سائفر کیس کے بعد توشہ خانہ کیس میں بھی عمران خان اور ان کی اہلیہ بشری بی بی کو 14، 14سال قید کی سزا اور 10 سال کے لئے نااہل قرار دے دیا گیا ہے۔ ایک ارب 57 کروڑ جرمانہ بھی دینا پڑے گا۔ آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت قائم خصوصی عدالت کے جج ابو الحسنات ذوالقرنین نے سائفر کیس میں جرم ثابت ہونے پر دس سال کی سزا سنائی تھی۔ اگلے روز اڈیالہ جیل میں احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے توشہ خانہ کیس گھڑی و دیگر تحائف، میں 14 سال کی سزا سنا دی۔ توشہ خانہ کیس میں عمران خان کی اہلیہ کو بھی چودہ سال کی قید کی سزا سنا دی گئی۔ بشری بی بی نے اڈیالہ جیل پہنچ کر گرفتاری دے دی،انہیں بنی گالہ منتقل کر کے بنی گالہ کو سب جیل قرار دیا گیا ہے۔ بانی پی ٹی آئی اپنے ہی بنائے گئے جال میں پھنس گئے انہوں نے سائفر لہرا کر سازش کا بیانیہ بنایا اور اپنی حکومت کے خلاف عدم اعتماد کو امریکہ کی طرف سے سازش قرار دیا ۔ انہوں نے میر جعفر سے میر صادق تک اور لندن پلان تک اور ڈونلد لو تک سب کو نشانے پر رکھا۔ انتہائی جارحانہ انداز اختیار کیا۔ جس کا ان کے ساتھی اور وہ خود شکار ہو گئے۔ انہوں نے جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ سمیت اپنے تمام خیر خواہ بھی گنوا دیئے۔ اداروں کے ساتھ بھی محاذ آرائیکا راستہ اپنایا ، دوست ممالک کے ساتھ بھی اچھے تعلقات بنانے میں ناکام رہے، پھر 9 مئی کے واقعات نے بھی ان کی پارٹی اور سیاست کو بری طرح پیچھے دھکیل دیا۔ یہی وہ موڑ تھا جب عمران خان اپنی جماعت کے سرکردہ افراد سے آہستہ آہستہ نہیں بلکہ تیزی سے محروم ہوتے گئے ۔ الیکشن کمیشن کے سربراہ کو بھی انہوں نے لگایا لیکن ان کے بھی خلاف ہوگئے ۔ فارن فنڈنگ کیس سے لیکر انٹرا پارٹی الیکشن میں بھی محاذ آرائی اختیار کیے رکھی۔ چار سالہ اقتدار میں بھی سیاسی مخالفین کو ناکوں چنے چبوائے۔ گرفتاریوں اور احتساب کیسز کے ساتھ ساتھ انہیں چور ڈاکو ہی کہتے رہے کسی کی طرف ہاتھ بڑھانے کو اپنی توہین قرار دیا۔ اس محاذ آرائی نے انہیں جہاں اکثریت سے اقلیت میں بدل دیا وہاں خیر خواہوں سے بھی محرومہوتے چلے گئے۔ عدم اعتماد کو بھی آئین کے خلاف اور ملک اور جمہوریت کے خلاف سازش قرار دے کر مسترد کر دیا۔ اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر سے لے کر قاسم سوری تک سب کو محاذ آرائی کے اس کھیل میں استعمال کیا۔ قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد بھی اپنی جارحانہ اور محاذ آرائی کی پالیسیوں میں زرا بھر کمی نہیں لائی اور قومی اسمبلی سے استعفے دینے کو ترجیح قرار دے کر اپنی فتح اور عام انتخاباتمطالبہ کرتے رہے۔ رہی سہی کسر اس وقت پوری ہو گئی جب پنجاب اور خیبر پختون خوا اسمبلیاںتحلیل ہوئیں۔ مخالفین کو عام انتخابات کی طرف لے جانے کی حتی المقدور کوشش کی۔ عدالتوں کی طرف سے ایک دو فیصلوں کے آنے کے بعد بھی عمران خان نے سیاسی حکمت عملی تبدیل نہ کی اور کمزور سے کمزور تر ہوتے چلے گئے۔ ان کے کارکنان بھی آزمائش کا شکار ہو گئے لیکن پھر بھی یہ تسلیم نہ کیا کہ حالات بدل گئے ہیں اور ملک کے مفاد کی خاطر محاذ آرائی کی بجائے مفاہمت کی پالیسی اختیار کی جائے۔ پی ٹی آئی بکھرتی چلی گئی اس میں سے استحکام پاکستان پارٹی نکل آئی۔ پی ٹی آئی پارلیمنٹرین نکل آئی پھر بھی پی ٹی آئی کے بانی چیئرمینڈٹے رہے۔ جیل میں جانے سے قبل بھی ملکی سیاست کو تختہ مشق بنانے رکھا۔ بہت سارے سیاسی دوست ساتھ چھوڑ گئے۔محاذ آرائی کے ان راستوں نے انہیں اس مقام پر لا کھڑا کیا کہ ضد اور انا کی جنگ مجموعی طور پر 24 سال کی سزا اور دس سال کی نااہلی اور ایک ارب 57 کروڑ روپے جرمانے پر متنج ہوئی ۔سال 2018ء کے کردار کا ہیرو، سہولت کار سال 2024ء کے عام انتخابات سے قبل انجام سے دوچار ہوا۔ 2018ء کے انتخابات سے قبل نواز شریف کو سزا ہوئی وہ گرفتاربھی ہوئے مریم نواز شریف کو سزا اور گرفتاری ہوئی مسلم لیگ کی قیادت کو نااہلی کے ناروا فیصلوں کا سامنا کرنا پڑا۔ اس طرح کے فیصلے جہانگیر ترین کو بھی سیاسی میدان سے آوٹ کرنے کا سبب بن گئے آج کے حالات کا اگر باریک بینی سے جائزہ لیا جائے تو 2024ء کے عام انتخابات سے پہلے بانی چیئرمین پی ٹی آئی، شاہ محمود قریشی، بشری بی بی بھی سزا اور نااہلی کی چکی کی نذر ہو گئے۔ سائفر کیس اور توشہ خانہ کیس میں قانونی طور پر کیا خامیاں رہ گیں کیا نکات متاثرین کو فائدہ دیں گے یہ دیکھنا /فیصلہ دینا اعلی عدالتوں کا کام ہے اور اگران عدالتوں سے عمران خان ریلیف حاصل کرنے میں کامیاب بھی ہوتے ہیں تب بھی الیکشن 2024 ء کی ٹرین تو ان سے چھوٹ چکی ہوگئی ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ عمران خان اور ان کے ساتھیوں نے خصوصی عدالت اور احتساب عدالت کے فیصلے نہیں ماننے ہیں اور ان کو عمران خان کے خلاف انتقامی کارروائی قرار دیا جائے گا۔ پاکستان کی تاریخ پر نظر دوڑائیں تو ذوالفقار علی بھٹو کی سزا سے لیکر نواز شریف کی سزائوں تک کوئی بھی اچھی نظر سے نہیں دیکھی گئی۔ حال ہی میں سپریم کورٹ کے دو سینئر ترین ججوں کے استعفوں سیمعاملات مزید مشکوک اور ہر کسی کو اپنی رائے کھنے کا سبب بنیں گے۔ عمران خان اور ان کی اہلیہ بشری بی بی اور شاہ محمود قریشی کے خلاف عدالتی فیصلے بھی ایک طبقہ تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہو گا۔ماضی کے تلخ اور کڑوے تجربات کی روشنی میں 2024ء کے انتخابات کے بعد بننے والی حکومت کی آزمائش شروع ہو جائے گی کہ وہ فری اور فیر ٹرائل کے لیے اقدامات کرے اور انصاف کا بول بالا کرنے کے لیے کسی قسم کی سیاسی مخاصمت کو آڑے نہ آنے دے اور عمران خان کو قانونی چارہ جوئی میں کوئی رکاوٹ نہ ڈالے۔ صاف شفاف تحقیقات ہوں، انصاف کے تقاضے پورے کرنے میں سیاسی رنجش کا کوئی پہلو نہ ہو تا کہ انصاف ہو اور ہمارا عدالتی نظام معاشی نظام اور سیاسی نظام جڑ پکڑ سکے۔