وفاقی شرعی عدالت نے 28 اپریل 2022ء کو رباء (سود) کے خلاف جو تاریخ ساز فیصلہ دیا ہے، اس میں یوں تو موجودہ اسلامی بینکنگ (جسے تمام مفتیانِ کرام بھی غیر ’’سودی بینکاری‘‘ کہتے ہیںاور مکمل اسلامی بینکنگ کہنے سے اجتناب کرتے ہیں)، کو کسی حد تک جائز قرار دیا، لیکن چونکہ شرعی عدالت کے جج حضرات کا دل بھی اس بات پر مطمئن نہیں تھا، اس لئے انہوں نے درج ذیل پیرا اپنے فیصلے میں شامل کر دیا۔ "We are of the view that every citizen is at liberty to challenge the legality of any such product which is being practiced and acted upon in the name of Islamic Banking. If any citizen thinks that any product of Islamic Banking is not in accordance with the injunctions of Islam and the name of Islam is only being used as "HEELA" than he can invoke the jurisdiction of the Federal Shariat Court any time." ’’ہمارا یہ خیال ہے کہ ہر شہری آزاد ہے کہ وہ کسی بھی ایسے ’’بینکاری طریقِ کار‘‘ کی قانونی حیثیت کو چیلنج کرے جو اسلامی بینکنگ کے نام پر رائج ہے۔ اگر کوئی شہری یہ سمجھتا ہے کہ اسلامی بینکنگ کا کوئی طریقِ کار اسلام کی تعلیمات و ہدایات کے مطابق نہیں ہے، اور اسلام کا نام صرف ایک ’’حیلہ‘‘ کے طور پر استعمال کیا گیا ہے تو وہ کسی بھی وقت وفاقی شرعی عدالت کی عملداری (jurisdiction) کے تحت درخواست دے سکتا ہے۔‘‘ وفاقی شرعی عدالت کی اس اجازت سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے ہم نے اس ’’نام نہاد‘‘ اسلامی بینکنگ کو وفاقی شرعی عدالت میں چیلنج کیا، جس کی پہلی پیشی 14 نومبر 2022ء کو ہوئی۔ میرے ساتھ اس میں ایک ایسے صاحب شریک ہیں جو برطانیہ میں اپنی لاکھوں پونڈ کی پریکٹس چھوڑ کر پاکستان آئے ہیں تاکہ سود کے نظام کے خلاف جہاد کر سکیں۔ یہ صاحب شہزاد شوکت ہیں جو ایک چارٹرڈ اکائونٹنٹ ہیں، لیکن معاشیات و بینکاری کے علم میں بھی ایسی اسناد رکھتے ہیں جو بہت کم لوگوں نے حاصل کی ہیں، ان کے ساتھ ایک اور چارٹرڈ اکائونٹنٹ عبدالرزاق صاحب ہیں جو بیک وقت برطانیہ اور پاکستان میں پریکٹس کرتے ہیں۔ شہزاد شوکت صاحب نے وفاقی شرعی عدالت میں رباء کے خلاف بنیادی پٹیشن کے دوران وفاقی شرعی عدالت کے سامنے انتہائی جاندار دلائل دیئے تھے جو رباء کے خلاف اس ساڑھے تین سو صفحات پر مشتمل فیصلے میں شامل ہیں۔ یوں تو اسلامی بینکنگ کے بارے میں پہلے دن سے ہی یہ شرح صدر موجود تھی کہ یہ دراصل مروّجہ سودی بینکاری کے ’’خنزیر‘‘ کو ’’بکری‘‘ کا لبادہ اوڑھا کر حلال کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اسلامی بینکاری کے بارے میں اس تصور کو ہمارے اذہان میں ان لوگوں کی گفتگو سے راستہ بنا، جو تھے تو بنیادی طور پر بینکاری کے شعبے سے ہی وابستہ مگر ببانگِ دہل یہ کہا کرتے تھے کہ یہ ’’خالصتاً‘‘ ویسا ہی سودی کاروبار ہے جو باقی مروّجہ بینک کرتے ہیں لیکن ’’حیلہ سازی‘‘ سے اسے اسلامی بینکنگ پکارا جاتا ہے۔ لیکن اسلامی بینکنگ کے خلاف مہرِ تصدیق اس وقت لگی جب شیخ الحدیث مولانا سلیم اللہ خان مرحوم (اللہ ان کی قبر کو نُور سے بھر دے) جنہوں نے 28 اگست 2008ء بمطابق 25 شعبان المعظم 1429ھ ملک بھر کے مفتیانِ کرام کا اجلاس جامعہ فاروقیہ میں منعقد کروایا اور مروّجہ اسلامی بینکاری کا بھر پور جائزہ لینے کے بعد تمام مفتیانِ کرام نے یہ فتویٰ جاری کیا۔ ’’اجلاس میں شریک مفتیانِ عظام نے متفقہ طور پر یہ فتویٰ جاری کیا کہ اسلام کی طرف منسوب مروّجہ بینکاری قطعی غیر شرعی اور غیر اسلامی ہے، لہٰذا ان بینکوں کے ساتھ اسلامی یا شرعی سمجھ کر جو معاملات کئے جاتے ہیں وہ ناجائز اور حرام ہیں اور ان کا حکم دیگر سودی بینکوں کی طرح ہی ہے‘‘۔ اس فتوے پر مولانا سلیم اللہ خان کے علاوہ جن علماء و مفتیان نے دستخط ہیں ان میں مولانا زر ولی خان، مفتی عبدالمجید دین پوری شہید، مولانا حبیب اللہ جان اور مفتی عبداللہ صاحب جیسے پندرہ جید علماء اور مفتیان کے نام شامل ہیں۔ اسی سال ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم نے لاہور میں ’’اسلام اور بینکنگ‘‘ کے عنوان سے ایک کانفرنس منعقد کروائی۔ اس کانفرنس میں پاکستان اور بیرون ملک سے تقریباً ہر شعبہ زندگی کے افراد نے شرکت کی، جن میں سپریم کورٹ کے سابق جج، معیشت دان اور علماء سب شامل تھے۔ اس کانفرنس میں جہاں مروّجہ بینکاری کو حرام قرار دیا، وہیں اسلامی بینکاری کو بھی نہ صرف حرام قرار دیا گیا بلکہ اسے اس لئے زیادہ خطرناک قرار دیا کہ اس کی وجہ سے عام آدمی اسے اسلامی سمجھ کر اس میں شامل ہو جاتا ہے اور اسے اس بات کا قطعاً احساس تک نہیں ہوتا کہ وہ ویسا ہی سود حاصل کر رہا ہوتا ہے جیسا کہ مروّجہ سودی بینکوں سے لین دین کے معاملے میں اسے ملتا ہے۔ وفاقی شرعی عدالت نے بھی اپریل 2022ء کے اپنے فیصلے میں مروّجہ اسلامی بینکنگ کو بھی مکمل نہیں بلکہ ’’کسی حد تک‘‘ یعنی انگریزی زبان میں تو "To some extent" حلال قرار دیا ہے۔ اگر فیصلہ کرنے والے ججوں کو اپنے موقف پر حتمی یقین اور ایمان ہوتا تو وہ کبھی بھی اس پر دوبارہ پٹیشن دائر کرنے اور عدالت سے رجوع کرنے کی گنجائش نہ چھوڑتے۔ پندرہ سال قبل 2008ء میں دنیا میں ایک عالمی مالیاتی بحران آیا، جو اپنی خوفناک شکل میں 2008ء میں اس طرح نمودار ہوا کہ یوں لگتا تھا کہ 1945ء میں بریٹن ووڈ میں قائم کردہ سودی مالیاتی نظام دھڑام سے گر جائے گا۔ دنیا بھر کے ممالک میں قائم بینکوں نے سود لینا مکمل طور پر ختم کر دیا۔ اس بحران سے نہ صرف یہ بینکار سمجھ گئے تھے کہ ترقی اور سود ایک ساتھ نہیں چل سکتے، بلکہ دنیا بھر کے ممالک کو بھی اس بات کا ادراک ہو گیا تھا کہ اگر ہم نے لوگوں کو سود پر قرض دیا تو معیشت کا پہیہ بالکل جام ہو کر رہ جائے گا۔ دبئی کی مارکیٹ سے ایک ملک پاکستان کے شہریوں کے آٹھ ارب ڈالر ڈوبے تھے۔ لوگ اپنی گاڑیوں میں چابی لگائے انہیں ایئر پورٹ پر چھوڑ کر جہازوں میں فرار ہو گئے تھے۔ اس عالمی بحران میں اگر اسلامی بینکاری نہ ہوتی تو سود کا عالمی نظام دَم توڑ جاتا۔ عالمی سودی مالیاتی نظام کے ’’قائدین‘‘ کو ساری زندگی کے لئے اسلامی بینکاری کا شکر گزار ہونا چاہئے کہ اس نے 2008ء میں سودی نظام کی بقاء کے لئے ہراوّل دستے کا کام کیا۔ یہی وجہ ہے کہ 2008ء کے بعد سے دنیا بھر میں اسلامی بینکاری میں ڈرامائی طور پر اضافہ ہوا ہے اور دنیا بھر میں قائم عالمی سودی مالیاتی نظام کے ٹھیکیداروں نے بھی اسے ٹھنڈے پیٹوں قبول کر لیا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ مروّجہ اسلامی بینکنگ سودی نظام کے بنیادی اساسی تصور میں سے کسی ایک تصور کو بھی چیلنج نہیں کرتی، بلکہ اپنی مخصوص ’’حیلہ سازی‘‘ سے اسے شرعاً جائز قرار دیتی ہے۔ اسلامی بینکاری پر عملی کام 1963ء میں شروع ہوا اور 1975ء میں اس کی ’’کھڑکیاں‘‘ عام بینکوں میں کھول دی گئیں۔ پاکستان ان پہلے تین ممالک میں شامل تھا جنہوں نے اس کی بنیاد رکھی۔ جولائی 1979ء میں HBFC، NIT اور ICP جیسے معاشی اداروں میں اس کا ٹیسٹ آغاز کیا گیا۔ اور 26 جون 1980ء کو پاکستان کے معاشی اور کارپوریٹ سسٹم کے لیگل فریم ورک میں ترمیم کر کے ’’اسلامی بینکاری‘‘ کی راہ نکالی گئی۔ (جاری ہے)