یہ عجیب تضاد ہے کہ جیلوں میں بند چھٹے ہوئے بدمعاشوں اور خطرناک جرائم پیشہ افراد کو ہر حکومت سہولتیں دیتی ہے ۔اس کے برعکس ملک میں کروڑوں مزدور طبقے کے لیے کبھی کسی حکومت نے معاشی سہولتوں کے کسی خصوصی پیکج کا اعلان نہیں کیا ان غریبوں کو تو ان کے نام پر ہونے والی چھٹی بھی نہیں ملتی۔مزدوروں کے اندر بھی مختلف سطحوں کے طبقے موجود ہیں ایک وہ مزدور طبقہ ہے جو دفتروں فیکٹریوں اور کارخانوں میں کام کرتا ہے اور درجہ چہارم کا ملازم ہے اور جبکہ دوسرا مزدور طبقہ وہ ہے جو ڈیلی ویجز پر کام کرتا ہے جسے ہم دیہاڑی دار کہتے ہیں۔یہ دیہاڑی دار پیٹ کا ایندھن بننے کے لئے روزانہ کنواں کھودتے ہیں۔صبح سے دوپہر ہونے کے درمیان اگر آپ لاہور شہر کا ایک چکر لگائیں تو شہر کے مختلف چوکوں اور چوراہوں پر ایسے دیہاڑی داروں کے جتھے کے جتھے دیہاڑی کے منتظر دکھائی دیتے ہیں۔ یہ کھلے آسمان تلے بیٹھے سردی اور گرمی کے موسم کی سختیاں اپنے بدن پر سہتے ہیں۔ ہمارے ہاں کے طویل گرم موسم میں جب لو بھری دوپہریں انسانوں کو سائے اور چھاؤں کی تلاش کے لیے مجبور کر دیتی ہیں ہمارے یہ مفلوک الحال دیہاڑی دار لو کے تھپیڑے کھاتے کھلے آسمان کے تلے اپنی روزی روٹی کا انتظار کرتے ہیں۔آس پاس گاڑیوں میں ہم جیسے لوگ گزرتے ہوئے انہیں ایک لمحہ تاسف سے دیکھتے ہیں اور پھر بھول جاتے ہیں ۔ ان آس پاس کی گزرتی ہوئی گاڑیوں میں اہل اختیار واہل اقتدار کے نمائندے بھی موجود ہوتے ہوں گے نہ جانے ان کے آسودہ حال دلوں میں کبھی ان مزدوروں کے لیے ہمدردی کا کوئی احساس جاگا یا نہیں۔دن چڑھے تک مزدوری کے انتظار میں بیٹھے رہنے والے مفلوک الحال مزدوروں کے حسرت زدہ چہروں کو دیکھ کر مجھے باکمال شاعر سجاد بلوچ کا یہ شعر ہمیشہ یاد آتا ہے اگر کسی نے خریدا نہ آج بھی مرا دن تو معذرت میرے لیل ونہار تھک گیا میں ہمارے ملک باسٹھ ملین مزدور ٹیکسٹائل اور گارمنٹس کی صنعت سے وابستہ ہیں۔ لیبر لاز کا مکمل اطلاق ان پر بھی نہیں ہوتا ہے۔ تھرڈ پارٹی کنٹریکٹ کی وجہ سے ان کے معاشی حقوق ہمیشہ کمپرومائزڈ ہی رہتے ہیں۔ کارخانوں میں اپنے وجود کو ایندھن کی طرح جلانے والوں کے لیے زندگی کسی جبر مسلسل سے کم نہیں ہوتی جبکہ پنجاب کی جیلوں میں بند 53 ہزار جرائم پیشہ افراد ہمارے اور آپ کے ٹیکسوں کے پیسے سے کسی بھی مزدور سے اچھا پیٹ بھر کے کھاتے ہیں اور آسودہ زندگی گزارتے ہیں۔قتل و غارت منشیات، منی لانڈرنگ، انسانی سمگلنگ، دھوکہ د ہی ،جنسی زیادتیوں جیسے گھناؤنے جرائم میں ملوث لوگوں کی آسودگی اور بہبود کے لئے ر یاست اپنا پیسہ لگاتی ہے ۔یقیناً قیدی ہونے سے انسانی حقوق معطل نہیں ہوتے اور ان کے بنیادی انسانی حقوق کی پاسداری ریاست کا فرض ہے۔