کنگزپارٹی کے استقبال کی تیاریاںآخری مراحل میں ہیں۔ اقتدار کی شطرنج کے روایتی مہرے ،جاگیردار، سرمایہ دار، سیاست اور شہرت کے شوقین اب سب ایک گھاٹ سے پانی پیئں گے۔ پاکستان تحریک انصاف کے منحرفین پر مشتمل قاف لیگ اور ایوب خان کی کنونشن لیگ کی طرح کی ایک پارٹی بن رہی ہے ۔دلچسپ بات یہ ہے یہ پارٹی پی ڈی ایم کی حکومت کو چیلنج کرے گی ۔فواد چودھری نے ایک پریس کانفرنس کے ذریعے اس کی مشق فرمانا شروع کردی ہے۔ الیکشن میں وہ حکمران اتحاد کے خلاف امیدوار میدان میں اتاریں گے ۔ الیکشن میں کامیاب ہونے والے مختلف الخیال افراد کے اشتراک سے وفاقی اور صوبائی حکومتیں قائم ہوں گی۔اس طرح وفاق میں ایک مضبوط حکومت قائم نہ ہوسکے گی۔ امکان ہے کہ پیپلزپارٹی کو دیگر جماعتوں کے مقابلے میں ذرا برتری دلوائی جائے گی۔پنجاب میں گھمسان کارن پڑے گا۔ نون لیگ کو پی ٹی آئی ، قاف لیگ اور کنگز پارٹی سے مقابلہ کرنا پڑے گا۔ اس طرح بقول غالب کے نون لیگ کے اڑیں گے پرزے۔ اس پارٹی کی ناکامی دیوار پر جلی حروف سے لکھی ہے۔اوّل تو یہ کوشش حقیقت کاروپ دھار ہی نہیں سکے گی۔ اور اگر کامیاب ہوبھی جائے تو منتخب حکومت اپنا اخلاقی وجود نہیں منوا پائے گی۔ عوام میں اس کا اعتبار قائم ہوگااو رنہ اس کی جمہوری ساکھ تسلیم کی جائے گی۔ جس حکومت کی ساکھ نہ ہو وہ ڈیلیور بھی نہیںکرسکتی۔ اس پارٹی کو جو بھی لیڈ کرے گا اس کی رام کہانی موجودہ کشیدہ ماحول میں ارتعاش بھی پیدا نہ کرپائے گی۔قومی سیاست تین جماعتوں کے گرد گھومتی ہے۔ پاکستان مسلم لیگ، پاکستان تحریک انصاف اور پیپلزپارٹی۔ باقی جماعتوں کی حیثیت جمعہ جج نال والی ہے۔اب جو پارٹی تشکیل پائے گی تو اس کے پاس کوئی بیانیہ ہے اورنہ کوئی ایسا سیاسی نظریہ جس کی بنیاد پر لوگ اس کی طرف متوجہ ہوں۔ جہانگیر ترین ، علیم خان،چودھری سرور اور فواد چودھری کے پاس کہنے یا بیچنے کو کچھ بچا ہی نہیں۔ کنگز پارٹی کے لیڈر عوام کے دلوں میں جگہ بنانے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتے۔یہ جوڑتوڑ اوراداروں کی اعانت سے چھوٹا موٹا کارنامہ سرانجام دے سکتے ہیں لیکن ملک گیر سطح پر ان کی کوئی اپیل نہیں۔ بے محاباسرکاری اور ذاتی وسائل کے باوجود شہباز شریف عوامی پزیرائی حاصل نہ کرسکے تو یہ حضرات کیسے رائے عامہ کو ہمنوا بناسکیں گے۔ کنگز پارٹی ، نون لیگ اور پی پی پی مل جل کر اگرحکومت بنانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں توساتھ نبھا نہ سکیں گے۔ مختلف الخیال سیاستدانوں اور متحارب سیاسی مفادات کی حامل ان شخصیات کا ٹکراؤ فطری ہے۔ معیشت کو یہ بہتر کرنہیں سکتے۔افسوس!ان میں کوئی ایک بھی ایسا نہیں جو زرعی اور پراپرٹی ٹیکس لگا سکے۔ بائیس لاکھ دکانداروں کو ٹیکس نیٹ میں لا سکے۔ آئی ایم ایف اب قرض دیتا نہیں۔ بلکہ حال ہی میں اس نے ایک بیان جاری کیا ہے کہ پاکستان میں جاری سیاسی مسائل کو آئین اور قانون کے دائرے میں پرامن طریقے سے حل کیا جائے۔ عرب ممالک ارب دوارب ڈالر سے زیادہ امداد دینے پر آمادہ نہیں۔ چین کی اسٹرٹیجک مجبوری ہے۔ تھوڑابہت جھولی میں ڈال دیتاہے۔اس سے غربت کم ہوتی نہ بھوک مٹی ہے۔ حکومت ہر محاذ پر بری طرح ناکام ہوچکی ہے۔