تاریخ کا مطالعہ یہ بتاتا ہے کہ دنیا بھر میں اُٹھنے والے طوفان کبھی کسی نظریے یا لیڈر شپ کے محتاج نہیں تھے۔ وہ صرف اور صرف ظالم حکمران، جابر ریاستی اداروں اور بے رحم حکومت کے خلاف برپا ہوئے تھے۔ تاریخ اس بات پر بھی شاہد ہے کہ لوگ بھوک، افلاس، قحط اور بیماری سب کچھ خاموشی سے برداشت کر لیتے ہیں لیکن وہ ناانصافی، دھوکہ اور خصوصاً تذلیل اور تمسخر نہیں برداشت کرتے۔ ان حالات میں وہ نتائج سے بے پرواہ ہو کر بڑی سے بڑی ریاستی طاقت سے ٹکرا جاتے ہیں۔ ان کے سامنے کوئی مقصد، مدعا یا تصورِ انقلاب نہیں ہوتا، وہ تو صرف محرومیوں، ناانصافیوں سے پیدا ہونے والے غصے میں اُبل رہے ہوتے ہیں اور ان کے غصے کی آگ پر حکمرانوں کے جملے اور تمسخر بھرے لہجے تیل کا کام دیتے ہیں۔ اُٹھارہویں صدی کے انقلابِ فرانس کے اسباب و عوامل کا جائزہ لینے والے مفکرین نے اس دور کے فرانس اور اس کے پڑوسی ملک برطانیہ کا تقابلی جائزہ لے کر نتائج اخذ کئے ہیں۔ ان مفکرین میں وِل ڈیورانٹ (Will Durant) کی کتاب ’’تاریخ کے ہیرو‘‘ (Hero's of History) ایک شاندار تجزیاتی دستاویز ہے۔ انقلابِ فرانس سے متعلق لکھنے والوں کی اکثریت اس کے تجزیے سے متفق ہے کہ انگلینڈ میں غربت و افلاس اور قحط و بیماری کا عالم فرانس سے کہیں زیادہ تھا لیکن بادشاہوں اور امراء کی گردنیں فرانس میں کاٹی گئیں۔ انگلینڈ کی غربت دو صدیوں پر پھیلی ہوئی تھی۔ پارلیمنٹ نے 1601ء میں غریبوں کا قانون (Poor Law) منظور کیا تھا۔ ملکہ ایلزبتھ اوّل نے گائوں سے ہجرت کر کے شہر کی فیکٹریوں میں کام کرنے والوں کی حالتِ زار دیکھتے ہوئے ان کے لئے حکومتی مدد کا ایک طریق کار وضع کیا اور بوڑھوں کی پنشن کا آغاز کیا۔ صنعتی انقلاب سے ہونے والی شہروں کی ترقی اور سرمایہ داروں کے ظلم کی وجہ سے اس قانون نے عوامی بے چینی کو کسی حد تک کم کیا لیکن غربت ویسے ہی رہی۔ اٹھارہویں صدی کے آغاز یعنی 1701ء کا جو نقشہ کتب میں ملتا ہے وہ دل دہلا دینے والا ہے۔ کئی گھرانے جانوروں کی کھالیں اُبال کر ان میں نمک ڈال کر سوپ بنا کر گزارہ کرتے۔ 1720ء میں حکومت نے مقامی لوگوں کے ساتھ مل کر ایسی پناہ گاہیں بنائیں جن میں بوڑھے، عورتیں اور بچے رکھے جاتے اور انہیں تھوڑی بہت خوراک مہیا کی جاتی۔ بوڑھوں اور عورتوں سے اُون کاتنے اور سلائی وغیرہ کے کام بھی لئے جاتے۔ ایسے حالات بھی مزید ایک صدی تک چلے اور 1795ء میں جارج سوئم نے غریبوں کے لئے ایک اور کا قانون (Poor Law) منظور کیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ جن پناہ گاہوں میں غریب عورتیں، بوڑھے اور بچوں کیلئے ٹھکانہ بنایا تھا لوگ انہیں زبردستی نکال کر واپس ان کے گائوں بھیجنا شروع ہو گئے تھے۔ اس قانون کے تحت یہ پابندی لگا دی گئی تھی کہ کسی غریب کو اس وقت تک ان پناہ گاہوں سے نہیں نکال سکتے جب تک وہ خود تحریری درخواست نہ دیں۔ اٹھارہویں صدی کے فرانس کی غربت کی تفصیل ہنری سی (Henri See) نے اپنی کتاب "Economic and Social Conditions of France During Eighteenth Century" ’’اٹھارہویں صدی کے فرانس کے معاشی اور معاشرتی حالات‘‘ میں درج کی ہیں۔ اس نے یہاں معیشت کے ساتھ ساتھ معاشرت کا بھی تذکرہ کیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ فرانس میں غربت تو برطانیہ کے مقابلے میں کم تھی لیکن فرانس کے اندر اشرافیہ کا ایک ایسا طبقہ پیدا ہو چکا تھا جنہیں اپنی دولت پر غرور تھا اور اس دولت کے بل بوتے پر انہوں نے اپنے اردگرد جو حفاظتی حصار قائم کر رکھے تھے انہیں ان پر بہت بھروسہ تھا۔ سب سے اہم بات یہ کہ ان ظالم سرمایہ دار اشرافیہ کو مذہبی رہنمائوں کی پشت پناہی حاصل تھی۔ پورے فرانس میں اس سرمایہ دار طبقے کی تعداد چالیس ہزار سے زیادہ نہیں تھی، لیکن ہر شہر میں ان کے ہمارے پاکستانی حکمرانوں جیسے ’’رائے ونڈ‘‘ اور ’’بلاول ہائوس‘‘ غریب عوام کی نفرت کی علامت بن چکے تھے۔ سرکاری عہدیدار ہر سال دیہاتیوں کو بیگار میں پکڑتے، ان سے سڑکیں اور پُل بنواتے لیکن اُجرت مانگنے پر ان پر کوڑے برسائے جاتے۔ اگر کام معیار کے مطابق نہ ہوتا تو انہیں کھانا دینے کی بجائے پیٹ پر پتھر باندھ کر دوبارہ کام کرنے کو کہا جاتا۔ لوگ بھاگ کر پیرس آ گئے اور بھیک مانگنے لگے۔ حکمرانوں نے انہیں کسی پناہ گاہ میں بھیجنے کی بجائے 1767ء میں پچاس ہزار بھکاریوں کو جیل بھیج دیا۔ لیکن دس برس کے اندر ان بھکاریوں کی تعداد دس لاکھ ہو گئی اور جیلوں میں اتنی جگہ کہاں۔ فرانس کے بادشاہ اور اس کے چالیس ہزار ساتھیوں کو اپنی فوجی قوت اور پولیس پر بھروسہ تھا۔ بادشاہ کے خلاف بولنے والوں، نعرہ لگانے والوں، یہاں تک سٹیج پر مزاحیہ خاکے بنانے والوں پر ظلم کے پہاڑ توڑے جاتے۔ ان کو برہنہ کر کے حیا سوز سلوک کیا گیا، بازاروں میں کتوں کی طرح گھسیٹا گیا، بھائی اور باپ کے سامنے ان کی بیٹیوں اور بہنوں کی عصمت دری کی گئی، کبھی ان کے منہ پر اُبلتا ہوا پانی ڈالا گیا۔ کبھی ان کے ہاتھوں پر دہکتے انگارے رکھ دیئے جاتے تاکہ وہ ان کے خون سے سرد ہو جائیں۔ لوگ مدتوں یہ سب کچھ برداشت کرتے رہے۔ ان کے دلوں میں خوف تھا کہ بادشاہ اور اس کی مضبوط فوج جس کی پشت پر کلیسا کی مذہبی مدد موجود ہے، یہ سب بہت طاقتور ہیں۔ وہ شاید اسے تقدیر کا لکھا سمجھ کر مزید برداشت کرتے رہتے یا پھر اپنی محرومی پر صبر شکر کر لیتے، لیکن طاقت کے نشے میں چُور حکمرانوں نے ان کا تمسخر اُڑانا شروع کر دیا۔ فرانس کی ملکہ کو جب کسی نے آ کر کہا کہ لوگوں کو دو وقت کی روٹی بھی میسر نہیں تو اس نے طنزاً کہا، کہ وہ ’’کیک کیوں نہیں کھاتے‘‘۔ روہان خاندان فرانس کا سب سے بڑا سرمایہ دار خاندان تھا جس کے افراد 1550ء سے اعلیٰ سیاسی عہدوں پر متمکن رہتے تھے۔ اس خاندان کا ایک چشم و چراغ بڑی بڑی مونچھوں والا ’’روہان‘‘ وزیر داخلہ اور دفاع بھی تھا۔ کسی نے اس سے کہا کہ عوام بھوک سے مر رہے ہیں تو اس نے کہا ’’شہر میں اتنی گھاس ہے وہ کیوں نہیں کھاتے‘‘۔ مضبوط اسٹیبلشمنٹ کے بل بوتے پر اکڑنے والے ان حکمرانوں کے اس مسلسل تمسخر نے عوام کی نفرت میں اتنا اضافہ کیا کہ دو سو سال کے ظلم نے نہیں کیا ہو گا۔ عوام اُٹھ کھڑے ہوئے اور پھر جس شخص کا ہاتھ نرم دیکھتے یا جس کے کالر پر میل نظر نہ آتی، اس کی گردن اُڑا دیتے۔ روہان کے منہ میں پہلے گھاس بھری گئی پھر اس کی گردن اُڑائی گئی۔ ملکہ نے اپنے بیان کی وضاحت کی لیکن لوگوں نے قبول نہ کی۔ ہجوم کے ہونٹوں پر کوئی نعرہ نہیں تھا، ان کا کوئی نظریہ نہیں تھا، کوئی لیڈر شپ ان کی قیادت نہیں کر رہی تھی وہ تو صدیوں کے ظلم اور تذلیل کا بدلہ لینے سڑکوں پر نکلے تھے۔ پاکستان میں آج عوام جس طرح بپھرے ہوئے ہیں، اس میں عمران خان کا کوئی کمال نہیں ہے۔ یہ پچھتر سال کی محرومیوں اور ظلم کا نتیجہ ہے۔ پاکستانی عوام کو بھی بخوبی علم ہے کہ فرانس کی طرح یہاں بھی صرف چالیس ہزار لوٹ مار کرنے والوں کا ایک جتھہ ہے جو انہیں مسلسل لوٹ رہا ہے۔ وہ اب تک پُرامن ہیں، اپنے دل کی بھڑاس نکال رہے ہیں۔ لیکن روز ٹیلی ویژن پر ان کا تمسخر اُڑانے کے لئے رانا ثناء اللہ اور مریم اورنگ زیب جیسی گفتگو کرنے والے لوگ آتے ہیں جن کی گفتگو آتش کو بھڑکانے کے لئے کم نہیں ہوتی کہ مریم نواز بھی کود پڑتی ہیں۔ پچھتر سالوں سے سینوں میں بھڑکتی ہوئی آگ کو الائو میں بدلنے کے لئے ایسے بیانات کافی ہیں۔ حکومتوں کی ذمہ داری حالات کو سرد کرنے کی ہوتی ہے جبکہ بدمعاشوں کے ڈیرے پر ان کا سربراہ اپنی قوت کے بل بوتے پر مخالفین سے انتقام کے نعرے بلند کرتا ہے۔ ٹی وی پر آنے والی یہ حکومتی زبانیں اگر خاموش ہو گئیں تو شاید امن ہو جائے، لیکن اگر یہ آگ برساتی رہیں تو پھر کچھ بھی ہو سکتا ہے۔