میری دادی جنہیں ہم ماں جی کہہ کر بلایا کرتے تھے ، بڑی جہاندیدہ عورت تھیں۔وہ پڑھی لکھی نہیں تھیں مگر ہم بہن بھائیوں کو پڑھانے کے چکر میں وہ بہت کچھ پڑھ گئیں، انہیں اخبار تک پڑھنا آ گیا تھا۔وہ مزے سے اردو ہی نہیں انگریزی اخبار کا بھی مطالعہ کر لیتیں۔ شام کو جب میرے والد ان کے پاس موجود ہوتے تو وہ ان سے مختلف انگریزی الفاظ کے معنی پوچھ رہی ہوتیں۔ وہ ہمیں تعلیم دیتی تھیں۔ ہمیں سکھاتی تھیں۔میں بارہا کہتا ہوں کہ تعلیم عمل کی عطا ہے۔ وہ جس میں عمل نہ ہو وہ تعلیم نہیں ہوتی۔ پتہ نہیں لوگ تعلیم اور تربیت کی الگ الگ بات کیوں کرتے ہیں۔ جس میں تربیت نہ ہو وہ تعلیم نہیں ہوتی۔تعلیم سیکھنے کا عمل ہے۔تعلیم تو ایک طرز زندگی ہے ۔ آپ کو اٹھنا کیسے ہے ، بیٹھنا کیسے ہے، بات کس طرح کرنا ہے، دوران گفتگو کتنا سننا اور کتنا کہنا ہے ۔بزرگوں سے احترام سے کیسے پیش آنا ہے اور بچوں کے ساتھ کیسے شفقت کا برتائو کرنا ہے۔کھانے کے آداب ، روز مرہ زندگی میں چھوٹی چھوٹی باتوں کا طریقہ ،یہ تعلیم ہے اور یہ سب کچھ ہم نے انہی سے سیکھا۔ وہ اپنی ذات میں ایک پورا مکتب تھیں۔ کسی نے زور سے چھینک دینا تو اسے بڑے پیار سے سمجھانا کہ چھینک آئے تو کوشش کرو کہ اس کی آواز قدرے کم ہو۔ چھینک کو روکنا نہیں اس سے بہت سی بیماریاں ہو جاتی ہیں۔ مگر چھینکتے ہوئے اپنے منہ کا رخ اس طرف کر لیا کرو کہ جس طرف کوئی نہ بیٹھا ہو۔ چھینک کا مجھے اس لئے خصوصاً یاد آیا کہ وہ ایک واقعہ سناتی تھیں کہ ان کا کوئی عزیز یا جاننے والا اتنے زور سے چھینک مارتا تھا کہ بچے اس کی آواز سے سہم جاتے۔ کہتی تھیں کہ ان کا وہ رشتہ دار ایک دن نہر کے کنارے کنارے کہیں جا رہا تھا کہ اسے زور دار چھینک آ گئی۔ کوئی بیچارہ شخص نہر پر منہ دھو رہا تھا۔ چھینک کی خوفناک آواز سے وہ اچھلا اور دھم سے نہر کے اندر۔ آج انسان کو سب سے زیادہ جن دھماکوں سے ڈر لگتا ہے وہ بارود کے دھماکے ہیں۔یہ دھماکے روز ہوتے رہے ہیں اور ان کے نتیجے میں مائوں کے قیمتی لعل اپنی جان سے ہاتھ دھوتے ہیں۔ میں ماڈل ٹائون کی جس گلی میں رہتا تھا وہاں دو دفعہ دھماکہ ہوا۔ ایک دفعہ میں صبح ناشتہ کر رہا تھا تو دھماکہ ہوا۔ میرے سامنے میز پر گلاس پڑا تھا،وہ گلاس چھ انچ تک اچھلا اور پھر میز پر گر کر ٹوٹ گیا۔گھر کے کچھ دروازے اور کھڑکیاں بند تھے یا ان کے تالے خراب تھے جن کی وجہ سے ہم انہیں کھول نہ سکتے تھے۔ میں روز سوچتا کہ کوئی مستری بلا کر انہیں کھلواتا ہوں۔ مگر اس دھماکے کا اثر یہ ہوا کہ ساری بند چیزیں کھل گئیں اوربہت سی کھلی چیزیں بند ہو گئیں،سب کھڑکیوں کے شیشے ٹوٹ گئے،کھڑکیوں کے فریم اور بہت سی چیزیں ٹیرھی ہو گئیں جو مستری بلا کر بمشکل صحیح کرائیں یا نئی لگوائیں۔دماغ کو جو یک لخت جھٹکا لگا اس کا اثر بہت دیر تک حواس پر رہا۔پنجاب میںدہشت گردی کی لہر عملاً ختم ہو چکی مگر اس ملک میں ابھی سکون لوگوں کو میسر نہیں۔ سیاسی، معاشی اور سماجی حالات حد سے زیادہ بگڑ چکے اور جب تک اس ملک میں صحیح جمہوریت اور اصلی نمائندے اس ملک کی بھاگ دوڑ نہیں سنبھالتے ، کچھ فرق نہیں پڑسکتا اور نہ ہی اصلاح کی کوئی صورت نظر آتی ہے۔ آج میں مختلف دھماکوں کو کیوں یاد کر رہا ہوں۔ بات کچھ یوں ہے کہ ایک نوجوان بچی میرے کچن کی انچارج ہے ۔ کھانا پکانا اور میز پر لگانا اس کا کام ہے۔ دو دن پہلے اس نے مجھے صبح کے وقت ناشتہ دیا۔ ایک سلائس اور ساتھ کباب تھا۔ میں نے کھایا تو وہ چائے اور ایک عدد ابلا ہوا انڈہ لے آئی۔ چائے ایک طرف رکھ کر میں نے ابلا ہوا انڈہ کھانے کے لئے پلیٹ میں تھوڑا سا نمک اور کالی مرچ ڈالی ۔اس کے بعد انڈا اٹھایا اور اسے نمک مرچ لگانے کے لئے پلیٹ سے ٹکرایا۔انڈا پلیٹ سے چھوتے ہی ایک شاندار دھماکہ ہوا۔ وہ بچی جو ساتھ کچن میں کام کر رہی تھی بھاگ کر آئی کہ کیا ہوا ہے ۔ میں نے میز اور فرش کی طرف اشارہ کیا کہ دیکھ لو۔ انڈا پھٹ کر ریزہ ریزہ ہو چکا تھا اور اس کے باریک باریک ٹکرے میز اور میز سے آگے فرش پر پوری طرح بکھرے ہوئے تھے۔ میری شہادت کی انگلی کا اگلا حصہ سرخ ہو چکا تھا جیسے کوئی چیز جلی ہو اور ایک نقطہ سا اس سرخی میں سیاہی مائل بھی نظر آرہا تھا۔ میں نے اس پر توٹھ پیسٹ لگائی مگر سخت جلن ہو رہی تھی۔ اس بچی نے پریشانی میں مجھ سے پوچھا کہ کیا ہوا ہے، میں نے ہنس کر کہا کہ انڈے کے اندر تم نے جو بم رکھا تھا وہ پھٹ گیا ہے۔ اسی کا دھماکہ تھا اور یہ جو انڈے کا سپرے کمرے میں ہر طرف نظر آرہا ہے اسی بم کا کارنامہ ہے۔ میں نے چند مرغیاں رکھی ہوئی ہیں ۔ ان سے دو تین انڈے روز آ جاتے ہیں۔ وہ لڑکی کہنے لگی کہ یہ تو اپنی مرغیوں کا ایک تازہ انڈا تھا کل شام ہی مرغی نے دیا تھا، میں نے تو کچھ نہیں کیا۔بہرحال مجھے لگتا ہے کہ اس نے کم پانی میں اس انڈے کو ابالا تھاجس سے اس کے اندر بہت گیس پیدا ہو گئی اور اس گیس کے سبب وہ انڈا بری طرح دھماکے کے ساتھ پھٹ گیا۔ سوچتا ہوں کہ یہ ایک معمولی سا واقعہ تھا ۔ مگر انڈا پھٹنے سے میری انگلی کا ایک حصہ جلن کا دو دن تک شکار رہا۔تووہ لوگ جو کسی بڑی تخریب کاری کے نتیجے میں زخمی ہوتے ہیں ان کی حالت کس قدر قابل رحم ہو گی۔ وہ معصوم لوگ جن کا کچھ قصور نہیں ہوتا،وہ جب ظلم کا شکار ہوتے ہیں تو ان پر کیا بیت جاتا ہو گا۔ ان کے جلے ہوئے جسم ان کے لئے کس قدر تکلیف کا باعث ہوتے ہوں گے۔کاش تخریب کرنے والے اس چیز کا احساس کرلیں ۔کسی کے دکھ کو اپنا سمجھ کر اس بے بسی اور لاچاری کو محسوس کریں جو کسی دھماکے کے نتیجے میں ہوتی ہے تو شاید وہ اپنے عمل سے باز رہیں ، مگر وہ تو بے حس ہوتے ہیں۔ انہیں بتایا جاتا ہے کہ تم اپنی قربانی کے نتیجے میں سیدھے جنت جائو گے ۔ جنت کسی قاتل کو نہیں ملتی، کسی خود کشی کرنے والے کو نہیں ملتی ، کسی حرام موت مرنے والے کو نہیں ملتی۔ جنت کے حصول کا بہترین ذریعہ لوگوں کی خدمت ہے۔ ان کے لئے آسانیاں پیدا کرنے میںہے۔ لیکن یہ سب اسی وقت ممکن ہے جب ہم لوگوں کو تعلیم دیں گے۔ ہمارے استاد تعلیم کے حوالے بچے کو کچھ نہیں سکھاتے۔ میں اساتذہ سے گزارش کروں گا کہ کچھ اور نہ بھی کریں مگر روز کوئی ایک سبق آموز واقعہ، کوئی اچھی بات، کوئی قرآن کا حوالہ یا کوئی حدیث ضرور بچوں کے گوش گزار کریں۔ اس سے یقیناً بہت فرق پڑے گا، کیونکہ یہی عمل تعلیم ہے۔