پاکستان کی انتظامی مشینری اور سیاسی اشرافیہ یکساں پریشانی کا شکار پہلی بار ہوئی ہیں۔ان کی پریشانی کا نام عمران خان ہے ۔ہر مشکل کا حل بتانے والے بابے بے بس نظر آتے ہیں ۔تازہ واقعہ عمران خان کی گرفتاری کی کوشش ہے پولیس کی ناکامی کے بعد لیگی رہنماوں کی فرسٹریشن دیکھنے والی تھی۔ بس نہیں چل رہا تھا کہ خود زمان پارک جا گھسیں ۔اس واقعہ کے بعد عمران خان نے جو جارحانہ لہجہ اپنایا اس میں رنج کے ساتھ غصہ نظر آیا ، وہ کچھ کہہ دیا جو اس طرح نہیں کہا جاتا۔ صرف بھٹو کی گرفتاری کے لئے مارشل لاء لگا۔نواز شریف جب بھی پکڑے گئے ان کے حامی شیر شیر کہتے گھروں میں چھپ گئے۔خیر مسلم لیگ نون کی قیادت نے کبھی بھی سیاسی جیل نہیں کاٹی‘ مجرمانہ کاموں پر جیل جانے کو سیاسی جدوجہد کا حصہ بنانے کی کوشش کی۔ صرف جاوید ہاشمی تھے جنہوں نے بہادری سے سیاسی مقدمات میں جیل کاٹی۔میرا ماننا ہے کہ پیسہ جمع کرنے والا کبھی جیل کاٹ ہی نہیں سکتا۔ وہ اسی بات پر دکھی ہو جاتا ہے کہ فرائی پین سے کپڑے استری کرنا پڑے۔ انتظامی مشینری اور حکمران اشرافیہ کے لئے پریشانی اور صدمے کی بات ہے کہ تحریک انصاف کے ہزاروں کارکن آناً فاناً عمران خان کی حفاظت کے لئے جمع ہو جاتے ہیں۔ وطن عزیز میں سیاست کا قاعدہ اسٹیبلشمنٹ کے ایجنڈے سے اتفاق کرنا ہے۔ اسٹیبلشمنٹ ہر معاملے میں ظالم و سفاک نہیں ہوتی۔ملک کی بہتری اور سلامتی کے لئے اس کے ماہرین ایک لائحہ عمل ترتیب دیتے ہیں۔سیاسی رہنما اسٹیبلشمنٹ کے لوگوں سے ملتے رہتے ہیں۔دونوں فریق ایک دوسرے کے مفادات سے آگاہ رہتے ہیں۔جونہی کسی خاص جماعت کا ایجنڈہ اسٹیبلشمنٹ کے پروگرام سے ہم آہنگ ہوتا ہے ان کے درمیان ایک ورکنگ ریلیشن قائم ہو جاتا ہے۔2018ء کے انتخابات سے قبل شہباز شریف کے ساتھ ایک میٹنگ کا حال سامنے آ چکا ہے۔شہباز شریف خود بتا چکے ہیں کہ ان کی وزارت عظمیٰ اور وزیروں کے نام فائنل ہو چکے تھے۔ مطلب یہ کہ اسٹیبلشمنٹ اور مسلم لیگ نون ایک پیج پر تھے۔ان کے درمیان اتنی گاڑھی چھن رہی تھی کہ انہوں نے اس بات کو اہمیت ہی نہ دی کہ پاکستان کا ووٹر کیا سوچ رہا ہے۔عام انتخابات ہوئے اور مسلم لیگ نون کی امیدیں خاک میں مل گئیں۔ان کا ہنستا بستا چمن اجڑ گیا۔تحریک انصاف کا کہنا ہے کہ عمران حکومت ختم کر کے مسلم لیگ نون کی خاک آلودہ امیدیں زندہ کی گئیں‘ اس کے اجڑے چمن کو سنوارا گیا۔ آئین پاکستان وہ دستاویز ہے جسے سب تسلیم کرتے ہیں۔اس آئین کو وہ گروہ اور جماعتیں بھی تسلیم کرتی ہیں جو پاکستان اور قائد اعظم کی نفی کرتی رہی ہیں۔انکے رہنما اب بھی ایسے بیانات داغ دیتے ہیں جن سے ان کی ریاست پاکستان کے متعلق سوچ مشکوک معلوم ہونے لگتی ہے۔ اس آئین کی تشریح کا کام سپریم کورٹ کے سپرد کیا گیا لیکن ان دنوں حالات کچھ عجیب سے ہیں۔اپنے شعبے میں ناکام اور نالائق شمار ہونیوالے لوگوں کو سیاسی جماعتیں نمایاں اور بڑا بناتی ہیں۔