پچھلے چند دنوں سے ایک نئی سیاسی جماعت قائم کرنے کی خبریں گردش کر رہی ہیں۔ ن لیگ اور پیپلزپارٹی کے بعض ناراض یا برگشتہ افراد یہ سوچ لے کر آگے بڑھ رہے ہیں۔ ن لیگ کے مرکزی رہنما اور سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اور ان کے ن لیگی دوست سابق وفاقی وزیرخزانہ مفتاح اسماعیل اور پی پی کے سابق سینیٹر مصطفی نواز کھوکھر ان میں سرفہرست ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ ان میںخیبر پختون خوا سے خواجہ ہوتی اور بلوچستان سے لشکر رئیسانی وغیرہ بھی شامل ہیں۔ یہ صاحبان نئی پارٹی بنا پائیں یا نہیں، یہ تو چند دنوں میں پتہ چل جائے گا۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ شاہد خاقان عباسی صاحب کو میاں نواز شریف صاحب نے بلایا ہے اور ان کے گلے شکوے دور کر دئیے گئے ، اب وہ نیا ٹاسک لے کر پھر سے ن لیگ میں فعال ہوجائیں گے۔ اگر شاہد خاقان عباسی اپنی پرانی پارٹی کی طرف لوٹ گئے توپھرپارٹی بنانا مصطفی نواز کھوکھر کے بس کی بات نہیں۔شاہد خاقان عباسی بدستور ’’اینگری ینگ مین ‘‘بنے رہے تو پھریہ سب یار دوست مل کر کچھ نہ کچھ بنا ہی ڈالیں گے۔ ہماری دلچسپی اس پارٹی کے بننے، نہ بننے میں ہرگز نہیں۔ جہاں اتنی سیاسی جماعتیں ہیں، ایک اور بن جائے تو کیا ہوجائے گا؟ سوال مگر یہ ہے کہ نئی سیاسی جماعت کے قیام کی خبریں سن کر ہمارے بعض اہل قلم تنقید کس اصول کے تحت کر رہے ہیں؟ جو مقدمہ وہ پیش کر رہے ہیں، اس میں کتنا وزن ہے؟ آج ہی ایک معاصر میں دو محترم اور سینئر لکھاریوں کے کالم شائع ہوئے ۔ ان سطور کے راقم کا دونوں حضرات سے محبت بھرا نیازمندانہ تعلق ہے، اس لئے اس تحریر کو مکالمہ کا حصہ سمجھنا چاہیے ، ذاتی یا شخصی تنقید ہرگز مقصود نہیں۔ دونوں فاضل لکھاریوں نے نئی سیاسی جماعت کے تصور پر تنقید کرتے ہوئے اس رجحان کی شدید حوصلہ شکنی کی ۔ یہ بھی کہا گیا کہ سیاسی اور مذہبی جماعتوں کی کثرت دراصل سماج کے ذہنی انتشار اور فکری پراگندگی کا اظہار ہے، منظم اور پرسکون معاشروں میں سیاسی جماعتیں دو تین سے زیادہ نہیں ہوتیں۔ چند ایک مزید دلائل بھی پیش کئے گئے، جیسے : 1:آج کوئی ایسا خلا موجود نہیں جو کسی نئی سیاسی جماعت کے لئے بطور جواز پیش کیا جا سکے ۔ 2: پاکستان کے عوام میں کسی نئی سیاسی جماعت کے لئے کوئی طلب موجود نہیں۔ 3 : انتشار فکر کے زمانے میں نئی جماعتوں کی باتیں دل بہلا سکتی ہیں، سیاسی استحکام کی نویدنہیں سناسکتیں۔ 4: نئی سیاسی جماعت بنانے کے بجائے موجود سیاسی جماعتوں کو بہتر بنایا جائے،ان کی اصلاح کی جائے نہ کہ کمزوربنایا جائے ۔ 5 :سیاست کے مفکرین دو جماعتی نظام کو کسی بھی معاشرے کی بلوغت اور جمہوریت کی پختگی کی علامت قرار دیتے ہیں 6:امریکہ میں پونے دو سو برس سے صرف دو جماعتیں ہی چلی آتی ہیں،برطانیہ میں سو سال سے دو پارٹیاں باری باری حکومت کر رہی ہیں،کوئی نہیں کہتا کہ یہ باریاں لے رہے ہیں۔ بھارت میں بھی عملاً دو جماعتی نظام ہی کارفرما ہے۔ 