ابھی ابھی لٹن روڈ پر واقع ہمدرد مرکز میں بچوں کی ہمدرد اسمبلی میں شرکت کر کے واپس آئی ہوں۔ یقین کریں بچوں کی قابلیت ، اعتماد اور پاکستان کے مسائل کے حوالے سے ان کے شعور نے بہت متاثر کیا۔حکیم محمد سعید شہید کی تصویر کے پس منظر میں سکول کے طالب علم بچے اور بچیاں بڑے منظم انداز میں بیٹھے تھے دونوں اطراف ڈیسک لگا کر کرسیاں لگائی گئی تھیں اس قطار کے پیچھے بھی طالب علموں کی دو دو قطاریں تھیں۔یہ ہمدرد مرکز میں منعقد ہونے والی بچوں کی ہمدرد اسمبلی کا ایک منظر ہے۔ سٹیج کے ایک طرف سیاہ رنگ کا گاؤن پہنے ہوئے آٹھویں جماعت کی پر اعتماد طالبہ عطیہ وکیل اسمبلی کے سپیکر کی حیثیت سے بیٹھی تھی۔ علی بخاری جو ہمدرد مرکز کے روح رواں ہیں ان کا فون آیا اور مجھے ہمدرد اسمبلی میں شرکت کی دعوت دی میرے ساتھ فرح ہاشمی بھی وہاں موجود تھیں۔ بہت عرصے کے بعد میں نے ہمدرد مرکز کسی پروگرام میں شرکت کی ورنہ ایک دور میں تو ان کے ساتھ بہت پروگرام کیے تھے۔موضوع کے حوالے سے بچوں نے زبردست تقاریر کیں ،اگرچہ ان کی تقریریں کسی نہ کسی بڑے نے ہی لکھی ہوئی تھیں مگر جب وہ روسٹرم پر آ کر پورے اعتماد سے تقریریں کر رہے تھے تو صاف محسوس ہوتا تھا کہ وہ جو کچھ بول رہے ہیں اسے سمجھ بھی رہے ہیں۔ ان کے لہجوں کا اتار چڑھاؤ بتارہا تھا کہ وہ اس لفاظی کے پیچھے بیان کیے جانے والے فلسفے سے واقف ہیں۔ ان کی بدن بولی، ان کے اجلے لہجے ان کے اعتماد نے ان کے درمیان بیٹھے ہوئے ایک کالم نگار کو یقین دلایا کہ پاکستان کا مستقبل ان جیسے باشعور اور قابل بچوں کے ہاتھ میں ہے تو ہمیں مایوسی کیسی! ہاں ہم بڑوں پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ہم ان کی صلاحیتوں اور قابلیتوں کو ایک سمت دیں۔ ہم اپنی ذمہ داری کو محسوس کریں اور ایسے جوہر قابل کو کسی صورت بھی ضائع نہ ہونے دیں۔پروگرام کا آغاز سپیکر صاحبہ نے کیا اور حزب اقتدار کی نمائندگی کرنے والے طالب علم کو موضوع پر بات کرنے کی دعوت دی موضوع تھا کہ بیٹیاں پاکستان کا مستقبل ہیں اور ہمیں اس کا بخوبی احساس ہے۔حزب اقتدار کی نمائندگی کرنے والے طالب علم نے بڑے اعتماد سے اپنا موقف پیش کیا ،اس کے بعد حزب اختلاف کے نمائندہ طالب علم کی باری تھی۔ اردو کے جس اجلے لہجے میں بات کی گئی اور اپنے موقف کو جس طرح اقبال کے اشعار سے مزین کیا گیا وہ قابل تعریف تھا۔ پھردیگر مقرر بچوں کی باری آئی تو ایک سے بڑھ کر ایک مقرر نے آکر اپنا موقف بڑے ہی دبنگ انداز میں روسٹرم پر پیش کیا۔ تاریخ اور احادیث کے حوالے دئیے گئے اقبال کے اشعار توکبھی امرتا پریتم اور ساحر کی دل پذیر شاعری کے ٹکڑوں سے اپنی تقاریر کو سجایا گیا ہم درد مرکز میں بچوں کی اسمبلی میں تمام کاروائی بڑی تہذیب اور تحمل کے ساتھ جاری تھی اور مجھے پاکستان کے ایوان بالا اور ایوان زیریں میں ہونے والے سیاسی تماشے یاد آ رہے تھے۔