پاکستان کی سب سے بڑی پارٹی زیرِعتاب ہے تو ملکی بازار سیاست میں ایک ہلچل سی مچ گئی ہے۔ جنابِ آصف زرداری لاہور میں تشریفلا چکے ہیں۔ ان کی نظریں جنوبی پنجاب پر گڑی ہیں جہاں سے اٹھارویں ترمیم (2010)کے بعد ان کی پارٹی اپنا کیمپ اکھاڑ لے گئی تھی تاکہ ن لیگ وہاں پر اپنے جھنڈے گاڑ کر تخت اسلام آبادپر براجمان ہوسکے۔ یہ میثاقِ جمہوریت کا لازمی تقاضہ تھا کہ دونوں پارٹیاں، نوے کی دہائی کی تلخیوں کو بھلا کر باری باری وفاق پر حکومت کریںجبکہ صوبائی خود مختاری کے اصول کی روشنی میں وہ ہر دو کے زیر اثر صوبے سے بھی دور رہیں گی۔ چونکہ کراچی پر ایم کیو ایم کا تسلط تھا تو ن لیگ وہاں پر طبع آزمائی کر سکتی تھی۔ سیاسی بھائی چارے کے تحت یہ بھی طے ہوا تھا کہ یہ پارٹیاں، انتخابات میں ایک دوسرے کے خلاف امیدوار کھڑے نہیں کریں گی۔ سیاسی استحکام کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے اس اصول پر کم و بیش عمل آج تک ہو رہا ہے۔ لیکن یہ رسمِ وفا پیپلز پارٹی کے لیے ا لجھن بن گئی ہے۔ پیپلز پارٹی کے جنوبی پنجاب سے قبل از عام انتخابات 2013ء سے غائب ہونے کی، ن لیگ سے رسم وفا نبھانے کے علاوہ ایک اور وجہ بھی تھی، بھٹو دور میں یہاں بہاولپور صوبہ بحالی تحریک کو بھلاکر 'بڑا سوچنے' کا رواج ڈالا گیا تھا تاکہ پنجاب کو دو حصوں میں تقسیم کرکے ملکی سیاست پر اسٹیبلیشمنٹ کا قبضہ تڑوایا جاسکے۔ اس سوچ کو عملی صورت میں لانے کے لیے سرائیکی لوک سانجھ کی بنیاد ڈالی گئی جس نے جنوبی پنجاب میں بولی جانے والی زبان کے مختلف لہجوں کو سرائیکی کا نام دے کر وفاق پاکستان میں ایک نئی قوم متعارف کرائی جس کی نشو نما اور بقا کے لیے علٰیحدہ صوبہ لازم تھا۔ لوک سانجھ کے روح رواں تونسہ کے ایک سکول ٹیچر فدا حسین گاڈی تھے۔ اس تنظیم نے ایک تحریک کے طور پر کام کیا، پیپلز پارٹی کا ایک غیر رسمی ثقافتی ونگ تھا جس کے ذمہ نئی قومیت کے خدو خال واضح کرنا بھی تھے اور اس حوالے سے لوگوں میں صوبے کی اہمیت کے حوالے سے شعور بھی اجاگر کرنا تھا۔ پیپلز پارٹی نے تعلیمی اداروں کے قیام کے ذریعے تھل اور دمان کے غربت زدہ علاقوں میں بہت سارے لوگوں کو روزگار مہیا کیا تھا۔ جب کبھی پیپلز پارٹی کو اقتدار ملا، اس نے نوکریاں تو دیں لیکن صوبے کے سوال کو گول کرگئی۔ چونکہ نوے کی دہائی میں ن لیگ اور پیپلز پارٹی میں ٹھنی تھی، لوک سانجھ نے یہاں پیپلز پارٹی کے نواز مخالف بیانیے کو فروغ دینے کی آڑ میں لسانیت کی آگ کو کھل کر ہوا دی۔ تاہم جب امریکہ کی آشیر باد سے میثاق جمہوریت ہوگیا اور بی بی رانی نے نواز شریف کو بھائی قرار دے ڈالا تو سوال پیدا ہوا کہ اب پیپلز پارٹی پنجاب کی تقسیم پرکیا موقف اپنائے گی۔ میثاق جمہوریت اور این آر او کے بعد بینظیر بھٹو نے پاکستان واپسی سے پہلے نواب صلاح الدین عباسی سے ملاقات کی تھی اور وعدہ کیا تھا کہ اگر اس دفع وہ جیت گئیں تو وہ بہاولپور صوبہ بحال کرائیں گی۔ انہوں نے پنجاب میں، راولپنڈی کے علاوہ، بہاولپور کے ضلع رحیم یار خان میں ہی کہا تھا۔ وہ خود تو شہید ہوگئیں لیکن بہاولپور سے پیپلز پارٹی کو پہلی بار ایک تاریخی کامیابی ملی۔ پیپلز پارٹی، جو اب آصف علی زرداری کے ہاتھ میں تھی اس نے نہ تو بہاولپوروالوں سے وعدہ پورا کیا نہ جنوبی پنجاب سے وفا۔ حتٰی کہ 32 ارب کے اس خطے کے فنڈز سارے کے سارے ملتان پر ہی خرچ ہوئے۔ یوسف رضا گیلانی نے ستلج کنارے کھڑے ہوکر اگلے انتخابات کے لیے پارٹی کے منشور میں سرائیکی صوبہ شامل کیا تو بہاولپور سوگوار ہوگیا۔ پیپلز پارٹی نے قومی اسمبلی میں سے سرائیکی صوبے کے حق میں قرارداد منظور کرائی اور سینٹ میں بل بھی جمع کرایا۔ جواب آں غزل کے طور پر مسلم لیگ ن نے پنجاب اسمبلی سے پنجاب کو دو صوبوں میں تقسیم اور بہاولپور صوبہ بحال کرنے کا بل پاس کرالیا۔ عام انتخابات ہونے تک پیپلز پارٹی صوبے سے ہوتی ہوئی بہاولپور- جنوبی پنجاب صوبے تک پہنچ چکی تھی۔ انتخابات ہوئے تو یوسف رضا گیلانی پیپلز پارٹی کے کیمپ میں تنہا رہ چکے تھے، سرائیکی لوک سانجھ منہ چھپاتی پھرتی تھی۔ پیپلز پارٹی نے ن لیگ کو اقتدار میں لانے کے جنوبی پنجاب صوبہ ہی نہیں قومیت کے تصور کو ہی روند ڈالا۔ وفاق میں حکومت کی باری پیپلز پارٹی کی تھی لیکن ایسا جنوبی پنجاب کی حمایت کے بغیر ممکن نہیں تھا۔ جنوبی پنجاب اب نہ ن لیگ کے ساتھ تھا نہ پیپلز پارٹی کے ساتھ۔ اس نے عام۔انتخا بات میں کھلی باہوں سے نئی سیاسی پارٹی، تحریک انصاف، کو خوش آمدید کہا۔ تحریک انصاف نے جنوبی پنجاب سیکریٹیریٹ دیا،خطے کا بجٹ مختص کیا، احساس پروگرام اور صحت کارڈ دیا۔ سب سے بڑھ کر جنوبی پنجاب کے علاقے دامان، جہاں سے لوک سانجھ اٹھی تھی، وزیر اعلیٰ دیا جس نے پہلا کام بہاولپور اور لودھراں کے درمیان چلنے والی سپیڈو بسیں بند کروانے کا کیا۔ اپنی حکومت ختم ہونے کے بعد تحریک انصاف ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے تو آصف علی زرداری پیپلز پارٹی کی دکان سجائے بیٹھے ہیں کہ کسی طرح جنوبی پنجاب ہاتھ آئے تو مرکز میں اقتدار کی راہ نکلے۔ لیکن انہوں نے لاہور اپناکومسکن بنایا ہے، ملتان نہیں، مبادا انہیں کسی وعدے کی تجدید نہ کرنا پڑے۔ ان کی سیاست کا محور اٹھارویں ترمیم ہے جس نے صوبے ہی نہیں بلکہ کسی بھی نئے صوبے کے سوال کو دفن کردیا تھا۔ کل کلاں اگر تحریک انصاف کی قیادت الیکشن نہ بھی لڑے تو بھی جنوبی پنجاب کا پیپلز پارٹی کے کیمپ میں آنے کا امکان کم ہے کہ وہاں پر ایک نہیں دو ایسے سیاستدان موجود ہیں جو جنوبی پنجاب کا مقدمہ لڑنے کو تیار ہیں: شاہ محمود قریشی اور جہانگیر ترین۔ ن لیگ اگر جنوبی پنجاب میں اپنے امید وار کھڑے نہ بھی کرے تب بھی پیپلز پارٹی کو کھلا میدان نہیں ملنے والا۔ اب پیپلز پارٹی کا المیہ یہ ہے کہ اگر وہ سیاسی بھائی چارہ نبھاتی ہے تو اسلام آباد اس کے ہاتھ نہیں آنے والا۔ اگر نہیں نبھاتی تو اٹھارویں ترمیم خطرے میں پڑتی ہے۔ اب اس مشکل سے پیپلز پارٹی کیسے نکلے گی؟؟؟