7: کیا پاکستان کے موجودہ زوال اور انحطاط کی تمام تر ذمہ داری سیاستدانوں اور سیاسی جماعتوں پر عائد ہوتی ہے؟ نئی سیاسی جماعت کے ان فاضل ناقدین کی تحریروں میں اور باتیں بھی ہیں، مگر مرکزی نکات میں نے پیش کر دئیے ۔ اب ہم ان کا مختصر جائزہ لیتے ہیں۔ سب سے پہلے اپنی معصومانہ حیرت اور سادگی کا اعتراف کر لوں کہ مجھے یہ بات بالکل ہی سمجھ نہیں آئی کہ پچھلے تین ماہ میں دو عدد سیاسی جماعتیں تشکیل پائی ہیں، بڑے دھوم دھڑکے سے ان کامیڈیا انٹرایکشن بھی کرایا گیا۔’’منتشر پاکستانی سماج‘‘ میں یکا یک دو نئی سیاسی جماعتیں کھڑے کرنے والے’’ گستاخ‘‘ سیاستدانوں پرہمارے ممدوح اور محترم لکھاریوں نے کالم لکھنا تو درکنار، یک سطری تنقیدی تبصرہ بھی نہیں فرمایا۔ میں تو ایک خوش گمان آدمی ہوں، حسن ظن سے کام لیتا ہوں، مگر ہمارے بعض دوست جوگاہے بے رحم حقیقت پسندی کی حد چھو لیتے ہیں، ان کا خیال ہے کہ چونکہ ان دونوں نوزائیدہ سیاسی جماعتوں سے تحریک انصاف کو نقصان پہنچنے کا امکان تھا، اس لئے تنقید نہیں کی گئی ۔البتہ اب کی بار جو پارٹی قائم ہونے جا رہی ہے، اس میں ن لیگ کے لوگ شامل ہوسکتے ہیں تو اس کا کچھ نہ کچھ اثر ن لیگ پر پڑے گا، اسی لئے ن لیگ کے لئے نرم گوشہ رکھنے والوں نے اس تصور کو فوری تنقید کا نشانہ بنایا۔ ان دونوں تنقیدی تحریروں کے سات نکات میں نے اوپر پیش کئے، ان میں سے بعض کی حیثیت تو ایک رائے یا مفروضے سے زیادہ کچھ نہیں۔ یہ کہنا کہ پاکستانی عوام کسی نئی سیاسی جماعت میں دلچسپی نہیں لیں گے، یہ تو مفروضہ ہی ہے۔ بہت سے لوگوں کا خیال تھا کہ تحریک انصاف کو جب مقتدر قوتوں کی حمایت ختم ہوجائے گی تو یہ پانی میں رکھی نمک کی ڈلی کی طرح تحلیل ہوجائے گی۔ کیا ایسا ہوا؟نہیں۔ کسی نئی جماعت کو پزیرائی ملے گی یا نہیں، اس کا تعین تو عوام یعنی ووٹر ہی کریں گے۔ جہاں تین ماہ میں بننے والی دوسری دو جماعتیں قسمت آزمائی کریں گی، یہ تیسری جماعت بھی کر لے گی۔ اس میں ایسا کیا تردد؟ اہل دانش کو البتہ اس بارے میں زیادہ دیانت داری اورمعروضیت سے کام لینا چاہیے جب وہ امریکہ اور برطانیہ میں دو سیاسی جماعتوں کی پزیرائی کی بات کرتے ہیں۔ کیا یہ نہیں جانتے کہ اس کی وجہ کیا ہے؟ کیا ان دو سیاسی جماعتوں میں پاکستان کی طرح موروثیت ہے؟ کیا امریکی اور برطانوی سیاسی جماعتیں چند خاندانوں کی ملکیت بن چکی ہیں؟ کیا امریکہ یا برطانیہ میں یہ ممکن ہے کہ ایک خاتون صرف نواز شریف کی بیٹی ہونے کے ناتے ن لیگ کی کرتا دھرتا بن جائے یا ایک نوجوان بے نظیر بھٹو کا بیٹا ہونے کے ناتے (تب)ملک کی سب سے بڑی جماعت کا قائد بن جائے ؟ کیا امریکی سیاست میں یہ ممکن ہے کہ مولانا فضل الرحمن کی جماعت میں درجنوں ، بیسییوں بزرگ علما دین اور تجربہ کار رہنمائوں کے ہوتے ہوئے ان کا ناتجربہ کار اوسط اہلیت رکھنے والا فرزند سیاسی جانشین بنے؟ وہاں کسی مقبول صدر کا بیٹا بھی عام کارکن کی طرح پورے سیاسی عمل کی پابندی کرے گا۔ گراس روٹ سے سیاست کا آغاز، پارٹی کا پرائمری الیکشن لڑنااور پھر طویل جدوجہد کے بعد پارٹی امیدوار بننا۔ یہی برطانیہ میں ہے۔ کنزرویٹو پارٹی ہو یا لیبر پارٹی ان میں کہیں سیاسی موروثیت نہیں۔ کسی کو اس لئے اعلیٰ عہدے یا منصب نہیں مل جاتا کہ اس کا باپ، ماں یا نانا بڑایا مقبول سیاستدان تھا۔ وہاں ان پارٹیوں کا ایک عام کارکن بھی اپنی محنت، کمٹمنٹ اور جدوجہد سے پارٹی سربراہ اور وزیراعظم تک بن سکتا ہے۔ اسی جمہوری سیاسی کلچر کی وجہ سے ان جماعتوں کو عوام میں پزیرائی حاصل ہے۔ یہ بات بھی مضحکہ خیز ہے کہ سیاسی جماعتوں کے اندر رہ کر اصلاح کی جائے ۔ کیا واقعی ؟ کسی میں اتنی جرات ہے کہ وہ ن لیگ میں رہ کر شریف خاندان کی کسی غلط سیاسی حکمت عملی یا پالیسیوں کی اصلاح کر سکے؟بند کمرے میں اختلاف رائے کی جرات نہیں کر سکتے۔ جو ایسا کرتا ہے اسے دودھ میں گری مکھی کی طرح پارٹی سے نکال باہر کیا جاتا ہے یا اس طرح دیوار سے لگایا جاتا کہ دوسروں کے لئے نشان عبرت بن سکے۔ یہی بات پیپلزپارٹی، اے این پی ، جے یوآئی وغیرہ کے لئے کہی جا سکتی ہے۔ تحریک انصاف بھی کچھ زیادہ مختلف نہیں۔ پارٹی میں رہ کر اصلاح کرنے کی بات ایک رومانوی تصور ہے۔ جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ پاکستان آج جس حال تک پہنچا ہے، ان خرابیوں کی تمام تر ذمہ داری سیاستدانوں اور سیاسی جماعتوں پر نہیں ڈالی جا سکتی۔ سچ ہے، مگر اس ذمہ داری کا اچھا خاصا بڑا حصہ تو بہرحال ان پر عائد ہوتا ہے۔ یہ بھی درست کہ پاکستانی تاریخ کے گزشتہ تمام برسوں میں سیاستدان اقتدار میں نہیں رہے، مگر جن ادوار میں ڈکٹیٹر حکمران تھے، ان کے ساتھیوں میں بھی آج کے بہت سے اہم، نمایاں ، ممتاز سیاستدانوں کے نام ہیں۔ لاڑکا نہ کے بھٹو، جاتی عمرہ کے شریف ،نواب شاہ کے جتوئی،پیر جوگوٹھ کے پگاڑے،تھرپارکر کے ارباب،ڈہرکی کے مہر،حیدرآباد کے تالپور ، گجرات کے چودھری،گوجرانوالہ کے کشمیری دستگیر،ملتان کے قریشی، گیلانی،ڈی جی خان کے لغاری، کھوسے، دریشک وغیرہ، رحیم یار خان کے مخدوم، بہاولپور کے نواب، پیرزادے، گردیزی وغیرہ وغیرہ جبکہ کے پی اور بلوچستان میں بھی طویل فہرست ایسے سیاستدانوں کی بن جائے گی جو مختلف ڈکٹیٹروں کے ادوار میں نمایاں ہوئے، اہم منصب پائے اور اپنی ایک خاص سیاسی طاقت حاصل کی۔ اس لئے غیر سیاسی ادوار میں جو تباہی اور نقصان ہوا، اس میں بھی ہمارے سیاستدان بڑی حد تک شامل ہیں۔ ایسا نہیں ہوسکتا کہ ماضی کو یکسر فراموش کر دیا جائے۔ بالزاک نے جب لکھا تھا کہ ہر بڑی جائیداد کے پیچھے کوئی جرم پوشیدہ ہوتا ہے۔ یہی فقرہ ’’گاڈ فادر‘‘ ناول میں نقل ہوا ۔پاکستانی عدلیہ کے ایک فیصلے میں اس کا حوالہ آیا تو تہلکہ مچ گیا۔بات غلط نہیں تھی۔ پاکستانی سیاسی تناظر میں یوں بھی کہہ سکتے ہیں، بہت سے (نام نہاد) بڑے سیاستدانوں کے پیچھے کسی ڈکٹیٹر کی نوازشات پوشیدہ ہیں۔ حضور والا! بات پوری کرنی چاہیے۔ ادھوری ، نامکمل بات سے تشنگی ہی نہیں رہتی بلکہ تاریخ کی غلط تفہیم بھی آگے سفر کرتی ہے۔