کاش پاکستان کے سیاست دانوں کو بھی تربیت کے لیے ہمدرد مرکز لایا جاتا کہ وہ بچوں کی اس اسمبلی کا ہی حصہ بن کر دیکھ لیں کہ تہذیب اور تمیز کے ساتھ دوسرے کی بات کیسے سنی جاتی ہے۔ یہ ہماری سیاسی روایت بنتی جا رہی ہے کہ اختلافی نقطہ نگاہ نہیں سننا ،شور مچانا ہے، شیم شیم کے نعرے لگانے ہیں اور آخر میں ہاؤس سے واک آؤٹ کر جانا ہے۔بجٹ کے موقع پر بجٹ کی کاپیاں پھاڑی جاتی ہیں،اور اسمبلی کے فلور پر پاکستان کے منتخب نمائندے گالم گلوچ الزامات اور ہر قسم کی دھینگا مشتی کرنے کو سیاست سمجھتے ہیں۔ ستم یہ ہوا کہ تبدیلی کی دعوے دار سیاسی جماعت نے مذہب اور مسلک کے نام پر تقسیم قوم کو سیاست کے نام پر مزید تقسیم کیا۔ سیاسی اختلافات ہونا جمہوری معاشرے کا لازمی جزو ہے لیکن یہاں سیاسی پولرائزیشن کے نام پر ایک دوسرے سے نفرت کرنے کی باقاعدہ تربیت دی گئی اور بدقسمتی سے اسے تبدیلی کی سیاست کہا گیا۔ہمدرد اسمبلی میں حصہ لینے والے بچے پاکستان کی سیاست کے بدصورت رخ سے واقف ہیں۔ یہ باشعور بچے پاکستان کے مسائل سے بھی واقف ہیں کیونکہ ہر نوع میڈیا پر آنے والی انفرمیشن کے بہاؤ نے بچوں کو بھی حالات سے باخبر کر دیا ہے۔ پاکستان ان ملکوں میں شامل ہے جہاں نوجوانوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔پاکستان میں الیکشن ہونے جا رہے ہیں کیا کسی سیاسی جماعت کے منشور میں نوجونواں کے لیے بھی کوئی پروگرام ہے ؟ہمدرد مرکز جیسے کتنے ادارے ہمارے ہاں اور موجود ہیں جو آنے والے کل کے مستقبل کی باگ دوڑ سنبھالنے والے طالب علموں کی فکری اور تہذیبی تربیت کریں۔ شہید پاکستان حکیم محمد سعید کی عظمت کو سلام اور ان کے ویژن کی داد دینی چاہیے جنہوں نے پاکستان کے بچوں کے لیے ادارے بنائے یہاں بچوں کی تہذیبی اور فکری تربیت ہو رہی ہے۔کہ وہ کام ہے جو آج کے تعلیمی ادارے بھی نہیں کر رہے۔ میں حکیم صاحب کی تصویر دیکھ رہی تھی اور خیال آ رہا تھا کہ ہمارے درمیان کیا عظیم ویژنری شخص تھا۔جس نے اس ملک کو لائبریریاں دی ادارے دیے مدینۃالحکمت جیسا علم کا شہر دیا۔اور پھر بچوں کی تربیت کے لیے پاکستان کے ہر صوبے میں ہمدرد مرکز بنائے۔ محترمہ سعدیہ راشد انہی کا روپ ہیںاور اپنے عظیم والد کے مشن کو آگے بڑھا رہی ہیں۔ اس تقریب میں ہمدرد فاؤنڈیشن کی طرف سے کم وسیلہ مگر ذہین طالب علموں کو کیش انعامات بھی دیے گئے اور میری خوشی کی اس وقت انتہا نہ رہی جب ان بچوں میں ایک طالبہ خانپور کے مضافاتی قصبے باغ و بہار سے کوالیفائی کر کے لاہور آئی تھی اس کے سکول ٹیچر والد اس کے ہمراہ تھے۔بے شک پاکستان کے چھوٹے سے چھوٹے شہر قصبوں دیہاتوں میں صلاحیتوں سے چھلکتے ہوئے طالب علم اور نوجوان موجود ہیں۔بس ہمیں ایسے پالیسی سازوں کی ضرورت ہے جن کے اندر حکیم سعید شہید جیسا دل دھڑکتا ہو جو یہ کہتے تھے کہ پاکستان کے بچوں کو عظیم بنا دو پاکستان خود بخود عظیم ہو جائے گا!مگر سوال تو یہ ہے کہ مفاد پرستی اور خود غرضی کے اس ہنگام میں حکیم سعید شہید جیسا دل کہاں سے لائیں؟