کئی روز تک دبئی مذاکرات کی اطلاع کا انتظار رہا۔ دو روز پہلے مسلم لیگ نواز نے اپنے ذرائع کو معلومات فراہم کیں۔ مذاکرات کی دوسری فریق پیپلزپارٹی کے ترجمان یا ذرائع خاموش ہیں،بس اس قدر بات کی کہ پنجاب مین سیٹ ایڈجسٹمنٹ کوئی مسئلہ نہیں ۔ اس سے سمجھا جارہا ہے کہ مسلم لیگ ن نے جو خبریں رائے عامہ کی منڈی میں بھیجی ہیں وہی درست ہیں۔ ہم چونکہ مسلم لیگی قیادت سے کبھی ملے نہیں اس لیے ان خبروں سے براہ راست محروم رہے۔ خبر کا تجزیہ بہرحال ہم کرسکتے ہیں۔ یہ تجزیہ ہے اس لئے اسے کسی کے خلاف یا حق میں دلیل نہ سمجھا جائے ۔خبر ہے کہ میاں نوازشریف نے چوتھی بار وزیراعظم بننے کا فیصلہ کرلیا ہے۔میاں صاحب ان دنوں وزیر اعظم بن کر لوگوں سے مل رہے ہیں۔ان کے قریبی لوگ انہیں وزیر اعظم صاحب کہنے لگے ہیں ۔ بلاول اور شہبازشریف کوبتا دیا گیا ہے کہ آپ دیگر ذمہ داریوں کے لئے کام میں لائے جا سکتے ہیں۔ بتاتے ہیں کہ نوازشریف نے عرب اور خلیجی سرمایہ کاروں سے ملاقاتیں کی ہیں۔ ان ملاقاتوں کے نتائج عام طور پر بڑھا چڑھا کر بیان کئے جاتے ہیں۔ بتایا جارہا ہے کہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات مجموعی طور پر چالیس ارب ڈالر سے زائد کی سرمایہ کاری پر تیار ہیں۔یاد رہے یہ سرکاری نہیں نجی سرمایہ کاری ہوگی۔ بتایا جارہا ہے کہ کمیونی کیشن‘ زراعت اورکان کنی میں سرمایہ کاری ہوگی۔ ساتھ ہی وزیراعظم شہبازشریف نے ہمیں یاد دلایا کہ معیشت بحالی کے منصوبے میں کامیابی کے لیے آرمی چیف اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔ میرا خیال تھا کہ ایک ترقی یافتہ ملک کے دارالحکومت میں رہ کر میاں نوازشریف دنیا کی کاروباری ترجیحات کو جان چکے ہوں گے۔ وہ پاکستان میں موجود افرادی قوت کی استعداد اور ریاست پاکستان کے فیصلوں میں ہم آہنگی سے آگاہ ہو چکے ہوں گے لیکن مجھے خدشہ ہے کہ انہوں نے خود کو سوچ کے اسی ٹریک پر رکھا جو اس وقت دکھائی دے رہی ہے تو چوتھا دور وزارت عظمیٰ بھی ملک پر نئے قرضوں کا بوجھ بڑھانیاور بین الاقوامی مواقع ضائع کرنے کے مترادف ہو گا۔ پاکستان ہائی ٹیک انڈسٹری کی بہت بڑی مارکیٹ بن چکا ہے۔ موٹر کاریں‘ موٹرسائیکلیں اور بسوں پر مشتمل آٹو موبائل انڈسٹری خطے کے دو بڑے ممالک سے مسابقت کا تقاضا کرتی ہے۔ ملک میں موبائل فون کے 14 کروڑ سے زیادہ صارف ہیں۔ ڈیجیٹل ٹولز کی پوری انڈسٹری میں مواقع موجود ہیں۔ چین نے واٹس ایپ کے مقابلے میں اپنا چیٹ نظام اپنا رکھا ہے۔ متحدہ عرب امارات نے بھی اپنا سسٹم متعارف کرا دیا ہے۔ بھارت بہت سے بڑے ڈیجیٹل منصوبوں میں دنیا کو حیران کر رہا ہے۔ حیرت یہ ہے کہ درجنوں نیوز چینلوں اور ہزاروں اخبارات والے پاکستان میں اپنا کوئی فیکٹ چیک نظام تک نہیں۔کوئی اس نظام پر سرمایہ کاری پر تیار نہیں۔ قومیں بحرانوں کو بیچتی اور خریدتی ہیں۔ ہم بحرانوں کو وہیل چیئر پر بٹھا کر بھیک مانگنے لگتے ہیں۔ پاکستان پچھلے چند برسوں کے دوران شدید ماحولیاتی مسائل میں گھر چکا ہے۔ عام آدمی ان مسائل سے واقف ہے اور اپنی طاقت کے مطابق حل تلاش کر رہا ہے۔ کئی اوورسیز شجرکاری میں دلچسپی لے رہے ہیں۔ پاکستان میں لوگ ماحول کو ہرا بھرا رکھنے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔ ابھی دو روز پہلے دیکھا کہ کوئٹہ کا ایک رہائشی شہر سے باہر پہاڑوں میں ڈیم بنانے میں مصروف ہے۔ غریب آدمی خود پتھر اٹھاتا ہے‘ ہتھوڑا چلاتا ہے۔ 10ماہ کے دوران وہ سیلابی پانی کی ایک تنگ پہاڑی گزر گاہ کو بند کر کے سات فٹ بلند اور 14 فٹ چوڑی دیوار بنانے میں کامیاب ہو چکا ہے۔ اس کے بابا ڈیم کا دورہ کرنے والے ماہرین کا خیال ہے کہ دیوار کو 12 فٹ تک بلند کردیا جائے تو اس سے یہاں اتنا برساتی پانی جمع ہو جائے گا جو شہر کی کچھ ضرورت پوری کرسکے گا۔ دنیا میں کئی قیمتی درخت ہیں۔ ان درختوں کی لکڑی اور پھل کی مانگ ہے۔ دور دراز علاقوں کی ہر بستی کے ساتھ ایک چھوٹا سا جنگل کیوں نہیں بن سکتا۔یہ محکمہ جنگلات آخر کب تک ہمارے سینے پر مونگ دلے گا ۔ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے حال ہی میں امریکہ کا دورہ کیا۔ میں نے کوشش کی کہ اس دورے کے ہر پہلو پر نظر رکھ سکوں۔ اگر مودی کی جگہ کوئی پاکستانی وزیراعظم ہوتا تو میرے لیے سب سے قابل فخر لمحہ وہ ہوتا جب پاکستان کے سندر پچائی، امبانی‘ اڈانی‘ ٹاٹا جیسے سرمایہ کار امریکی ملٹی نیشنل کمپنیوں کے سربراہان کے ساتھ ایک ٹیبل پر ڈنر کرتے اور نئے دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ سرمایہ کاری منصوبے زیر بحث لاتے۔پاکستان کی حکمران اشرافیہ کاروبار کرنے کی بجائے کیمشن میں دلچسپی رکھتی ہے ،جو ہوچکا وہ ہمارے بس میں نہ تھا لیکن جو ہوگا اس پر تو پالیسی بنائی جا سکتی ہے۔ پاکستان میں کاروبار دوست ماحول نہیں‘ یہاں کوئی اپنے نئے تصورات کو مارکیٹ میں متعارف نہیں کراسکتا۔ نظام میں ایک روک کہیں لگ گئی ہے جو پاکستان کے حق میں ہونے والی ہر اچھی چیز کی حوصلہ شکنی کر رہی ہے۔ سیاسی جماعتوں کی باتیں سنیں تو یوں لگتا ہے ان کے پاس صرف جوڑ توڑ کرنے والے بھرتی ہو گئے ہیں۔ مستقبل میں دیکھنے والی آنکھ کسی کے پاس ہے نہ وہ دماغ کہ اگلے 25 سال بعد کے پاکستان کا نقشہ دیکھ سکے۔ کیا کسی جماعت نے آج تک بڑھتی ہوئی آبادی پر فکر مندی کا اظہار کیا اور لوگوں کو پالیسی دینے کی بات کی۔ جس حد تک میں سمجھتا ہوں وہ یہ ہے کہ ملک ہویا گھر اسے داخلی طور پر ٹھیک کئے بنا صرف بیرونی امداد‘ خیرات یا قرض پر نہیں چلایا جاسکتا۔ اپنے لوگوں‘ اپنے وسائل اور اپنی عادات کو کسی ضابطے اور پالیسی کے تابع کرنا ضروری ہوتا ہے۔ملک کا سربراہ نواز شریف ہوں ،بلاول ہوں یا کوئی اور اگر وہ اپنے طبقے کے مفادات کا تحفظ کریں گے تو ملک ترقی نہیں کر سکے گا ،بس یہ طبقہ دولت کمائے گا۔اقتدار پلیٹ میں ملتا ہے ،اب بھی مل رہا ہے لیکن یہ مطالبہ تو ہو سکتا ہے کہ تمام لیڈر درپیش مشکلات کو مدنظر رکھ کر اپنی اہلیت ثابت کریں۔