پاکستان کرکٹ ٹیم بھارت پہنچ چکی ہے۔پریکٹس سیشنوں کے بعد نیوزی لینڈ کے ساتھ میچ تک استقبال کے کئی رنگ نظر آئے۔ وارم اپ میچ کے دوران سکیورٹی وجوہات کی بنا پر تماشائیوں کا داخلہ بند تھا۔ بھارت میں پاکستانی کرکٹر ہمیشہ مقبول رہے ہیں۔ ظہیر عباس ہوں‘ عمران خان ہوں‘ محسن حسن خان‘ شعیب ملک‘ حسن علی اور اب نسیم شاہ۔ بابر کا جادو اپنی جگہ لیکن بھارت کی خواتین شائقین کے لئے نسیم شاہ کا ٹیم کے ساتھ نہ ہونا باعث مایوسی ہے۔ اروشی کی میمزسوشل میڈیا پر گردش کر رہے ہیں۔ ’’ساری دنیا آ گئی‘ وہ نہیں آیا جس کا مجھے انتظار ہے۔‘‘ بھارت پاکستان کے ساتھ کھیلنے کو تیار نہیں۔ پاکستان کو سیاسی اور سفارتی سطح پر تنہا کرنے کے ساتھ بھارت نے کھیلوں کے ذریعے اپنی طاقت دکھائی ہے۔ اسے چیٹنگ ی ااس سے آگے بڑھ کر مینوورنگ کہا جا سکتا ہے۔ یہ بازو مروڑ پالیسی خاص طور پر کرکٹ کے لئے ترتیب دی گئی۔یہ معاملہ کس قدر اہم ہے اس کا اندازہ اس بات سے کیا جا سکتا ہے کہ بھارتی کرکٹ بورڈ کے معاملات بھارت کے وزیرداخلہ امیت شاہ کے بیٹے جے شاہ کے قابل اعتماد ہاتھوں میں ہیں۔ بھارتی حکومت نے آئی پی ایل کے پہلے ایڈیشن کے بعد پاکستانی کھلاڑیوں پر پابندی عاید کر دی۔ مقصد یہ تھا کہ پاکستان کو بین الاقوامی سطح کی وہ پریکٹس نہ مل سکے جو بھارتی کھلاڑیوں کو مل رہی ہے‘ دوسرا مقصد پاکستان کے کرکٹ ٹیلنٹ کے مالیاتی فوائد کو کم کرنا تھا۔ اس منصوبہ بندی کو سپورٹس ڈپلومیسی کے ساتھ منسلک کیا گیا۔ لاہور میں سری لنکن کرکٹ ٹیم پر حملہ اس منصوبہ بندی کا آغاز تھا۔ اس حملے کو ایک بیانیہ ترتیب دینے کے لئے استعمال کیا گیا۔ بتایا گیا کہ پاکستان کھیلوں کے لئے محفوظ ملک نہیں۔ کہا گیا کہ پاکستان دہشت گردوں کی سرپرستی کرنے والی ریاست ہے اور اس کے اپنے پروردہ گروہ اب یہاں دندنا رہے ہیں۔ یہ ایک خوفناک سازش تھی جسے کامیاب کرنے کے لئے کھربوں روپے خرچ کئے گئے۔ کوئی کھلاڑی چھوٹے مقابلوں کے لئے جب دوسرے ضلع یا صوبے میں جاتا ہے تو میزبان ایسوسی ایشن کا رویہ دوستانہ نہ ہونے کی وجہ سے بہت سے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ہمارا انٹر پاکستان یونیورسٹیز باڈی بلڈنگ کا مقابلہ زرعی یونیورسٹی فیصل آباد میں ہو رہا تھا۔ پنجاب یونیورسٹی کی ٹیم پہنچی تو کمرے میں چارپائیاں نہیں تھیں۔ ہمارے منیجر اور کوچ اشفاق احمد نے یونیورسٹی کے متعلقہ ذمہ داروں کو کہا کہ یہ لڑکے زمین پر نہیں سوئیں گے۔ ایک گھنٹے میں چارپائیوں کا انتظام ہو گیا۔چھوٹے چھوٹے اور بھی مسائل تھے جو بعد میں کسی نہ کسی طرح حل کر لئے گئے۔ہم فاتح رہے ۔ بابر اعظم اور ان کے ساتھی دوسرے ضلع یا صوبے میں نہیں گئے۔ وہ بھارت گئے ہیں جہاں قدم قدم پر ان کے لئے سرپرائز ہو سکتے ہیں۔ پاکستان کرکٹ ٹیم کا استقبال بلا شبہ شاندار تھا۔ اس کی وجہ بھارتی کرکٹ بورڈ سے زیادہ کرکٹ شائقین ہیں۔ بھارتی کرکٹ شائقین پاکستان کے ساتھ کرکٹ دیکھنا چاہتے ہیں۔ مجھے یاد ہے بچپن میں جب قذافی سٹیڈیم میں پاک بھارت کرکٹ میچ ہوا کرتے تھے بہت سے بھارتی شائقین لاہور کی سڑکوں اور بازاروں میں گشت کرتے نظر آتے۔ سردار رنگ برنگی پگڑیاں پہنے ہوتے۔ سکیورٹی کا کوئی مسئلہ نہ تھا۔ کھلاڑیوں کی ایک دوسرے کے ساتھ دوستی ہوتی۔ کشمیر پر تین جنگیں ہو چکی تھیں لیکن کرکٹ تعلقات پر اس کشیدگی کا اثر نہیں پڑتا تھا۔ اس ماحول کو بھارت کی انتہا پسندی ‘ خاص طور پر بی جے پی کی پاکستان دشمنی نے تباہ کر دیا ہے۔ جب کبھی دونوں ملکوں کی ٹیموں کو ایک دوسرے کے ساتھ کھیلنے کا موقع ملتاہے سٹیڈیم پہنچنے والے تماشائیوں کا ہجوم ہو جاتا ہے۔ ٹی وی پر میچ دیکھنے والوں کی تعداد پونے دو ارب ہو جاتی ہے۔ پونے دو ارب میں سے بیس تیس کروڑ اسے جنگ سمجھتے ہوں گے باقی کھیل سمجھ کر ہی دیکھتے ہیں اور دعا کرتے ہیں کہ پرامن رابطے کا یہ ذریعہ بند نہ ہو۔ پاکستان کرکٹ ٹیم کی ورلڈ کپ میں شرکت پہلے دن سے متنازع ہو گئی۔ پاکستان نے تسلی بخش سکیورٹی نہ ہونے اور احمد آباد میں میچ نہ کھیلنے کی بات کی۔ احمد آباد ریاست گجرات کا دارالحکومت ہے۔ یہ نریندر مودی کا مرکز ہے۔ بھارت نے پاکستانی اعتراضات مسترد کر دیے۔ اس کے ساتھ ایشین کرکٹ کونسل میں اپنی سربراہی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے جے شاہ نے بھارتی ٹیم کا کوئی میچ پاکستان نہ رکھا۔ یہی نہیں خراب موسم کی وجہ سے پاکستان نے سری لنکا سے میچ دوسری جگہ منتقل کرنے کی درخواست کی تو اسے بھی نظرانداز کر دیا گیا۔ پاکستان ایشیا کپ کا میزبان تھا۔ بھارت نے طاقت کے ذریعے اس میزبانی کو خراب کیا۔ مبصرین تو یہ بھی کہتے ہیں کہ ایک ترکیب کے ذریعے پاکستانی ٹیم کو تھکایا گیا اور ٹورنامنٹ میں واحد متبادل دن رکھ کر بھارت نے فائدہ اٹھایا۔ نیا کٹا یہ کھولا گیا کہ بھارت نے ورلڈ کپ کے لئے پاکستانی ٹیم اور آفیشلز کو ویزے جاری کرنے میں تاخیر کی۔ کھلاڑی کو مقابلے سے پہلے ذہنی یکسوئی کی ضرورت ہوتی ہے۔ بھارت کے کھیل پنڈت یہ سمجھتے ہیں۔ اس لئے انہوں نے جگہ جگہ ایسے جال بچھا رکھے ہیں جن سے پاکستانی کھلاڑیوں کی توجہ بٹی رہے۔ استقبال کرنے والوں نے کپتان اور ان کے ساتھیوں کے گلے میں بھگوا ڈالا۔ بھارتی حکام نے ایئر پورٹ سے ہوٹل اور سٹیڈیم تک آنے جانے کے وہ روٹ منتخب کئے جہاں ان کی ترقی کے نشان پاکستانی ٹیم کو متاثر کر سکیں۔ بھارتی سوشل میڈیا اکائونٹس پر یہ ٹرینڈ پوسٹ کیا جا رہا ہے کہ پاکستانی کھلاڑی ’’بتیاں‘‘ دیکھنے آئے ہیں۔ رہی ٹیم کی تیاری کی بات تو اچھی کارکردگی ہزاروں نقادوں کا منہ بند کر دیتی ہے۔ نیوزی لینڈ کے خلاف 345رنز بنا کر بولر دفاع نہ کر سکے۔ کمزوری ہمیشہ دوسروں کو بے خوف کرتی ہے۔ پاکستان کو چند بہترین فتوحات کی ضرورت ہے تاکہ اسے پسماندہ اور کمزور سمجھنے والے اس کے ساتھ تعلق بحال رکھنے پر مجبور ہوں۔