انٹرنیشنل ریلیشنز میں مختلف موضوعات پڑھاتے ہوئے ہمارے اساتذہ نظریات اور پالیسیوں کا تقابل کرنے کی ترغیب دیا کرتے۔ کئی بار لیکچر میں جب طلبا کو شریک کیا جاتا تو موضوع کی حدود پھیل جاتیں۔ ہم یونان کے سیاسی نظریات اور دیوی دیوتائوں کا ہندوستان کے سیاسی نظریات اور دیوی دیوتائوں سے موازنہ کرنے لگتے ۔ طالب علموں کے پاس تجزیہ کرنے کے لئے سطحی سی معلومات ہوا کرتیں۔ اساتذہ ہمیں سنا کرتے اور درمیان میں لقمہ دے کر گفتگو کو ایک دم مفید بنا دیا کرتے۔ انٹرنیشنل ٹریڈ اینڈ اکنامکس کا مضمون عمران بھٹہ صاحب پڑھایا کرتے۔ بھٹہ صاحب بہت اچھے استاد تھے۔ میں نے انہیں پہلے دن بتا دیا کہ میں نے میٹرک کے بعد ریاضی نہیں پڑھی۔ انہوں نے اکنامکس کا حساب کتاب اس عمدگی سے پڑھایا کہ میرے سب سے زیادہ نمبر انہی کے مضمون میں آئے۔ خیر اس دوران ہمیں معلوم ہوا کہ سماجی و سیاسی امور کا تجزیہ کرنے کے لئے ان شعبوں میں صدیوں کے دوران آنے والی تبدیلیوں اور رجحانات کا ڈیٹا درکار ہوتا ہے۔ کسی ایک واقعہ پر تبصرہ کریں تو اس کے تمام گوشوں کی بات کرنا ہوتی ہے۔ سب سے اہم بات یہ کہ تجزیہ کار نتائج کس طرح اخذ کرتا ہے اور اخذ کردہ نتائج کو کسی فرد یا جماعت کے حق میں استعمال کرتا ہے یا پورے سماج کی نذر کر دیتا ہے۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ ہمارا تجزیہ کار اپنی غیر تربیت یافتہ صلاحیت کو شخصیات کے قدموں میں ڈھیر کر رہا ہے۔ وہ اِدھر اُدھر سے خبر سنتا ہے اور اسے تجزیہ کہہ کر بیان کر دیتا ہے۔ خبر غلط ہو سکتی ہے ‘ تجزیہ 98فیصد درست رہتا ہے۔ اسی لئے تجزیہ کار اگر غیر معتبر ہیں تو وہ تجزیہ نہیں کر رہے۔ نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ کے ایک بیان کے بعد ایک سنجیدہ بحث مانئنس ون کی چل نکلی ہے۔ قبل ازیں اسے ایک اور پہلو سے دیکھا جا رہا تھا۔ اب یہ نکتہ اس بحث کا حصہ بن رہا ہے کہ نگران حکومت کے پاس فیصلہ سازی کا میکنزم کیا ہے۔ اس میکنزم کی حقیقت تک اگر پہنچ جائیں تو اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ فیصلہ ساز دماغ کسی معاملے سے جڑے ہوئے پیچیدہ سماجی رجحانات کو نظر انداز کر رہے ہیں۔ اس بحث میں سول ملٹری ریلیشنز ‘ سیاسی جماعتوں کا وجود اور ترجیحات‘ جمہوری روایات‘ پارلیمنٹ کی بالادستی‘ اختیارات کی علیحدگی جیسے معاملات ایک ایک کر کے شامل ہوتے چلے جاتے ہیں۔ بہت سے اور نکات بھی ہیں‘ مثلاً عوامی ناراضی کو راستہ نہ دیا جائے تو کیا ہوتا ہے‘ پہلے جو شخصیات مانئس ہوتی رہیں ان سے ریاست کو کیا فائدہ اور کیا نقصان ہوا‘ اب جسے مائنس کئے جانے کی بات ہو رہی ہے کیا وہ دو چار سال بعد دوبارہ نہیں آ جائے گا۔ مائنس کئے جانے والے لیڈروں کے حامی ریاست کے ساتھ اپنا تعلق کیسے تبدیل کر لیتے ہیں؟ یقینا آپ نے کئی ’’سینئر تجزیہ کاروں‘‘ کو ان دنوں اس موضوع پر بات کرتے سنا ہو گا لیکن جن نکات کو زیر بحث لایا جانا چاہیے تھا وہ ان کی گفتگو میں نظر نہیں آتے‘ وجہ یہی کہ صلاحیت نہیں۔ کیا روزانہ عوام کے جذبات کچلتے ہوئے مختلف سیاسی و غیر سیاسی قوتوں کے بیانیہ کو فروغ دینے والے تجزیہ کار جان بوجھ کر ایسا کر رہے ہیں۔ کوئی اپنے لوگوں کی رائے کے خلاف کیسے اور کیوں جا سکتا ہے۔ پھر یہ کہ ہم ان تجزیہ کاروں کو بڑا کن بنیادوں پر مان لیتے ہیں۔ میرا اصول بڑا سادہ ہے۔ شاعر کی عمر نہیں اس کی فنی پختگی اور ندرت خیال سے اس کے مقام کا تعین ہوتا ہے۔ مصور کے شاہکار اگر بولنے لگیں تو اسے بڑا مان لیا جاتا ہے۔ اس ماننے کے معیار بھی دو ہیں۔ ایک عوامی پذیرائی اور دوسرا اساتذہ اور ماہرین فن کی جانب سے اعتراف۔ ہمارے ہاں میڈیا نے اپنا اعتبار اس لئے کھویا کہ ہر لا بئسٹ تجزیہ کار بن کر سامنے آ گیا۔ سب کے نام کے ساتھ سینئر تجزیہ کار لکھا جاتا ہے۔ حالیہ دنوں بوجوہ معیشت کی بحالی پر بات کی جانے لگی ہے۔ سیاسی گفتگو کی وجہ معاشی بحث لے رہی ہے۔ اس میں جو دقت نظر آئی وہ یہ ہے کہ معیشت کو صرف فائدہ نقصان کے پہلو سے دیکھا جا رہا ہے۔ اس کے وہ پہلو بوجوہ زیر بحث نہیں آ رہے جہاں معیشت کو سماجی و سیاسی حالات متاثر کرتے ہیں۔ اظہار رائے کی آزادی کو اسی لئے مہذب معاشرے بنیادی انسانی حق سمجھتے ہیں کہ بات کرنے سے مسئلے کے مختلف گوشے اور سٹیک ہولڈر سامنے آتے ہیں۔ ایک بار جب معاملے سے منسلک چیزیں اور موقف سامنے آ جاتے ہیں تو پھر اس کو حل کرنا آسان ہو جاتا ہے۔ مثلاً کسی کے مائنس کرنے سے معیشت میں حصہ ڈالنے والے اہم طبقات ناراض ہوتے ہیں تو مائنس کرنے کے فیصلے پر نظرثانی کی جا سکتی ہے۔ آئین کی خلاف ورزی پر سرمایہ کار اگر ریاست کو غیر مستحکم سمجھ کر بھاگ جاتے ہیں تو آئین کی بالادستی قائم کر دینی چاہیے۔ اگر آئین ریاست کی کسی ضرورت کو پورا نہیں کر رہا تو پھر ترمیم کا راستہ موجود ہے۔ پی ڈی ایم حکومت نے اور اس سے پہلے والی حکومتوں نے کبھی فرمائشی ترمیم پر انکار نہیں کیا۔ ان حالات میں ایک بات تو طے ہے کہ تجزیہ کار اصل بات نہیں کر رہے۔ معیشت پر ہونے والے پروگرام توانائی‘ بیج کھادوں اور ٹیکنالوجی کی عمومی صورت تک محدود ہیں۔ اب ملک پولیٹیکل اکانومی کے تصور پر چلتے ہیں۔ ہمارے خطے میں بھارت‘ بنگلہ دیش ‘ مالدیپ اور ہماری طرح تباہ حال سری لنکا تک سنبھلنے لگے ہیں۔ وہاں فیصلہ سازی کا مرکز بدل چکا ہے۔ وہاں جمہوریت صرف سیاسی سرگرمیوں اور اقتدار کی خواہش کا نام نہیں۔وہاں کسی مجرم کے استقبال کے لئے سیاسی بستیاں منہدم نہیں کی جاتیں۔ جمہوریت میں عام آدمی کا اختیار اور رائے بھی شامل ہے کہ وہ بھی پچاس روپے میں حکومت کو کام کرنے کے لئے ٹیکس دیتا ہے۔ پاکستان تو سارا چل ہی نچلے طبقات کی جیب سے نکالے ہوئے روپے سے ہے۔ یہ طبقہ سمجھتا ہے کہ اس پر وہ لوگ مسلط کئے جارہے ہیں جو ملک کے مسائل کے ذمہ دار ہیں۔ان لوگوں کو مائنس ہونا چاہئے۔