ایمنسٹی انٹرنیشنل کی تازہ رپورٹ منظر عام پر آنے کے بعدبھارت میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو ایک مسلسل حکومتی رویہ سجھا جانے لگا ہے۔ایمنسٹی انٹرنیشنل نے ایسے قوانین اور پالیسیاں جو مناسب عوامی اور قانونی مشاورت کے بغیر منظور کیے گئے تھے،ان پر تنقید کی ہے۔یہ قوانین انسانی حقوق کے محافظوں اور مذہبی اقلیتوں کے حقوق کو سلب کرنے کا باعث بن رہے ہیں۔ حکومت نے مذہبی اقلیتوں کے خلاف سیاسی حربوں اور انتقامی طریقے سے کریک ڈاؤن کیا، سیاسی رہنماؤں اور سرکاری حکام کی طرف سے اقلیتوںکے خلاف نفرت کی واضح وکالت عام تھی۔قابل گرفت بات یہ کہ ایسے افراد کو سزا نہیں ملی۔ مسلم خاندانوں کے گھروں اور کاروباروں کو سزا کے طور پر مسمار کرنے کے عمل کو کسی حقیر جواز کے ساتھ انجام دیا گیا۔ اقلیتوں کے حقوق کا دفاع کرنے والے پرامن مظاہرین کو امن عامہ کے لیے خطرہ سمجھا گیا۔ انسداد دہشت گردی کی قانون سازی سمیت جابرانہ قوانین کو اختلاف رائے کو خاموش کرنے کے لیے بے دریغ استعمال کیا گیا۔ حکام نے انسانی حقوق کے محافظوں کو ڈیجیٹل ٹیکنالوجیز کا استعمال کرنے پر ڈرایا، دھمکی دی گئی کہ ان کی نگرانی کی جائے گی۔ قبائلیوں اور پسماندہ برادریوں بشمول دلتوں کو تشدد اور امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑا۔ منی پور میں جو کچھ ہوا اس پر دنیا حیران ہے۔تازہ رپورٹ میںایمنسٹی انٹرنیشنل نے نسلی و مذہبی گروہوں کے درمیان جاری بلا روک ٹوک تشدد پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔بھارت کی شمال مشرقی ریاست منی پور میں3 مئی کو نسلی تشدد کے آغاز سے اب تک 100 سے زائد افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہو چکے ہیں۔50,000 سے زیادہ لوگ نقل مکانی پر مجبور ہوئے ہیں۔منی پور اور پڑوسی شمال مشرقی ریاستوں میں سیکڑوں مکانات اور املاک جلا دئیے گئے، لوٹ مار کی گئی۔انتہا پسند سوچ کے پرچارک غنڈوں نے پورے سماج کو دہشت زدہ اور تباہ کر دیا ہے۔ ریاستی حکومت تصادم روکنے میں ناکام رہی۔تشدد کے آغاز کے بعد سے انٹرنیٹ بند ہے۔منی پور میں جو ہوا وہ مقامی آبادی کے لئے بھیانک خواب ہے لیکن کشمیر میں ایک ظلم تواتر کے ساتھ روا ہے۔عشروں سے اس ستم میں کمی نہیں ہو رہی۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کے خیال میں جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کا ایک تسلسل ہے۔ صورتحال تشویشناک حد تک پہنچ چکی ہے۔ اس کے باوجود ریاست میں انسانی حقوق کے بحران کو حکومت اور عالمی برادری نے بڑی حد تک نظر انداز کیا ہے۔ اقوام متحدہ کے حالیہ جنرل اسمبلی اجلاس میں پاکستان نے ان زیادتیوں کی طرف توجہ دلائی ہے ۔جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہر سال ایمنسٹی انٹرنیشنل، جینو سائڈ واچ اور انسانی حقوق کی دیگر تنظیموں کی رپورٹس کا حصہ بنتی ہیں، کشمیر بھارت کے زیر انتظام ایک متنازعہ علاقہ، ایک جاری مسئلہ ہے۔ بھارتی سکیورٹی اداروں پر کئی الزامات ہیں۔ الزامات میں بڑے پیمانے پر قتل، جبری گمشدگی، تشدد، عصمت دری اور جنسی استحصال سے لے کر آزادی اظہار کو دبانے اور مذہبی اجتماعات پر پابندی تک شامل ہیں۔ یہ درست ہے کہ کشمیر کے معاملے میں بھارتی سماج نے ذمہ دارانہ کردار ادا نہیں کیا لیکن منی پور میں خواتین کی سر عام عصمت دری اور قتل و غارت پر بھارت کے اندر سے آوازیں بلند ہو رہی ہیں۔خواتین کی تنظیموں، وکلا، انسانی حقوق کے کارکنوں اور عام افراد نے سوال اٹھایا ہے کہ بی جے پی کی تشدد پسند پالیسیاں ملک کو کس سمت میں لے کر جا رہی ہیں۔جی ٹونٹی اجلاس کے موقع پر یہ سوال زیادہ شدت کے ساتھ اٹھایا گیا کہ بھارت عالمی سطح پر اپنا جو کردار وضع کرنے کی کوشش کر رہا ہے کیا انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے اس ریکارڈ کے ساتھ وہ عالمی لیڈر بن سکتا ہے؟ بھارت اندر سے اٹھنے والی آوازیں دبا رہا ہے۔جبر نے بھارت کے وجود میں دراڑوں کے امکانات پیدا کر دئے ہیں۔جمہوریت کی بجائے بی جے پی کے انتہا پسند روئیے فاشزم کی صورت اختیار کرتے جا رہے ہیں۔ بھارتی حکومت انسانی حقوق کے کارکنوں کو نشانہ بنانے اور ان کے کام میں رکاوٹ ڈالنے کے لیے ایف اے ٹی ایف کی سفارشات کا فائدہ اٹھا رہی ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق بھارتی حکومت ایف اے ٹی ایف کی سفارشات پر بنائے گئے قوانین کے تحت اپنے ناقدین پر دہشت گردی کے مقدمات بنا رہی ہے۔ایمنسٹی انٹرنیشنل انڈیا کے سربراہ آکر پٹیل کا کہنا ہے کہ ایف اے ٹی ایف کی سفارشات ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے پر بھارتی حکام کو جوابدہ ٹھہرانا چاہیے۔ بھارت میں انسانی حقوق کے کارکنان دہشت گردی سے نمٹنے کے بہانے ہراساں کیے جانے، چھاپوں، تحقیقات اور قانونی مقدمات کے مسلسل خوف میں گھرے رہتے ہیں۔ عمر خالد نامی ایک طالب علم کارکن کو فروری 2020 میں UAPA کے تحت دو سال سے حراست میں رکھا گیا ہے۔ آنند تیلٹمبڈے نامی ایک سکالر اور انسانی حقوق کے کارکن کو بھی جنوری 2020 میں UAPA کے تحت گرفتار کیا گیا تھا۔ ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں کلبھوشن جادیو کی گرفتاری بھی بھارت کی ریاستی دہشتگردی کی زندہ مثال ہے۔ بھارت کلبھوشن جادیو جیسے کارندوں سے منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی کارروائیاں کرواتا ہے۔چند ماہ پہلے منی پور کی ریاست میں بھارتی حکومت ناقدین کو خاموش کرنے اور اقلیتوں کو دبانے کیلئے ظالمانہ قوانین کا استعمال کرتی رہی ہے۔ بھارت جمہوری اقدار کو خطے میں فروغ دینے کی بجائے تشدد اور دہشت گردی ایکسپورٹ کرنے کے راستے پر چل نکلا ہے ۔حال ہی میں کینیڈا میں ہردیپ سنگھ نجر کے قتل میں بھارت ملوث نکلا۔ ایمنسٹی رپورٹ نے بھارتی حکومت کی دہشتگردانہ کاروائیوں کی پشت پناہی پر بھی مہر لگا دی ہے۔ یقیناً کینیڈا میں ہونے والی اس کارروائی میں فنانشنل ٹرانزیکشنز ہوئی ھوںگی جو ٹیرریزم کی ذیل پر پورا اترتی ہیں۔پاکستان بھارت کی شر انگیزیوں کے باعث کئی سال ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں رہا۔اب جب بھارت کے خلاف کینیڈا واضح ثبوت موجود ہونے کی بات کر رہا ہے تو ایف اے ٹی ایف کو بھارت کی منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی کارروائیوں کا بغور جائزہ لیتے ہوئے تادیبی اقدامات کرنے چاہئیں۔