الشیخ سلیمان بن عبدالعزیز الراجیح کو مسلم دنیا کا مسیحا کہا جاتا ہے۔ وہ 1929ء میں سعودی عرب کے صوبہ ال قاسم میں پیدا ہوئے۔اوائل ِ عمری میں ہی انہوں نے اپنے بھائی صالح الراجیح کے ساتھ مل کر مکہ اور مدینہ جانے والے حاجیوں اور زائرین کو محفوظ سفر کے لئے اونٹوں کے کاروان مہیا کرنے کا کاروبار شروع کیا۔ 1970ء کی دہائی میں چونکہ سعودی عرب میں تیل کی دریافت ہوئی تو حج پر آنے والے زائرین نے روزگار کے مواقع بھی تلاش کرلئے۔ الشیخ سْلیمان بن عبدالعزیز وہ پہلے شخص تھے جنہوں نے زائرین اور دیگر کام کرنے والے افراد کو اپنے گھر پیسے بھیجنے کا بندوبست کیا۔ دونوں بھائیوں کی مدد سے انڈونیشیاء اور پاکستان میں ہزاروں بلکہ لاکھوں افراد نے اپنے گھروں میں پیسے بھیجنے شروع کئے۔ کاروبار میں برکت سے دونوں بھائیوں کے پاس اس قدر دولت کی فراوانی ہوئی کہ 1983ء میں سعودی حکومت کی اجازت سے سلیمان بن عبدالعزیز نے سعودی عرب میں پہلا اسلامی بینک ’الراجیح اسلامی بینک‘ قائم کیاجو بنا سود سرمایہ کاری کے کام کررہا ہے اور اس وقت یہ بینک سعودی عرب کی بینکنگ دنیا کا بے تاج بادشاہ مانا جاتا ہے۔ جب کہ ساتھ ہی 2007ء میں دونوں بھائیوں نے ’السوق مالیتہ السعودیتہ‘ جسے عرف ِ عام میں ’تداول‘ بھی کہا جاتا ہے کے نام سے سعودی عرب کا پہلا سٹاک ایکسچینج قائم کیا۔ شیخ صالح الراجیح تداول کے پہلے صدر منتخب ہوئے۔ یہ خاندان اب جپسم، زراعت، سٹیل، آئی ٹی، رئیل اسٹیٹ، سرامک اور دوسرے صنعتی کاروبار کررہا ہے۔حال ہی میں الشیخ سْلیمان بن عبدالعزیز کی دولت کا تخمینہ کئی ارب ڈالرز لگایا گیا ہے۔ حیران کن طور پر انہوں نے 2011ء میں اعلان کیا کہ وہ سات اعشاریہ سات ارب ڈالرز فلاحی کاموں پہ خرچ کرنے جارہے ہیں۔ جس پر اْنہیں سابق سعودی بادشاہ ’شاہ فیصل انعام‘ سے نوازا گیا۔اِسی سال یعنی 2011ء میں شیخ سْلیمان نے اپنے بھائی شیخ صالح الراجیح کو کھودیا۔اب اْن کے بیٹے نائیف صالح راجیح اسلامی بینک کے بطور صدر کام کررہے ہیں۔ اس وقت سعودی عرب، متحدہ عرب امارات،مصر، لبنان،عراق اور دیگر ممالک میں اِس بینک کی کل پانچ سو چھبیس شاخیں موجود ہیں۔ شیخ سلیمان نے اس دوران اپنے ملک سعودی عرب میں کئی قومی منصوبہ جات میں سرمایہ کاری کی جسے سعودی حکومت نے سراہا۔ انہوں نے اسلامی بینک کے علاوہ الراجیح یونیورسٹی بھی قائم کی ہے جس میں اسلامک بینکنگ، صحت اور دیگر فیکلٹیز کام کررہی ہیں۔ اِس وقت یہ واحد غیر شاہی خاندان ہے جو سعودی عرب میں ارب پتی مانا جاتا ہے۔ سعودی شاہی خاندان کے بعد یہ واحد سعودی عرب کا خاندان ہے جو نہ صرف سعودی عرب بلکہ غیر عرب دنیا میں اپنے فلاحی کاموں کی وجہ سے بہت مشہور ہے۔ 1994ء سے 1996ء کے دوران الراجیح خاندان نے اور ایک منصوبہ ’دْرمہ پروجیکٹ‘ کے نام سے شروع کیا۔ کل سات سو ساٹھ ہیکٹرزرقبہ پر پچاس ہزار کھجور کے پودے لگائے گئے۔اِس وقت الباطین پروجیکٹ اور دْرمہ پروجیکٹ سے حاصل ہونے والی کھجوروں کی آمدنی کا تخمینہ لگانا مشکل ہے مگر سعودی عرب سفر کرنے والے زائرین جب اپنے ملکوں کو لوٹتے ہیں تو اْن کے سامان کے ساتھ جو کھجوریں ہوتی ہیں وہ یقینی طور پر الباطین کے باغات سے پیدا ہونے والی کھجوریں ہوتی ہیں۔ صرف الباطین باغ سے سالانہ دس ہزار ٹن کھجور پیدا ہوتی ہے۔ سب سے بڑی حیران کن حقیقت یہ بھی ہے کہ الراجیح خاندان نے اِن پروجیکٹس کو خیراتی و فلاحی کاموں کے لئے وقف کردیا ہے یعنی کھجوروں کے اِن باغات سے جو بھی آمدنی ہوتی ہے وہ الراجیح خاندان کے دنیا بھر میں جاری خیراتی و فلاحی کاموں اور مساجد کی تعمیر کے لئے خرچ ہوتی ہے۔ سلیمان بن عبدالعزیز الراجیح نے جہاں فلاحی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا وہیں انہوں نے ہر مشکل موڑ پر سعودی حکومت کا ہاتھ بٹایا۔ 2020 ء میں جب دنیا کورونا وبا ء کی لپیٹ میں آچکی تھی تو سلیمان الراجیح نے آگے بڑھ کر سعودی فرماں روا شاہ سلمان بن عبدالعزیز کو 170ملین سعودی ریال کا چیک پیش کیا تاکہ سعودی حکومت کرونا وبا سے موثر انداز میں لڑ سکے۔ یہ تاحال مسلم دنیا کا واحد طاقتور ارادے کا شخص ہے جو انسانی فلاح و بہبود پر صرف یقین ہی نہیں رکھتا بلکہ انہوں نے اپنی ساری دولت کو فلاحی و خیراتی کاموں پر وقف کررکھی ہے۔آپ یہ جان کر حیران ہونگے کہ الشیخ سلیمان بن عبدالعزیز الراجیح ہمیشہ سے امیر نہیں تھے بلکہ جب وہ سعودی عرب کے ایک غریب گھرانے میں پیدا ہوئے تو اْنہیں بنیادی سہولیات تک میسر نہ تھیں۔ کہا جاتا ہے کہ ایک دن جب سکول میں اعلان ہوا کہ سکول کے بچوں کا وفد سیر و تفریح کے لئے جارہا ہے تو الراجیح یا اْن کے والدین کے پاس شیخ سلیمان کو دینے کے لئے ایک ریال تک نہ تھا۔ راجیح کے شوق کو دیکھتے ہوئے ایک فلسطینی استاد نے ایک ریال اْنہیں دیا، یوں وہ سکول ٹرپ پر جاسکے۔سکول کی تعلیم سے فراغت کے بعد انہوں نے سعودی عرب میں خوب محنت کی۔اپنے بھائی شیخ صالح کے ساتھ مل کر چھوٹے موٹے کاموں سے اپنی پیشہ ورانہ زندگی کا آغاز کیا اور خوب دولت کمائی۔ اب وہ سعودی شاہی خاندان کے بعد امیر ترین خاندان کے سرپرست ِ اعلیٰ ہیں۔ سعودی عرب میں شیخ سلیمان الراجیح کے حوالے سے یہ کہانی بھی زبان ِ زدِ عام ہے کہ جب وہ امیر ہوئے تو وہ اپنے فلسطینی استاد کو ڈھونڈتے ڈھونڈتے فلسطین پہنچ گئے۔ اْنہوں نے دیکھا کہ فلسطینی استاد انتہائی کسمپرسی کی حالت میں زندگی گزار رہا ہے۔اپنے استاد کی یہ حالت دیکھ کر شیخ سلیمان بن عبدالعزیز الراجیح کو دلی صدمہ پہنچا۔ انہوں نے استاد کواپنے ساتھ لیا اور سعودی عرب پہنچ گئے۔ جہاں شیخ نے اپنے استاد کو ایک عالی شان بنگلہ اور گاڑی پیش کی اور اْن کی خدمت پر کئی ملازمین لگادیئے۔ الشیخ سْلیمان بن عبدالعزیز الراجیح کی داستان کو دیکھا جائے تویہ یقین اور پختہ ہوجاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے وہ بندے جنہوں نے اللہ کے بندوں کی خدمت کا راستہ چنا اللہ تعالیٰ نے اْنہیں اِس دنیا بھی عالی مرتبت بنایا اور یقینی طور پر روزِ آخر بھی وہ سروخرو ہونگے۔کاش! اللہ تعالیٰ سلیمان بن عبدالعزیز الراجیح جیسے بندے پاکستان میں بھی پیدا کردے تاکہ بائیس کروڑ مجبور عوام کو سْکھ کا سانس نصیب ہو۔ کیونکہ قبضہ مافیا، ظالم و جابر حکمرانوں نے مجبور عوام پر زندگی تنگ کردی ہے۔