20 فیصد پاکستانیوں کے لیے یہ ملک چراگاہ ہے، ان کے باپ کی جاگیر ہے۔ باقی 80 فیصد یہاں زندگی جبر مسلسل کی طرح کاٹتے ہیں۔ پاکستان کا 20 فیصد طبقہ اشرفیہ پر مشتمل ہے جس میں ہر نوع کی مقتدر اشرافیہ شامل ہے ، کاروباری، خاکی، عدالتی اور بیوروکریٹک اشرافیہ ہے۔ یہ وہ لوگ ہے جو بلواسطہ یا بلاواسطہ حکومتوں میں شامل رہتے ہیں ۔ بذات خود حکومت کا حصہ نہ بھی ہوں تو بھی ان کے بھائی بند ، رشتہ دار حکومتوں میں شامل ہوتے ہیں ۔سو یہ طبقہ ہر دور میں حکمرانی کے ثمرات سمیٹتا ہے۔ حکومتیں اپنی پالیسیاں اسی بیس فیصد کے مفاد کو سامنے رکھ کر بناتی ہیں۔یہ بیس فیصد پاکستان کی 50 فیصد دولت کے مالک ہیں یو این ڈی پی کی رپورٹ کے مطابق یہ بیس فیصد طبقہ پاکستان کے اندر 17 ارب ڈالر کی مراعات حاصل کرتا ہے اور صادق سنجرانی جیسے اس کے نمائندے اس کے خالی خزانے سے اپنی اور اپنے خاندان والوں کی مراعات طلب کرتے ہوئے ذرا شرمسار نہیں ہوتے۔ یہی طبقہ بار بار حکومتوں میں آتا ہے۔ بظاہر ہمارے سامنے سیاستدان ہی ہوتے ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ سیاستدانوں کے ساتھ کاروباری افراد جڑے ہوئے ہیں۔ اشرافیہ کا آپس میں پورا ایک نیٹ ورک ہے جو ایک دوسرے کے مفادات کا تحفظ کرتے ہیں۔اس طبقے کے لیے حکومت میں رہنا ایسے ہی ہے جیسے مچھلی کا پانی میں رہنا ہے۔ یہ لوگ چہرے بدل بدل کر حکومتوں میں آتے ہیں۔سیاسی جماعتوں کے ٹوٹنے اور نئی پارٹیاں بننے کا عمل پاکستان کی تاریخ میں ہمیشہ ہوتا آیا۔ تازہ ترین مثال پی ٹی آئی کے زوال کے بعدپاکستان استحکام پارٹی کا بننا ہے۔ یہی لوگ پی ٹی آئی میں موجود تھے اور تبدیلی کا نعرہ لگاتے تھے۔ان میں بہت سارے چہرے ایسے ہیں جو ہر حکومتی بندوبست کا کسی نہ کسی صورت حصہ بن جاتے ہیں۔ کل تک پی ٹی آئی کے لئے اور عمران خان کے لیے وفاداری کے دعوے کرنے والے اب پاکستان استحکام پارٹی جوائن کرکے پاکستان کی تعمیر و ترقی کے خواب لوگوں کو دکھا رہے ہیں۔ پاکستان کا یہ بیس فیصد طبقہ جاگیردار اور کاروباری افراد پر مشتمل ہے۔ دونوں ایوانوں میں ان کی نمائندگی موجود ہے۔ پاکستان میں متوسط طبقہ مسلسل کم ہو رہا ہے کیونکہ مہنگائی اتنی تیزی سے بڑھ رہی ہے کہ متوسط آمدنی والے طبقے کی قوت خرید ہر سال کم ہوتی جا رہی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق 2009 سے لے کر اب تک متوسط طبقہ 42 فیصد سے کم ہو کر 36 فیصد تک رہ گیا ہے ۔یہ اعداد و شمار بھی 2019 تک کے ہیں۔ اس وقت کو بھی چار برس ہونے کو آئے ہیں اور اس دوران عام آدمی خوفناک مہنگائی کے تھپیڑے سہتا رہا۔ حالت یہ ہے کہ اس کی قوت خرید سکڑتی سکڑتی کئی صورتوں میں ختم ہوتی جا رہی ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق پاکستان تین عشروں میں تیسری مرتبہ سب سے کم فی کس آمدنی والا ملک بن گیا ہے۔