لیکن اس کا ہرگز مطلب یہ نہیں ہے کہ یہ افراد جو معاشرے میں کوئی نہ کوئی جرم کرکے کسی نہ کسی سطح پر امن کو تباہ کر کے قانون کے ٹرائل سے گزر کر یہاں تک پہنچے ہیں اور اپنے جرم کے مطابق عدالت کی سنائی ہوئی سزا کاٹ رہے ہیں ، ریاست انہیں عوام کے ٹیکسوں کے پیسے سے اتنی سہولتیں دے کہ وہ جیل سے باہر جانے کی خواہش ہی نہ کریں بلکہ سزا ختم ہونے پر جب وہ آزاد دنیا میں جائیں تو جرم کرکے واپس جیلوں میں جانے کی خواہش کریں کیونکہ جیلوں میں ان کی زندگیاں زیادہ آسودہ ہیں۔ پنجاب کی جیلوں پر مختلف نوعیت کے جرائم میں ملوث قیدیوں کو دن میں تین دفعہ کھانا اور دووقت چائے دی جاتی ہے ان کے مینیو میں ہر قسم کی دالیں، سبزیاں ہفتے میں پانچ چھ دفعہ مرغی کا سالن دیا جاتا ہے تاکہ ان کا پروٹین ان ٹیک پورا رہے۔قیدی بیمار ہوجائیں تو سرکار کے خرچ پر بہترین ڈاکٹر ان کا علاج کرتے ہیں۔اس کی برعکس ایک مزدور جو سخت محنت مشقت کرکے دیہاڑی کماتا ہے وہ شاید مہینے میں بھی ایک دفعہ بھی مرغی خرید کر کھانے کا نہیں سوچ سکتا۔اس کے لیے دو وقت کی دال روٹی پورا کرنا بھی جوئے شیر لانے کے برابر ہے جبکہ محنت کش مزدور بیمار پڑ جائے تو پیناڈال پر گزارہ کرتا ہے ڈاکٹر کی فیسیں دینے کے پیسے نہیں ہوتے۔سرکار کے قید خانوں میں جرائم پیشہ افراد کو پورا رمضان دودھ، کجھوروں ،پراٹھوں پر مشتمل بہترین سحری اور افطاری ملتی رہی اس کے علاوہ بھی مخیر حضرات کی طرف سے کھانے کی فراہمی کا سلسلہ جاری رہا۔اس کے برعکس میرے ملک کے غریب محنت کش کے سحر اور افطار کیسے روکھے اور پھیکے تھے آپ میں سننے کا یارا ہو تو کسی مزدور سے پوچھ کردیکھ لیں۔قیدیوں کی فلاح و بہبود کے لیے مراعات کا اعلان کرنے والے حکمرانوں کو یہ دیہاڑی دار مزدور کیوں دکھائی نہیں دیتے جو زندگی کو ایک سزا کی طرح کاٹ رہے ہیں ،غربت اور فاقوں کے باوجود وہ جرم نہیں کرتے بلکہ محنت کر کے اپنا پیٹ بھرنے کی کوشش میں روز میں گھر سے نکلتے ہیں۔موسموں کی شدت میں کھلے آسمان تلے بیٹھے دیہاڑی کا انتظار کرنے والوں کے لئے بیٹھنے کی مناسب جگہیں ہونی چاہیئں۔ ان کی اجرت بڑھائی جائے۔ پورا سال دیہاڑی دار مزدوروں کو سبسڈائزڈ راشن عزت اور احترام کے ساتھ ملنا چاہیے۔فرمایا کی الکاسب حبیب اللہ۔اللہ کے دوستوں کے ساتھ ریاست کا سلوک ملک مجرموں کا سا ہے۔سچ اور دیانت کی سیدھی راہ پر چل کر محنت کرنے والے کسی سزا کی طرح زندگی گزارتے ہیں۔ جبکہ معاشرے کا امن تباہ کرنے والیلوگوں کی زندگیاں برباد کرنے والے چھٹے ہوئے بدمعاش اور بدترین جرائم پیشہ افراد سرکار کے خرچے پر بہترین زندگیاں گزارنے ہیں پھر بھی سرکار ان کی فلاح و بہبود کے لئے گھلی جاتی ہے۔یہ مضحکہ خیز تضاد ، قابل گرفت مجرمانہ غفلت ہے کہ جرائم پیشہ افراد ریاست کے لاڈلے ہیں اور اللہ کے دوست محنت کشوں کے ساتھ ریاست کا سلوک مجرموں کا سا ہے۔