹ سے باقاعدہ اجازت لی تھی۔ سینکڑوں عینی شاہدین کے مطابق مسجد کے باہر موجود درندہ صفت لوگوںمیں سے ایک درندے نے قرآن مجید کے مقدس اوراق کو پھاڑ دیا اور مقدس اوراق کی بے حرمتی کرنے کے بعد انھیں نذر آتش کیا۔ملعون سلوان مومیکا نے سی این این کو بتایا کہ وہ یہ شرمناک حرکت کرنے کورٹ میں تین ماہ کی قانونی لڑائی کے بعد کر رہاہے اور اس کا مطالبہ ہے کہ قرآن پر پابندی لگائی جانی چاہیے۔سٹاک ہوم کی جس مسجد کے سامنے یہ شرمناک فعل ہوا اس مسجد میں ہر سال دس ہزار کے قریب مسلمان نماز عید اداکرتے ہیں۔ کتنا بڑاالمیہ ہے کہ چاردانگ عالم میں موجود پونے دوارب مسلمانوں کے ہوتے ہوئے مغرب نے اظہارآزادی کے نام پر اسلام اورمسلمانوں کے خلاف طوفان بدتمیزی برپا رکھا ہے اور مغرب جس تسلسل کے ساتھ مسلم دنیا کے جذبات سے کھیلتا ہے ۔یہ مغرب کی اسلام دشمنی اور طویل المیعاد منصوبہ بندی کا حصہ ہے کیونکہ مغرب یہ سمجھتا ہے کہ جب تک مسلمان قرآن مجیداوراپنے نبی ﷺ کی ذات اقدس سے عقیدت اور محبت کا اعلیٰ معیار برقرار رکھے ہوئے ہیں تو ان کے اندر سے غیرت دینی اور حمیت اسلامی کھرچی نہیںجا سکتی ہے اور جب تک مسلم سماج میں اپنے مراکز اللہ کی کتاب قرآن اورآخری نبیﷺ سے وابستگی کا جذبہ برقرار ہے مسلم سماج میں مغرب کی پیوندکاری کی تمام مذموم کوششیں ناکام اورنامراد ہوتی رہیںگی اورانہیں مغرب کی مادرپدرآزادسوسائٹی کے زیر نگیں نہیں بنایا جا سکتا۔کیونکہ یہ قرآن کی تعلیمات اوررسول اللہ ﷺ کی بے پناہ محبت ہی ہے کہ جس نے مسلمانوں کو اسلامی تعلیمات کے ساتھ جوڑا ہوا ہے ۔ جس دن یہ تعلق کمزور ہو گیا مسلمانوں اور غیر مسلموں میں کوئی فرق باقی نہیں رہے گا۔پھر نہ صرف یہ کہ ان کے تہذیبی،نظریاتی، فکری اور ثقافتی ڈھانچے کو زمین بوس ہونے سے کوئی نہیں روک سکے گا بلکہ انہیں ’’کروسیڈی‘‘ معاشرے کا حصہ بنانا بھی آسان رہے گا۔ اہل مغرب کی نظر میںبرداشت اور بے غیرتی میں کوئی فرق نہیں ۔ جبکہ مسلم معاشرے کی اپنی درخشندہ روایات، اقدار اور سنہری تاریخی اصول ہیںجنکی بنیاد قرآن اور اسوہ رسولﷺ پر ہے ۔ مسلم معاشرے میں برداشت اور بے غیرتی میں ایک واضح فرق اور واضح لکیر موجود ہے ۔ مغرب بے لباس ہونے کو فطرت سے قریب تر سمجھتا ہے تو اسلامی معاشرہ میں ستر پوشی کو فطرت کے قرب کا ذریعہ جانا جاتا ہے مغرب بے حیائی کو زندگی سمجھتا ہے تو اسلامی معاشرہ حیا کا ایک واضح تصور رکھتا ہے ۔جس میں سوسائٹی کو توازن پر گامزن رکھنے کی بنیادی اہمیت حاصل ہے ۔ ’’ فکری یلغار‘‘ سے لے کر ’’ فزیکل یلغار‘‘ تک دنیائے اسلام کو ہر طرح کے مسائل کا سامنا ہے ۔اغیار اور استعمار کی سازشوں سے مسلم ممالک کے مابین اعتماد کا فقدان ہے ۔ بلکہ ان کا مملکتی کردار مشکوک بن چکا ہے جس وجہ سے امت مسلمہ کا وہ رعب اور دبدبہ نہ رہا جو کبھی ہوا کرتا تھا جس کے نتیجے میں ان کی جغرافیائی سا لمیت کو سامراجی قوتوں نے پائوں تلے روند دیا۔ وسائل امت مسلمہ کے ہیں لیکن ان پر مغرب کی اجارہ داری ہے۔ ’’ نیو ورلڈ آرڈر‘‘ کی بساط پر مہرے آگے بڑھائے جا رہے ہیں اور طاقت کی بنیاد مسلم ممالک کا ناطقہ بند کر دیا گیا ہے۔ مسلم دنیا پر مغربی جارحیت مسلمانوں کو یہ دعوت فکر دیتا ہے کہ دین سے وابستگی ہماری بنیاد ہے اور بنیاد کمزور ہو جائے تو شجر سایہ دار بھی خزاں رسیدہ بوسیدہ ٹہنی کی طرح کمزور اور پامال ہو جاتا ہے مسلمان ہونے کے باوصف اگر کوئی مسلمان فکری الجھنوں کا شکار ہو تویہ بڑا المیہ ہو گا ۔ فکری انتشار کی وجہ سے ایمان کا وہ معیار حاصل نہیں ہو سکتا جس کا اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے تقاضا کرتا ہے۔ عالم کفر مہیب طوفان کی طرح سب کچھ اپنی لپیٹ میں لیے جا رہا ہے ۔ ایک طرف اغیارکی طرف سے توہین قرآن کاارتکاب کرتے ہوئے مسلمانوں کے غیرت ایمانی کوللکاراجارہاہے تو دوسری طرف 57 مسلمان ممالک پر مشتمل مسلم دنیا با صلاحیت قیادت سے محروم ہے ۔ کیا وجہ ہے کہ دنیا کے ہر گوشے میں مسلمان ہی مظلوم ، مغلوب اور مصلو ب ہے ۔پھن پھیلائے ہوئے اس سوال کا جواب تلاش کرنا نہایت آسان ہے۔ المیہ یہ ہے کہ 57 مسلمان ممالک پر مشتمل دنیائے اسلام کی اکثریت آفاقی نظام سے آج تک ہم آہنگ نہ ہو سکی ۔ ایک چوتھائی عالمی آبادی پر مشتمل مسلم دنیا میں سے 49فیصد کا اعلانیہ سرکاری مذہب اسلام ہے، 51 فیصد ممالک نے اپنے آئین میں سرکاری مذہب کی نشاندہی نہیں کی یا وہ خود کو سیکولر کہلاتے ہیں جبکہ 19فیصد نے سیاسی نظام میں اسلام کو نظریاتی بنیاد قرار دے رکھا ہے۔ 8ممالک میں کوئی سیاسی جماعت نہیں4 میں اپوزیشن کا وجود نہیں ہے جبکہ 5 ممالک میں سیاسی نظام میں اسلامی جماعتوں کے داخلے پر پابندی ہے۔ مسلمان ممالک پر مسلط حکمران بھی بے حسی کا شکار ہیںیہی وجہ ہے کہ دنیا بھر میں مسلمانوں کو جن حالات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور انہیں پے در پے جن شکستوں کا شکار ہونا پڑ رہا ہے ۔ صاحبان اقتدار کی مجرمانہ خاموشی کا شاخسانہ ہے۔