یہ لوگ لڑائی جھگڑے اور چوری چکاری کے مقدمات لڑتے لڑتے منی لانڈرنگ‘ ناجائز اثاثوں اور قومی خزانے کی لوٹ مار کے مجرموں کا دفاع کرنے تک آ جاتے ہیں۔ یہیں سے اچانک یہ آئینی ماہر بن کر آئین کی تشریح کرنے لگتے ہیں۔ عدالت کہتی ہے کہ اسمبلی تحلیل کے دن سے 90روز کے اندر اسمبلی کے انتخابات کرانا لازمی ہیں۔ایسا نہ کرنے کی صورت میں آئین شکنی ہو گی۔ آئین شکنی کی سزا بڑی سنگین ہے۔یہاں تک ہر بات سے سب اتفاق کرتے ہیں لیکن سیاسی ماہرین آگے ڈنڈی مار جاتے ہیں‘ ایسی ایسی اگر مگر نکالتے ہیں کہ سبحان اللہ۔فرض کر لیتے ہیں کہ عوام کی اکثریت اور آئین کی پابندی کو نظر انداز کر کے اس بات کو چن لیں کہ معاشی حالت خراب ہے‘ انتخابات کا خرچ بار بار برداشت نہیں کیا جا سکتا۔انتخابات اکتوبر نومبر کو کرا لیتے ہیں۔اس دوران مریم نواز شریف کی خواہش کے مطابق عمران خان گرفتار کر لئے جاتے ہیں۔قید میں عمران پر ہر وہ حربہ استعمال کیا جاتا ہے جو ان کے مخالفین چاہتے ہیں۔عمران خان کے بارے میں میڈیا خاموشی اختیار کر لیتا ہے۔عمران خان کے کچھ ساتھیوں کو دبائو ڈال کر الگ کر لیا جاتا ہے۔انتخابات میںپی ٹی آئی اتنی نشستیں نہیں لے پاتی کہ حکومت بنا سکے۔ مسلم لیگ ن یا پیپلز پارٹی کی حکومت بن جاتی ہے۔ہم ہر وہ امکان حقیقت مان لیتے ہیں جو عمران خان کے مخالفین کی خواہش ہے۔ سب کچھ ویسا ہی ہو جاتا ہے جیسا ’’ایک پیج‘‘ پر لکھا ہوا ہے۔لیکن اس سے کیا ہو گا۔ جمہوریت مضبوط ہو گی؟ عوام کا اعتماد بحال ہو سکے گا؟معیشت سنبھل جائے گی؟ سیاسی عدم استحکام ختم ہو جائے گا؟ آئین کی سماجی تشریح عوام کی منشا کو تسلیم کیا جانا ہے۔جب تک انتخابی عمل سے پہلے اگلی حکومت کا فیصلہ ہوتا رہے گا آئین کی بالادستی چیلنج ہوتی رہے گی۔جب تک جرم اور سیاست کو الگ الگ نہیں کیا جاتا عوام کو سچی جمہوریت نہیں مل سکے گی۔انتخابی نظام پر دھاندلی کے الزامات لگتے رہیں گے۔ پی ڈی ایم اتحاداپنے ہونے کا جواز کھو چکا ہے۔یہ 10ماہ کا اقتدار نہیں‘ 35سال کے اقتدار کا تسلسل ہے۔تجربے کا بت ٹوٹا پڑا ہے۔معیشت سنبھلی نہ جمہوری اقدار کی پاسداری نظر آئی۔ فرسٹریشن اس حد تک بڑھ رہی ہے کہ عام حالات میں پرسکون رہنے والے آصف علی زرداری بھی عمران خان کی مقبولیت کو طعنہ دے رہے ہیں۔ساری پی ڈی ایم دن رات عمران کو کوسنے دے رہی ہے‘ اسے ریاست دشمن قرار دینے کی کوشش کر رہی ہے لیکن ہر وار الٹ پڑ رہا ہے۔لوگ ان کی بات کا الٹ مطلب لے رہے ہیں۔یہ عمران کو ریاست دشمن کہتے ہیں لوگ ان کے کارنامے شمار کرنے لگتے ہیں زمان پارک ہو یا عدالت کا احاطہ عمران لوگوں کے حصار میں ہے۔حکومت کا فی زمانہ مطلب کسی دوسرے کا مشورہ نہ ماننے والی اتھارٹی ہے ۔ہم پھر بھی عاجزانہ مشورہ دتے ہیں کہ لوگوں کا نظام پر اعتبار مت توڑیں اس کا مطلب عوامی منشا کی خلاف ورزی سمجھی جائے گی۔