اقتصادی امور سے نا بلد ٹیم کی غیر ضروری خوداعتمادی اور سیاسی عدم استحکام کی بدولت ملک شدید اقتصادی بحران کا شکار ہے۔روپے کی قیمت غیر معمولی حد تک گرچکی ہے۔ بے روزگاری کایہ عالم ہے کہ محفوظ ترین ہاؤسنگ سوسائٹیوں میں لوگ دن دیہاڑے لوٹے جاتے ہیں ۔ پولیس کے ہاتھوں سیاسی کارکنوں اور لیڈروں کی تذلیل معمول بن چکا ہے۔پولیس گھروں پر لاؤ لشکر کے ساتھ چڑھائی کرتی ہے ۔ہزاروں لوگ جیلوں میں ہیں۔ پولیس کے طرز عمل نے شہباز حکومت کے ماتھے پر کلک کاایسا ٹیکہ لگایا ہے جس کا داغ کبھی مٹ نہ سکے گا۔ ضیا الحق کے دور میںسیاسی کارکنان اور رہنماؤں پر جو ظلم ہوا اس پر آج تک تنقید کی جاتی ہے۔وزیراعظم شہباز شریف کو بھی ایک ایسے حکمران کے طور پر یاد رکھا جائے گا جس کے عہد میں سیاسی مخالفین کو سیاسی وجوہات کی بنا کر مقدمات کا سامنا کرنا پڑا لیکن مصر کے حکمران عبدالفتاح السیسی کی طرح ان کے کانوںپر جوں تک نہ رینگی۔ سیاست کوئی کھیل نہیں بلکہ عبادت ہے ۔عوام سیاسی جماعتوں اور شخصیات کے سپرد اپنا اور اپنی نسلوں کا مستقبل کرتے ہیں۔ان سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ شہریوں کے مفاد میں فیصلے کریں گے۔بدقسمتی سے پاکستان میں سیاست کو لوٹوں اور کاروباری لوگوں نے عوام کو داؤ لگانے اوراپنا مفاد حاصل کرنے کا ذریع بنا کر بدنام کردیا۔چنانچہ وہ حسب ضرورت اور ہدایت جماعتیں بدلتے رہتے ہیں۔ان کی سیاست ان کے مفادات کے تابع ہوتی ہے نہ کہ عوامی مفاد کے لیے۔ ناکام تجربات کو دہرانے کے بجائے غور کرنا چاہیے۔ میر ظفرا للہ خان جمالی اور محمد خان جونیجو جیسے بے ضرر سیاستدان بھی کوچہ اقتدار سے بے آبروہو کرنکلے۔نوازشریف نے آٹھویں ترمیم منسوخ کرکے صدرمملکت کا قومی اور صوبائی اسمبلیاں تحلیل کرنے کا اختیار ختم کیا تو عدالتوں کے ذریعے سیاستدانوں کا ڈھرن تختہ کیا جانے لگا۔ حقیقت یہ ہے کہ شراکت اقتدار نامی کسی شہ کا کوئی حقیقی وجود نہیں ۔ڈرائیونگ سیٹ جو سنبھالتاہے وہ گاڑی کی رفتار اور سمت کا تعین خود کرتاہے۔ پاکستان کا آئین وزیراعظم کو اتنا بااختیار بنادیتاہے کہ وہ تا بع محمل نہیں بن سکتا۔ وہ مستقل طور پر اپنے اختیارات سے دستبردار نہیں ہوتا۔ محمد خان جونیجو کی طرح بتدریج اختیارات کا استعمال کرناشروع کردیتاہے۔ ممکن ہے الیکشن کے بعد ایک پسندیدہ حکومت تشکیل پاجائے لیکن ملک کو درپیش مسائل کم نہ ہوں گے۔ منتخب وزیراعظم اپنے اختیارات کے آزادانہ استعمال پر اصرار کرے گا۔ حکومت برباد معیشت سنبھال نہ پائے گی۔محض ایک برس میں شہریوںکی بے قراری اور میڈیا کی بیزاری اسے مکمل طور پر غیر مقبول بنادے گی۔ حکومت کے اتحادی غیر مقبول ہوتی ہوئی حکومت کا سیاسی بوجھ اٹھانے سے گریز کرنے لگیں گے۔یوںسال ڈیڑھ بعد ہنی مون پریڈ تمام ہوجائے گا۔ مخالفین الیکشن کے نتائج تسلیم نہیں کریں گے۔ ان کے حامی حکومت کے خلاف سرگرم رہیں گے۔ اس طرح بھان متی یہ کنبہ بھی ملک وقوم کی کوئی خدمت کیے بغیر گھر چلا جائے گا۔ مسائل کا ایک ہی حل ہے کہ نئے تجربات کرنے کے بجائے قومی سطح پر اتفاق رائے قائم کیا جائے۔مفاہمت کی راہ تلاش کی جائیں۔ ایک دوسرے کو فتح کرنے کے بجائے ایک دوسرے کے ساتھ جینا سیکھاجائے۔ تمام سیاسی رہنما دوبارہ میثاق جمہوریت کی طرف لوٹ آئیں۔یہ ایک ایسی دستاویز ہے جو ملک کو بحران سے نکال سکتی ہے۔