بینکوں کا نام سنتے ہی عام طور پر حرام و حلال اور جائز ونا جائز کی بحثیں شروع ہوتی ہیں، مگر اس بحث سے قطع نظر ان کی بنیادی چیزیں سمجھنا انتہائی اہم ہیں کیونکہ یہ سرمایہ دارانہ نظام کی ریڑھ کی ہڈی ہیں۔بینکوں سے دوطرح کے لوگوں کا واسطہ رہتا ہے، ایک وہ جو اپنا پیسہ بینک میں جمع کرکے اس پر سود لیتے ہیں اور دوسرے وہ جوبینک سے قرضہ لے کر بینک کو سود دیتے ہیں۔ کسی بھی بینک کی بنیاد ڈالنے کیلیے ایک سرمایہ دار یا کچھ سرمایہ دار مل کراپنے پیسے کی سرمایہ کاری کرتے ہیں۔ اصولی طور پر تو شاید یہی سرمایہ کاری کی رقم وہ واحد رقم ہو سکتی ہے جو بینک کسی دوسرے کو ادھار دے سکتا ہے۔ حقیقت میں ایسے نہیں ہوتا، ایک دفعہ بینک بن جائے تو پھربینک میں سود لینے کی خاطر جمع شدہ رقم کو بھی اپنے سرمایہ کاری کی رقم میں شامل کرکے اس کو بھی قرض لینے والوں کو بطور قرض دے سکتا ہے۔ یوں بینک کا اصل کام پیسہ کی منیجمنٹ بن جاتا ہے۔ بینک کاری دراصل ایک اعتمادی چال ہے، مثلاًایک بینک کے مالکان ایک کروڑ روپے کی سرمایہ کاری کرکے ایک بینک بناتے ہیں، اس کے بعد دس صارفین آکر دس، دس لاکھاس بینک میں جمع کراتے ہیں۔ صارفین کی طرف سے جمع شدہ رقم بھی سرمایہ کاری کے کھاتے میں ڈال کر بینک کے پاس مجموعی سرمایہ کاری کی رقم دو کروڑ روپے ہو جاتی ہے۔ اس کے بعد تین صارف؎آکر بینک سے مجموعی طور پر ڈیڑھ کروڑ کا قرض لیتے ہیں اور یوں بینک کے پاس صرف پچاس لاکھ باقی رہ جاتے ہیں۔ اب اگر پیسہ جمع کرنے والوں میں سے دو تین صارف کو یہ گمان ہوا کہ بینک ہمارے پیسے واپس نہیں کر سکتا اور وہ آکر اپنا پیسہ بینک سے نکلوانا چاہیں تو بینک کو ان کے پیسے واپس کرنے میں کوئی مشکل پیش نہیں آئے گی، دوسری طرف اگر دس کے دس پیسہ جمع کرانے والوں کو بینک پر بد گمانی لاحق ہو اور اپنا پیسہ واپس لینا چاہیں تو بینک ان کے پیسے واپس نہیں کر سکے گا۔ گویا اگر زیادہ لوگوں نے یہ سوچا کہ بینک ہمارے پیسے واپس نہیں کرسکتا تو واقعتاً بینک ان کے پیسے واپس نہیں کر سکتا، اگر زیادہ لوگوں نے سوچا کہ بینک ہمارے پیسے واپس کر سکتا ہے تو وہ واقعتاً پیسے واپس کر سکتا ہے۔ چونکہ عام طور پر بہت زیادہ بینک صارفین کو بینک پر شک نہیں ہوتا اس لیے بینک چلتے رہتے ہیں۔صارفین کو پیسے واپس کرنے کیلیے سرمایہ کاری کا کچھ حصہ بینک اپنے پاس لیکویڈ ریسورسز (کرنسی یا جلدی ہی کرنسی میں بدلنے والی چیزیں) کی شکل میں رکھتے ہیں اور آسانی سے بیچ کر پیسے واپس مانگنے والوں کو پیسے واپس کرتے ہیں۔ بالفرض زیادہ لوگوں کو بینک پر شک ہو بھی جائے تو عمومی حالات میں پھر بھی بینک کسی دوسرے بینک سے قرض لے کر ان کے پیسے واپس کر سکتا ہے۔ اس لیے اس اقسام کی بد گمانیوں سے صرف اس وقت مسئلہ ہو سکتا ہے جب سب بینکوں کے صارفین کو شک ہو کہ ہمارے پیسے واپس نہیں مل سکتے۔ ایسی صورتحال سے بچنے کیلیے سب سے اہم کردار سینٹرل بینک (سٹیٹ بینک) کا ہے۔ یہ وہ واحد بینک ہے جو کیش فلو (لیکویڈٹی فلو) کا مسئلہ حل کر سکتا ہے۔ جس بینک کو بھی اس قسم کا مسئلہ ہوگا اس کے اثاثوں میں لوگوں کو ادھار دی ہوئی رقم تو ہوتی ہے مگر اسے جلدی حاصل کرنا بینک کے بس میں نہیں ہوتا۔ اگر صارفین کا اعتماد کھونے والے بینک کا دیا ہوا قرضہ اپنا پیسہ واپس مانگنے والے صارفین کے پیسوں سے زیادہ ہو تو سینٹرل بینک اس کی بھرپور مدد کرتا ہے۔ اور یوں بینک ایسی صورتحال سے باآسانی نکل جاتا ہے۔ دوسری طرف اگر بینک کے سارے نان لیکویڈ رسورسز (وہ اثاثے جو جلدی کرنسی میں نہ بدلے جا سکیں) بھی اتنے نہ ہوں جتنے پیسے صا ر فین واپس مانگ رہے ہوں، تو پھر بینک کا دیوالیہ نکل جاتا ہے۔ دیوالیہ نکلنے سے پہلے عام طور پر گورنمنٹ ایسے بینکوں کو ایک حد تک بیل آئوٹ کرتی ہے۔ بیل آئوٹ کے عمل میں گورنمنٹ اتنا پیسہ اس بینک میں جمع کرتی ہے جتنے پیسے کی اس بینک کو ضرورت ہوتی ہے تاکہ واپس مانگنے والے صارفین کے پیسے واپس کیے جا سکیں۔گورنمنٹ کی طرف سے بیل آئو ٹ کی یقین دہانی بینکوں پر صارفین کے اعتماد کو بحال رکھتا ہے،یوں یہ نوبت ہی نہیں آتی۔ عام طور پر حکومتیں بیل آئوٹ انشورنس کی حد مقرر کرتی ہیں جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اتنی رقم تک گورنمنٹ بینک کو دے سکتی ہے اور پھر بینکس بھی اس سے زیادہ قرضے نہیں دے سکتے۔ دیوالیہ سے بچنے کا ایک اور طریقہ خطرے کو ایک حد سے کم رکھنا ہوتا ہے۔ اس طریقے میں کسی بینک میں جتنا پیسہ اس کے مالکوں (شئیر ہولڈرز) نے لگایا ہوتا ہے اس کی ایک مخصوص شرح سے زیادہ قرض وہ بینک نہیں دے سکتا۔ان سب اقدامات کے علاوہ دیوالیہ سے بچنے کیلیے موجودہ دور میں ایسیٹ بیکڈ سیکیورٹی کے ساتھ قرضے دیے جاتے ہیں۔ قرضہ دینے کیلیے ایک ایسی کم لیکویڈ چیزجیسے مکان وغیرہ سیکورٹی کے طور پر رکھی جاتی ہے، اس کو مارگیج بھی کہا جاتا ہے۔ اس طرح کے طریقوں کی وجہ سے عام طور پر بینکوں کو سب سے زیادہ فائدہ ہوتا ہے کیونکہ ان کے سر پر کسی دیوالیہ نکلنے کا خطرہ نہیں ہوتا۔ مجھے یقین ہے کہ آپ نے بینکوں کے ناموں کے ساتھ "لمیٹڈ" لکھا ہوا بھی ضرور دیکھا ہوگا۔ دیوالیہ نکلنے کی صورت اس "لمیٹڈ" لفظ کی اصل اہمیت سامنے آتی ہے۔ نام کے ساتھ اس اضافے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ دیوالیہ ہونے کی صورت میں بینک مالکان صرف اپنی سرمایہ کھوئیں گے، اور وہ اپنی کوئی اور جائیداد یا کمپنی وغیرہ بیچ کر صارفین کی رقم واپس کرنے کے پابند نہیں ہونگے اور یوں جس کے پیسے ڈوب گئے ڈوب گئے۔