بخشی کو احساس تھا، کہ کشمیر ی عوام کو قابو میں رکھنے کا واحد طریقہ یہ تھا کہ گرفتاریوں اور سخت نگرانی وغیرہ کے ساتھ ساتھ خطے کو معاشی خوشحالی فراہم کرنے کے علاوہ عوام کو مصروف بھی رکھا جائے، جس کیلئے ہر سال جشن کشمیر منانے کی روایت قائم ہوئی اور تقریباً ہر نئے دن بالی ووڈ کے اداکاروں کو کشمیر کے دورے کرائے جاتے۔ خوراک کی سبسڈی بخشی کا ایک بڑا کارنامہ تھا، جس کی وجہ سے اس کو اب بھی یاد کیا جاتا ہے۔ کشمیر کے ایک معمر صحافی پران ناتھ جلالی نے ایک بار راقم کو بتایا کہ وہ شیخ محمد عبداللہ سے جیل میں ملاقات کیلئے گئے تھے، تو شیخ نے شکوہ کیا کہ’’ کشمیریوں کا پیٹ بخشی نے چاولوں سے بھر دیا ہے۔ وہ مجھے بھول گئے ہیں اور مجھے جیل میں سڑ نے کیلئے چھوڑدیاہے۔‘‘ آئین ساز اسمبلی سے الحاق کی توثیق کرواکے بخشی کا کام دنیا کو باور کروانا تھا کہ کشمیر میں سب کچھ ٹھیک ٹھاک ہے اور عوا م نے تبدیلی کودل و دماغ سے تسلیم کردیاہے۔مصنف کے مطابق کشمیر کے تناظر میں نارملائزیشن کا مطلب یہ تھا کہ ریاست کے لوگوں نے بھارت کے ساتھ الحاق کو قبول کر لیا ہے اور ریاست کا سیاسی اور اقتصادی فائدہ بھارتی یونین میں ضم ہونے میں ہی ہے۔ اس کے علاوہ تعلیم کے شعبہ میں اسکول و کالج کی ٹیکسٹ کی کتابو ں میں سیکولرازم پر ازحد زور اور کشمیر اور بھارت کے درمیان زمانہ قدیم رشتوں کا بار بار ذکر کرنا اور کشمیر کو ہندو دیوی دیوتائوں کا مسکن قرار دینا اسی سوچی سمجھی حکمت عملی کا حصہ تھا۔ بخشی دور کشمیر میں بدعنوانی کیلئے بھی بدنا م ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ اگر کوئی بخشی دور میں دولت حاصل نہیں کرسکا، وہ کبھی نہیں کرسکتا ہے۔بتایا جاتا ہے کہ کسی ٹھیکہ دار کو ایگزیکیٹو انجینئیر نے بطور رشوت کسی مخصوص قالین کی فرمائش کی۔ قالین توٹھیکہ دار نے فراہم کرادیا، مگر اس نے تہیہ کیا تھا کہ اس انجینئیر کی شکایت بخشی سے ضرور کریگا۔ جب اپوائنٹ منٹ لیکر وہ مقررہ وقت پر وزیر اعظم کی رہائش گاہ پر پہنچا تو دیکھا کہ وہی قالین وہاں بچھا ہو ا تھا۔ تعمیر وترقی اور خوراک کی سبسڈی کے علاوہ بخشی نے اپنی ایک فورس پیس بریگیڈز کے نام سے بناکر ایک وسیع انٹیلی جنس نیٹ ورک ترتیب دیا تھا۔ ان کا کام مخالفین کی سن گن لینا، ان پر حملہ یا ہراساں کرنا ہوتا تھا۔ اختلاف رائے کی کوئی گنجائش نہیں تھی۔ پیس بریگیڈمیں گلی محلے کے غنڈو ں کو بھرتی کردیا گیا تھا۔ وہ مخالفین کے منہ میں گرم آلو ڈالنے، ان کے سینے پر بھاری پتھر رکھنے اور گرم لوہے سے داغدار کرنے کے لیے مشہور تھے۔ان کو مقامی زبان میں خفتن فقیر یا رات کے بھکاری کے نام سے جانا جاتا تھا، کیونکہ عشاء کی نماز کے بعد وہ گشت کرکے معلوم کرنے کی کوشش کرتے تھے، کہ کوئی ریڈیو پاکستان تو نہیں سن رہا ہے۔ ایسے شخص کا ریڈیو ضبط ہوتا تھا اور اس کو گرفتار کیا جاتا تھا یا مارپیٹ کر چھوڑا جاتا تھا۔ اس کے علاوہ علیحدہ سرکاری ملیشیا بھی بنائی گئی تھی، جن کا کام شیخ عبداللہ کے حامیوں سے متعلق خفیہ معلومات حاصل کرنا تھا۔ یہ خاص محلوں کو کنٹرول کرتے تھے، اور ان کو کشمیری میں گوگہ کہتے تھے۔ ان دونوں ملیشاز کی بربریت کی داستانیں جب نئی دہلی پہنچی، تو اس وقت کے بھارتی وزیر داخلہ، گووند بلبھ پنت نے بخشی سے ان کی سرگرمیوں کے بارے میں استفسار کیا۔ میر قاسم، جو کشمیر کے وزیر اعلیٰ رہ چکے ہیں اور بخشی حکومت میں وزیر تھے کے مطابق،بخشی نے پنت کو بہلانے کی کوشش کرتے ہوئے بتایا کہ یہ دونوں گروپ غیر مسلح ہیں، تو کیسے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے مرتکب ہو سکتے ہیں؟ بھارتی وزیر داخلہ نے بتایا کہ سرکاری سرپرستی میں پلنے والا ایک غنڈہ، ہزاروں لوگوں کی زندگیان اجیرن بنا سکتا ہے۔مگر کنجوال کے مطابق اس طرح کے تحفظات کے باوجود بھارتی حکومت نے بخشی کو کھلی چھوٹ دے رکھی تھی اور کبھی ان گروپوں پر لگام نہیں لگائی۔ مزید مصنف کنجوال کے مطابق نہرو کشمیر کو ایک خوبصورت عورت کے ساتھ تشبہہ دیتے تھے، جو ''امیدوں اور خواہشات'' کو بھڑکاتی ہے اور اس کے کئی عاشق ہیں۔ ان کے مطابق کشمیر کی یہ جنسی تصویر کشی، بھارت میں اب زیادہ ہی زور و شور کے ساتھ کی جا رہی ہے۔ 5 اگست 2019ء کے اقدامات کے بعد تو کئی لیڈروں نے بیانات داغے کہ اب خوبصورت کشمیری لڑکیوں کے ساتھ شادی کرنا آسان ہوگیا۔ کشمیر کے تصور کو ایک نسائی جنت کے طور پرابھارا جاتا ہے، جس کو دریافت کرنا اور جس کے اندر گھسنا ضروری ہے۔ جنسی زبان کا استعمال کرکے کشمیرکے پہاڑوں اور مناظر کو نسوانی بنا دیا گیا ہے۔ مصنف کا استدلال ہے، خواتین کے اجسام کے ساتھ کشمیر کے منظر نامہ کا موازنہ کرنا اور پھر بھارتی فوج کی مردانگی بیان کرنا ، جو ان مناظر اور وادیوں کو پاوں تلے روندتے رہتے ہیں، ایک طرح کے تعصب اور غیض و غضب کی نشاندہی کرتا ہے۔ یہ کتاب ان واقعات اور پالیسیوں کا ایک جامع تجزیہ فراہم کرتی ہے جو اس نازک دور میں کشمیر میں رونما ہوئے،۔کتاب کا مرکزی موضوع سیاست ہے اور اس کو کس طرح کشمیری باشندوں کے روزمرہ کے معمولات ، بشمول روزگار، خوراک، تعلیم اور بنیادی خدمات سے متعلق مسائل کے ساتھ نتھی کردیا گیا ہے۔ یہ طے کردیا گیا ہے کہ اگر کوئی کشمیری روزگار یا زندگی کے مسائل کیلئے جدو جہد کرتا ہے یا اسکا طالب ہوتا ہے ، تو اس کو حق خود ارادیت سے دستبرداری یا ہتھیار ڈالنے سے تشبہہ دی جاتی ہے۔ جس سے ایک پیچیدہ اور اکثر متضاد منظر نامہ پیدا ہوجاتا ہے۔ کنجوال نے ان طریقوں کا بھی جائزہ لیا ہے جن میں بخشی دور میں کشمیر میں بھارت کے کنٹرول کومضبوط کرنے کے لیے ''سیکولر'' کی اصطلاح استعمال کی گئی۔ اسی کے ساتھ مسلم تاریخ کو مٹانے اور ''اچھے'' مسلم اور ''برے'' مسلم کے فرق کو واضح کیا گیا۔ پروفیسر حفصہ کنجوال نے یقینا ایک چونکا دینے والی تحقیق دنیا کے سامنے پیش کی ہے۔یہ کتاب نوآبادیاتی اور مابعد نوآبادیاتی قوم کی تشکیل کے روایتی دہرے معیار کو چیلنج کرتی ہے ۔ اس کتاب کا مطالعہ کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ اس وقت بھی بھارتی حکومت کشمیر میںپرانے آزمائے ہوئے طریقوں کو ہی آزما رہی ہے۔ یہ سبھی اقدامات بخشی دور کی ہی طرح تاریخ کے اوراق میں گم ہو جائیں گے۔ بخشی کے دس سال اقتدار کے بعد 1963ء میں حضرت بل میں موئے مقدس کی گم شدگی کو لیکر کب کشمیر ابل پڑا ، تو بخشی اور اس کے حواریوں کو کہیں جائے پناہ بھی نہیں مل پا رہی تھی۔ نہرو کو سب سے زیادہ حیرانی اس بات پر تھی کہ دس سال تک جس نسل کو سیکولرازم اور کشمیر کے بھارت کے ساتھ قدیمی رشتوں کا پاٹھ پڑھایا گیا اور جس کی ذہن سازی کی گئی تھی، وہی اس ایجی ٹیشن میں پیش پیش تھی۔جن افراد نے بخشی کو شیخ عبداللہ کے متبادل کے بطور اقتدار میں بٹھایا تھا، انہوں نے ہی اس کے خلاف بدعنوانی اور دیگر کئی معاملوں میں کیس درج کرکے اسکو جیل میں پہنچا دیا۔ 1972ء میں ایک تنہا اور غیر مقبول شخص کے روپ میں اس کا انتقال ہوگیا۔ یہ موجودہ حکمرانوں کیلئے ایک بھی سبق اور تازیانہ ہے، جو اختراعی اقدامات کے بجائے جز وقتی اقدامات کا سہارا لیکر ایک پریشر کوکر جیسی صورت حال پیدا کرکے اسکو نارملائزیشن کا نام دیتے ہیں۔ یہ وقت ہے کہ ماضی سے سبق سیکھ کر خطے میں دیرپا اور حقیقی امن قائم کرنے کے لیے ٹھوس حکمت عملی بنائی جائے نہ قبرستان کا امن نافذ کرواکے ڈگڈگی بجاکر اپنے آپ کو دھوکہ دیا جائے۔