حسرت وصل ملی لمحہ بے کار کے ساتھ بخت سویا ہی رہا دیدہ بیدار کے ساتھ ایک احساس وفا کی طرح بے قیمت ہیں ہم کو پرکھے نہ کوئی درہم و دینار کے ساتھ ایک کیفیت ہے کہ جس کا بیان ممکن نہیں‘ سعد آشوب نگر ہوں میں درون خانہ۔ ایک ماتم بھی ہے بریا میرے اشعار کے ساتھ۔ میری بات کو سمجھنا آپ کے لیے ہرگز دشوار نہیں کہ سیاست اور سماجی منظر نامہ آپ کے سامنے ہے۔مگر جو شہزاد احمد نے کہا تھا: چلتی ہے زیر دشت بھی پانی کی ایک لہر آتا ہے دشت میں بھی ہرن ناچتا ہوا میں ایک خوشگوار تقریب سعید کا تذکرہ کرنا چاہتا ہوں کہ ہمارے پیارے ڈاکٹر منہاس میں ایک روٹیشنل درس کا آغاز کیا کہ صوت القرآن والے باقاعدگی سے اس کار خیر کو چلا رہے ہیں۔اس سے پہلے اس باکمال شخص کا تذکرہ از بس ضروری ہے جنہوں نے پہلے درس سے آغاز کیا۔ میرے ذہن میں یہ بہت عرصے سے ہے کہ میں مولانا محمد عرفان کا تذکرہ کروں کہ وہ باقی علماء و قراء کے لیے ایک رول ماڈل ہیں۔ آپ کو سن کر حیرت ہو گی کہ وہ ایک باعمل عالم تو ہیں ہی مگر جس چیز نے مجھے زیادہ متاثر کیا و ہ ان کا کسب معاش۔ وہ صاف کہتے ہیں میں قلم کی مزدوری کرتا ہوں۔ وہ عربی میں طاق ہیں اور انہیں پروف ریڈنگ کا اتنا کام ملتا ہے کہ اگر دوسرے علماء بھی چاہیں تو ان کے لیے بھی کافی ہے۔ ایک اور حوالہ بھی ازبس ضروری ہے کہ ان کے ہاتھ پر کئی غیر مسلم مسلمان ہوئے اور ان کی تنظیم کا نام ابن مریم ہے۔ خیر عرفان صاحب نے جو مسجد بنائی تو اس کا نام بھی ابن مریم ہے۔ جب کوئی مسلمان ہوتا ہے تو اس کے ساتھ رابطے میں رہتے ہیں۔ عرفان صاحب ہر مرتبہ حاجیوں کے ساتھ معلم کے طور پر بھی جاتے ہیں۔ عربی پر انہیں دسترس ہے اور اسی واسطے ان کے دوست مکہ اور مدینہ میں بھی ہیں۔ اس روز ڈاکٹر افتخار منہاس کے گھر میں انہوں نے پہلا لیکچر دیا کہ لوگوں کے دل موہ لیئے۔ ان کا انداز گفتگو کمال ہے کہ واقعات کے انداز میں بات ذہن نشین کرواتے ہیں چونکہ یہ درس کے سلسلہ کا اولین پروگرام تھا تو انہوں نے آغاز قرآن سے لفظ ہدیٰ پر خطاب کیا۔یہ کتاب فرقان ایک ہدایت نامہ ہے کہ انسان نے زندگی کیسے گزارنی ہے۔ اللہ نے آغاز کے کلام ہی میں اساسی بات کہہ دی کہ زندگی کی کامیابی کیا ہے۔ پہلے یہ دعویٰ کیا کہ خالق کا دعویٰ ہے کہ اس کتاب میں ذرا برابر شک نہیں۔ ریب کا معنی ہے کہ کم ترین شک۔ جو غیب پر یقین رکھتے ہیں‘ نماز قائم کرتے ہیں اور اللہ کے دیئے ہوئے میں خرچ کرتے ہیں جو اب نازل ہوئے اور پہلے نازل ہوا اور آخرت پر یقین رکھتے ہیں۔ ساتھ ہی بتا دیا کہ یہ لوگ کامیاب ہیں اور فلاح پانے والے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کوئی پورا قرآن پڑھے نہ پڑھے آغاز کی چند آیات ہی اس کی سمت نمائی کردیتی ہیں۔ عرفان صاحب کی بات میں بلا کی تاثیر ہے کہ وہ عمل میں ڈھلے ہوئے عالم دین ہیں۔ وہ بہت سوشل ہیں اور ہنس مکھ ہیں۔ لوگوں کی دلجوئی کرتے ہیں۔ باتوں باتوں میں پتے کی بات کر جاتے ہیں۔ انہوں نے تیرہ چودہ سال کی عمر میں حفظ کرلیا۔ عالم دین بنے تو سترہ سال کی عمر میں امام ہوئے۔ کچھ عرصہ بعد ہی ایک جوڑا ان کے پاس آیا تو لڑکی مسلمان ہوئی۔ انہوں نے لڑکے کو کیسی حکمت کی بات کہی کہ دیکھو یہ جو مسلمان ہوئی ہے اسے اسلام کے بارے میں علم نہیں۔ جب تک تم اسے ایک سچا اور عملی مسلمان بن کر نہیں دکھائو گے یہ اسلام پر قائم نہیں رہ سکے گی۔ بہرحال اس وقت وہ باقاعدہ اس کو ایک مشن بناتے ہوئے ہیں۔ لیکن اس سے بڑا مشن کہ مسلمان کو صحیح مسلمان بنانا ہے۔ مجھے قرآن پاک کی وہ آیت یاد آ گئی جس کا مفہوم یہ ہے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تو دین میں حق کی شہادت ہیں اور ان کی امت دوسری قوموں کے لیے نمونہ ہے یعنی وہ بھی شہادت ہیں۔ ایمان افروز بات یہ ہے کہ ہدایت کی ہوا چل رہی ہے۔ مرغزار کالونی میں ایک درس خدیجۃ الکبریٰ پارک میں ہوگا۔ ایک غوثیہ پارک میں اور مساجد میں الگ دروس ہیں۔ مجھے یہ سن کر خوشی ہوئی۔ آپ اسے عید ملن کہہ لیں کہ ہمارے بہت ہی پیارے دوست شفق ملک دوستوں کو موقع دیتے ہیں کہ مل بیٹھیں۔ اور مزے کی بات یہ کہ کوئی نہ کوئی مقصد اس میں ضرور پنہاں ہوتا ہے۔ اب کے بھی نہایت برگزیدہ سے مہمان مدعو تھے جس میں مولانا حمید حسین‘ ڈاکٹر ناصر قریشی‘ ندیم خان‘ غلام عباس جلوی‘ صہیب مقصود اور عبدالفغور کے علاوہ کئی مہمان باہر سے تھے۔ کچھ لوگ خالص جماعت اسلامی ذہن کے تھے۔ مہمان خصوصی تو ہمارے نئے صدر چودھری شہزاد چیمہ تھے۔ ان کی جیت کو تو یقینا الگ سیلی بریٹ کیا جائے گا۔ مل بیٹھنے کا ایک مقصد خاص یہ تھا کہ کالونی میں عوام کو سہولتیں کیسی پہنچائی جائیں۔ بجلی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں میں ٹیوب ویل چلانا ممکن نہیں رہا۔ کوئی سولر کا انتظام کیا جائے۔ سن کر حیرت ہوئی کہ بجلی کے بل ساٹھ ستر لاکھ تک پہنچ گئے۔ اس میں موجودہ گرانی کا بھی تذکرہ ہوا۔ شفیق ملک تو باقاعدہ سیاستدان ہیں اور وہ جماعت کی طرف سے ایم پی اے کا الیکشن بھی لڑتے ہیں۔ ان کا کہنا بالکل درس تھا کہ کسی بھی جماعت کے پاس عوام کے لیے کوئی منصوبہ نہیں بلکہ موجودہ صورتحال میں تو وہ صرف اقتدار بچانے یا حاصل کرنے کے چکر میں ہیں۔ ان کی باتوں میں سچ مچ ملک کا درد تھا۔ یہ بات بھی بہت ہی اچھی ہے کہ الخدمت سے ہٹ کر بھی جماعت کے ونگز ہیں جو غریب اور نادار لوگوں کی مدد کرتے ہیں بچوں کے ساتھ تقاریب رکھ کر انہیں انعام دیتے ہیں۔ ان کا تعلیم پر زور ہے۔ بالکل آخر میں سعید ملک کا شکریہ کہ کھانے کا شاہانہ انتظام تھا: اے ذوق کسی ہمدم دیرینہ کا ملنا بہتر ہے ملاقات مسیحا و خضر سے