ترکیہ میں صدر اردوان نے تاریخی رن آف الیکشن میں کامیابی حاصل کرلی، وہ 2028تک ترکیہ کے صدر منتخب ہوگئے ، اردوان مسلسل تیسری بار عہدہ صدارت سنبھالیں گے ، نتائج کے مطابق صدر اردوان نے2کروڑ 74لاکھ سے زائد یعنی 52.10 فیصد ووٹ حاصل کئے جبکہ ان کے حریف امیدوار کمال کلیچ دار اولو نے دو کروڑ 52 لاکھ سے زائد یعنی 47.90 فیصد ووٹ حاصل کئے۔ اس الیکشن میں پہلے کی طرح نہ تو کہیں سے آواز آئی کہ سپریم الیکشن کونسل(ترکیہ) کی جانب سے دھاندلی ہوئی ہے اور نہ ہی یہ آواز آئی کہ الیکشن کو ہائی جیک کر لیا گیا ہے ، بلکہ یہ بھی کہیں سے نہیں سنا گیا کہ اُن کا DRS(سافٹ وئیر) بند ہوگیا ہے۔حیرانی کی بات یہ ہے کہ ترکی کا الیکشن سسٹم دنیا کے بہترین الیکشن سسٹم کے طور پر جانا جاتا ہے۔ یعنی وہاں کا الیکشن سسٹم ہمارے الیکشن سسٹم جیسا قطعاََ نہیں ہے کہ اُس سسٹم پر کسی کو شک ہو ،اس لیے مخالفین نے اپنی شکست فوراََ تسلیم کرلی، اور دلچسپ امر یہ بھی ہے کہ سب کی قبول کر دہ الیکشن اصلاحات بھی طیب اردگان کے دور حکومت ہوئی ہیں جو آج دنیا کے بہترین شفاف انتخابی نظام میں سے ایک مانا جاتا ہے۔ بلکہ کمال یہ ہے کہ ترکی میں تاریخ کا ہولناک زلزلہ آیا،اس زلزلے کا معیشت کو پٹخ دینا بھی ایک بہت بڑا چیلنج ہے، اس وقت انہی علاقوں میں مہنگائی 85فیصد تک جا پہنچی تھی ان حالات میں ان علاقوں سے ریکارڈ ووٹ کی توقع عبث تھی، جو اردوان کیلئے اپ سیٹ کا باعث بن سکتی تھی۔ لیکن پھر بھی الیکشن ہوئے، جبکہ اس کے برعکس یہاں حیلے بہانوں کے بعد حالات اس نہج پر پہنچا دیے گئے ہیں کہ اب سب کو اپنی اپنی پڑ گئی ہے، تمام سٹیک ہولڈرز دفاعی پوزیشن پر چلے گئے ہیں اور اب الیکشن کا کوئی نام بھی لینے کو تیار نہیں ہے۔ اہم بات یہ تھی کہ کوئی ہارے کوئی جیتے تمام سیاسی رہنما مقابلے میں تو تھے ، کوئی سیاستدان عدالتوں کے باہر کھڑا نظر نہیں آیا۔ مگر وطن عزیز میں اس طریقہ کار نے تباہی مچارکھی ہے ۔ خیر بات اگر طیب اردوان کی کی جائے تو اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ وہ اپنی قوم کے لیے بہترین ثابت ہوئے۔ 2003ء میں انہوں نے اقتدار سنبھالا تو اُس وقت ترکی کے حالات بھی پاکستان جیسے تھے۔ یہ وہی طیب اردوان ہیں جس نے 2001 میں اپنی سیاسی جماعت ’’جسٹس اینڈ ڈیویلپمنٹ پارٹی‘‘ بنائی اور 2002، 2007 اور 2011 کے انتخابات میں مسلسل کامیابی حاصل کی۔ طیب اردوان 2003 سے 2014 تک مسلسل ترکی کے وزیراعظم رہے اور 2014 سے اب تک ترکی کے 3مرتبہ صدر منتخب ہوئے۔ اتنے کم عرصے میں کوئی ’’سلطان ‘‘کیسے بن سکتا ہے؟یہ ہمارے حکمرانوں کے لیے سیکھنے کی بات ہے، اتنے کم عرصے میں سیاست میں آکر کوئی کیسے دنیا کی مضبوط ترین فوج کی بغاوت کو عوام کے ذریعے کچل سکتا ہے؟ کوئی کیوں کر طیب اردوان کے لیے سینے پر گولیاں کھانے کے لیے تیار ہوجاتا ہے اور بیچ سڑک میں آکر ٹینک کے سامنے کھڑا ہو سکتا ہے۔ یہ صرف اسی وجہ سے ہے کہ طیب اردوان نے ہمیشہ دنیا بھر میں اپنی قوم، اپنے ملک اور اپنی سرزمین کو بلند کرنے کے لیے کام کیا، امریکا و یورپ کے ساتھ برابری کی سطح پر بات کی۔ اگر مغربی ممالک نے ترکی کی معیشت کو دبائو میں لانے کے لیے اُس پر معاشی پابندیاں سخت کردیں تو اُس نے اس کے متبادل ممالک سے رابطے بڑھا کر اپنے ملک کی معیشت کو نہ صرف بچایا بلکہ آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک کے چنگل سے آزاد بھی کروایا۔ جبکہ یہاں پاکستان کے’’ سلطانوں‘‘ کو تین تین دفعہ اقتدار میںآنے کا موقع ملا مگر بدقسمتی سے میرے ملک کی معیشت کو انہوں نے نچوڑ کر رکھ دیا۔ ہمارے ملک میں ایلیٹ کلاس نے فارن اکائونٹس بھرے اور ملک پر 200ارب ڈالر کا قرضہ چڑھا دیا۔جبکہ اس کے برعکس اردوان نے سالانہ تقریبا 10 پوائنٹس کے حساب سے اپنے ملک کی معیشت کو 111 نمبر سے 16 نمبر پر پہنچا دیا، جس کا مطلب ہے کہ ترکی دنیا کی 20 بڑی طاقتوں جی20- کے کلب میں شامل ہوگیا ۔ 10 سالوں کے دوران ترکی نے جنگلات اور پھل دار درختوں کی شکل میں 3ارب کے قریب درخت لگائے، اردوان نے 10 سالوں کے دوران 125 نئی یونیورسٹیاں، 189 سکول، 510 ہسپتال اور 1 لاکھ 69 ہزار نئی کلاسیں بنوائیں تاکہ طلبہ کی تعداد فی کلاس 21 سے زیادہ نا ہو۔گزشتہ مالی بحران کے دوران جب امریکا اور یورپ کی یونیورسٹیوں نے بھی اپنی فیسیں بڑھا دی تھیں ان دنوں میں بھی اردوان نے حکم نامہ جاری کیا کہ تمام یونیورسٹیوں اور کالجوں میں تعلیم مفت ہوگی اور سارا خرچہ حکومت برداشت کرے گی۔میرے ملک پاکستان میں تعلیم ایک منافع بخش کاروبار بنا دیا گیا۔ جس میں ہمارے بڑے بڑے سیاستدانوں کی پرائیویٹ تعلیمی اداروں میں کمیشن وصول کرتے ہوئے کی ویڈیوز بھی منظر عام پر آئیں، پھر منافع بخش کالجز، یونیورسٹیوں میں اپنے بندے لگا کر وہاں سے اپنا حصہ وصول کیا جاتا رہا۔ 10 سال پہلے ترکی میں فی فرد آمدن 3500 ڈالر سالانہ تھی جو2023 میں بڑھ کر 13 ہزار ڈالر سالانہ تک پہنچ گئی ہے۔ طیب اردوان کے ملک نے ترقی کیسے کی۔ انہوں نے حکومت سنبھالنے کے بعد کسی سیاستدان کو نہیں چھیڑا، نہ کسی ادارے کو چھیڑا۔ بلکہ انہوں نے 2003ء سے 2010تک بھرپور کام کیا اور ملکی برآمدات میں اضافہ کرکے آئی ایم ایف کو خیر آباد کہہ دیا۔ یعنی جب انہوں نے اقتدار سنبھالا تو ترکی کی برآمدات 6 ارب ڈالرتھیں آج اس کی برآمدات200 ارب ڈالر ہیں جو کہ دنیا کے 190 ممالک میں پہنچتی ہیں۔ ان برآمدات میں پہلے نمبر پر گاڑیاں اور دوسرے نمبر پر الیکٹرانک کا سامان آتا ہے۔ یورپ میں بکنے والی الیکٹرانک اشیاء میں ہرتین میں سے ایک ترکی کی بنی ہوئی ہوتی ہے۔یہاں آج سے 5برس قبل پاکستان کی برآمدات 40ارب ڈالر تھیں جو کم ہو کر 17ارب ڈالر پر آگئی ہیں۔ بہرکیف ہمارے سیاستدانوں کو خاص طور پر حکمرانوں کو طیب اردوان سے سبق سیکھنے کی اس وقت اشد ضرورت ہے۔ اگر وہ پہلے ملک کا سوچیں ادارے مضبوط کریں، خود کو مضبوط کریں اور عوام کے لیے کچھ کریں تو اس میں کوئی دورائے نہیں ہے کہ ملک میں کسی کی اجارہ داری ختم ہوسکتی ہے۔ لہٰذاہمارے سیاستدانوں کو بھی ایسی لازوال عوامی محبت کی آس صرف تب ہی رکھی جا سکتی ہے جب اپنا کردار بھی اس عظیم رہنما جیسا ہی ہو ورنہ ہمارے سیاستدان ’’سلطان‘‘ بننے کے بجائے کچھ اور ہی نہ بن جائیں!