پاکستان ایک ایسا ملک ہے جہاں غریب آدمی امیر کو پالتا ہے۔پاکستان میں سائیکل پر سواری کرنے والا بھی ٹیکس ادا کرتا ہے ۔وہ زندگی سے جڑی ہر ضرورت خریدنے پر ٹیکس ادا کرتا ہے۔ ایک ماچس پر بھی اسے ٹیکس ادا کرنا پڑتا ہے لیکن اس کے بدلے میں اسے نہ تعلیم ملتی ہے نہ صحت کی سہولت ملتی ہے ،نہ ہو زندگی کی بنیادی سہولیات ۔اس کی جیب سے ٹیکس کی صورت کھینچا ہوا پیسہ پاکستان کی اشرافیہ کو پالنے میں خرچ ہوتا ہے۔ پاکستان کی پارلیمنٹ امیر ترین افراد پر مشتمل ہے۔ ایک سٹڈی ہوئی جو کسی انٹر نیشنل تھنک ٹینک نے کی کہ پاکستان کی پارلیمنٹ دنیا کی ان پارلیمنٹ میں شامل ہے جس میں امیر ترین لوگ موجود ہیں ۔تین بار وزیراعظم رہنے والے پاکستان کے امیر ترین صنعتکار نواز شریف جو لندن کے امیر ترین علاقے میں رہتے ہیں ۔ 2007 میں انہوں نے الیکشن کمیشن میں اپنے ڈاکومنٹس جمع کروائے تو معلوم ہوا انہوں نے کوئی پرسنل انکم ٹیکس ادا نہیں کیا۔ اس بیس فیصد پاکستان کا امیر طبقہ پاکستان کے باقی کے اسی فیصد لوگوں کا استحصال کرتا ہے،اپنے مقصد کے لئے استعمال کرتا ہے۔ اکثر یہ خبریں آتی ہیں کہ کسی غریب شخص کے اکاؤنٹ میں ہزاروں ڈالرز آ جاتے ہیں لیکن خود اس کے گھر میں اس دن کھانا نہیں پکا ہوتا اور اس کو خبر نہیں ہوتی کہ کس نے اس کے نام پر اکاؤنٹ بنایا ۔ یہ وہ لوگ ہیں جو پاکستان سے کماتے اور پاکستان کو کھاتے ہیں لیکن ٹیکس کے نام پر پیسہ دیتے ان کی جان جاتی ہے ۔ ٹیکس کا پیسہ بچانے کے لیے یہ بے نامی جائیدادیں خریدتے ہیں۔ ٹیکس ایمنسٹی سکیمیں اسی بیس فیصد کی کالی دولت کو سفید کرنے کے لیے بنائی جاتی ہیں۔ عمران خان کی حکومت نے بھی یہ سکیم شروع کی تھی کہ کل رقم کا 4فیصد ادا کرکے اپنی بلیک منی کو وائٹ کرلیں۔ یہلوگ بینکوں سے کروڑوں روپے قرض لیتے ہیں اور پھر اس کی صنعتیں لگاتے ہیں، پیسہ کماتے ہیں لیکن پھر ان قرضوں کو معاف کرواتے ہیں۔پاکستان کا سارا نظام اس بیس فیصد کی خدمت پر مامور ہے۔بیس فیصد کی نمائندگی کرنے والے اگر کسی شاہزیب کو قتل کر دیں تو عدالتیں ان کو چھوٹ دیتی ہیں۔بظاہر سیاسی حریف ہوتے ہوئے بھی اپنی تنخواہوں اور مراعات کے بل خاموشی سے پاس کر لیتے ہیں۔ یہ اہل اختیار کے لیے بنایا گیا نظام ہے جو انہی جیسے اہل اختیار نے ان کے لیے بنایا ہے۔ پاکستان پر ہر دور میں اسی 20 فیصد کی حکمرانی رہی ہے۔ اگر اس 20 فیصد میں انسانیت کا احترام ہوتا، ہمدردی ہوتی ،اپنی ذمہ داری کو محسوس کرتے ،انہیں رب کے حضور جوابدہی کا احساس ہوتا ،اگر ان کے ضمیر جاگتے ہوتے تو یہ اتنی بے حسی سے باقی 80 فیصد کا استحصال نہ کرتے۔اس 20 فیصد طبقے کے ہاتھوں 80 فیصد کا استحصال ہوتے دیکھ کر منیر نیازی نے یہ لازوال شعر کہا؛ میری ساری زندگی کو بے ثمر اس نے کیا عمر میری تھی مگر اس کو بسر اس نے کیا