میر تقی میر اکبر آباد (آگرہ) میں پیدا ہوئے تھے، دِلّی میںشہرت پائی، یہیں سے اُجڑ کے لکھنو پہنچے تو احساس ہوا: دِلّی کہ ایک شہر تھا عالم میں انتخاب لیکن حالات و حلاوت و حقائق کی روشنی اور تقدیس و تکریم و تحریم کی گہرائی کی بنا پر ہمارے دل سے تسلسل کے ساتھ ہمیشہ ایک ہی آواز آتی رہی کہ: مکہ کہ ایک شہر ہے عالم میں انتخاب کئی ہزار سال قبل یہ شہر عقیدت و مؤدت کی کوکھ سے پھوٹا، تقدس کی فضاؤں میں پھلا پھولا، آج تک محبت و احترام کی خوشبو سے مہک اور چھلک رہا ہے۔ یہ دنیا کا واحد شہر ہے جس کی آباد کاری اور تا ابد بڑائی کا فیصلہ آسمانی حکم کے تحت کیا گیا، یہ وہ برکت بردار سرزمین ہے کہ جس میں خدا کے عظمت والے گھر کی تعمیر، نقشہ، قیام کا وقت، حتیٰ کہ معمار کا تعین بھی باری تعالیٰ کی منشا کے مطابق کیا گیا۔ میری سعادت یہ ہے کہ میرا زندگی میں دو دفعہ اس مقدس ترین تاریخی اور تعریفی شہر میں جانا ہوا۔ 2003ء میں والدہ محترمہ (جو 26اگست 2014ء کو مرحومہ ہوئیں) کے ہمراہ بسلسلہ عمرہ ستائیس دن یہاں قیام رہا۔ جب حرم پاک اور متبرک خانۂ خدا کے ساتھ ساتھ اس کے گلی کوچوں اور مضافات کا طواف کرنے کا بھی حسین اتفاق ہوا۔ یہ ایسی آوارگی تھی کہ جس کے دوران: مَیں نے آنکھوں میں بھر لیا اس کو کیسا رہنے کو گھر دیا اس کو پھر بیس سال کے وقفے کے بعد 2023ء میں حج کے سلسلے میں دس دن یہاں گزارنے کی سعادت نصیب ہوئی۔ ان دو دہائیوں میں نہ صرف اس شہرِ بامراد میں بہت سی تبدیلیاں رونما ہو چکی ہیں بلکہ ہماری محبت اور عقیدت میں بھی واضح تغیر و تبدل آیا ہے کہ پہلے سے کئی گُنا بڑھ گیا ہے۔ ویسے تو خدائے بزرگ و برتر ہر جگہ موجود ہے، نیت ہو تو ہر دل میں ڈھونڈا اور محسوس کیا جا سکتا ہے، ٹوٹا ہوا دل اس کا پسندیدہ ترین مسکن ہے لیکن یہاں تو اس نے پورے اہتمام اور احکام کے ساتھ اپنا ذاتی گھر بنوایا۔ کمال یہ کہ گھر بنانے کے لیے کسی وسائل خور بادشاہ کی ڈیوٹی نہیں لگائی، کسی ڈنکا بردار زمینی حاکم کو حکم نہیں کیا بلکہ اس کے لیے اپنے ایک عاجز، سر تا پا موحد اور احکامِ خداوندی کے آگے جان، مال، اولاد، خاندان، یہاں تک کہ بادشاہِ وقت کو بھی خاطر میں نہ لانے والے بندے کا انتخاب کیا۔ بنانے والے کی عظمت ملاحظہ ہو کہ نہ وسائل کی تفریط کا شکوہ کیا اور نہ مسائل کی افراط زبان پر لائے، نہ اچھے حالات آنے تک کی مہلت مانگی، نہ گھریلو ذمہ داریاں آڑے آئیں، نہ آبائی زمین پاؤں کی زنجیر بنی اور نہ سفری لوازمات کا بہانہ حائل ہوا۔ بس بچے کو کاندھوں پہ اور بیوی کو سر آنکھوں پر بٹھا کر عازمِ سفر ہو گئے۔ ایسی حاضر جنابی، فرماں برداری کی ایسی سرشاری دیکھ کر نوازنے والے نے بھی حد کر دی۔ رہتی دنیا تک کے لیے اس گھر کو سب سے بڑا مرکزِ نگاہ بنا دیا، جہاں بچے کی ایڑی گھومی، وہاں سے چشمے جاری کر دیے، بے چینی و بے تابی میں اُٹھے قدموں پہ سعی واجب کر دی گئی۔ سب سے بڑی عطا یہ کہ اپنے پیارے محبوب کو اسی شہر میں پیدا کیا۔ اس شہر کی ایک لفظ میں تعریف بیان کرنی ہو تو وہ ’توحید‘ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس شہر میں گزرا ایک ایک پل میرے نہاں خانۂ جاں پہ رقم ہے۔ 2003ء میں مَیں کتنا خوش قسمت تھا کہ ایک جنت میرے ساتھ تھی، ایک سامنے تھی۔ حرم کے قریب ترین واقع محلہ شامیہ میں ایک سادہ سے ہوٹل میں کمرہ مل گیا جہاں سانسوں میں بھی کعبہ کی فضاؤں کا تعطر بلا تعطل شامل رہتا۔ بیس سال بعد زائرین کی روز افزوں آمد کے پیشِ نظر حرم کی حدود، اُفقی و عمودی سمتوں میں وسعت اختیار کرتی چلی گئیں۔ مکہ پہنچتے ہی جس نادر و نایابنعمت کو دیکھ کے جسم و جاں سرشار و شاداب ہو جاتے ہیں، وہ ہر طرف میسر و موجود آبِ زم زم ہے۔ چاروں جانب زم زم دیکھا/بھوک پیاس کو کم کم دیکھا آنکھوں کو احرام اوڑھا کر/ہر منظر کو تھم تھم دیکھا ہونٹوں پہ تھا پیاس کا عالَم/پر آنکھوں کو نم نم دیکھا جب بھی طواف کا موقع آیا/کعبے کو پھر رَم رَم دیکھا رب کے گھر میں حاضر ہو کر/مست ماحول کو جم جم دیکھا اس شہرِ با مراد سے جو نعمت مجھے سب سے زیادہ میسر و مرغوب آئی، وہ یہی توحید کی دولت تھی، جس میں ہمارے ہاں ہر چیز کی طرح بہت ملاوٹ کی گئی ہے۔ اسی پہ کاربند رہنے کی قسم کھائیں تووہ اَحد ہر چیز سے بے نیاز کر دے۔ کاش ہم اسلام کے نام پہ بنے اس ملک میں اسی شہر کو اپنے لیے نمونہ بنا سکتے، جہاں دنیا بھر کے مسلمان رنگ و نسل و فرقہ و مرتبہ سے بلند ہو کر حاضر ہوتے ہیں۔ ہمارے خیانت اور کذب سے بھرے حکمران و کار پردازان، اپنے نبیؐ کی صادق اور امین ہونے کی سنت کو اپنا لیتے۔ یقین کریں مجھے تو ان زمینی بادشاہوں پہ بھی ترس آتا ہے جو یہاں آ کر عجز و انکسار کی بجائے ناز برداری کے طالب ہوتے ہیں۔ حج، عمرے کے انتظام و انصرام کے علاوہ عربوں کی جو خوبی سب سے زیادہ پسند آئی، وہ ان کی نماز کے سلسلے میں روا رکھی جانے والی باقاعدگی ہے، ہر نماز کو وہ پورے احترام و اہتمام کے ساتھ ادا کرتے ہیں۔ محلے کی مسجد اور ائیرپورٹ سے لے کے حرم تک نماز ہر بندے کی ترجیح میں شامل ہے۔ جماعت کا وقت ہو جائے تو وہ دنیا کا ہر دھندا طاق پہ رکھ دیتے ہیں، ہوٹلوں میں بھی جس فلور پہ نماز کا انتظام ہے، اسے ائیرکندیشننگ، قالین اور دل سے سجایا گیا ہے۔ ہر جگہ خواتین کے لیے نماز اور تلاوت کے برابر مواقع موجود ہیں۔ سب سے بڑی بات یہ کہ کہیںبھی رنگ، نسل، لباس، آواز، ٹخنوں، ہاتھوں کی اونچائی کو مشکوک نظروں سے نہیں دیکھا جاتا۔ ایک جماعت نکل جانے کے بعد دو لوگ بھی آ گئے تو وہ جماعت کے بغیر نماز ادا نہیں کرتے۔ ہماری بدبختی یہ کہ پچانوے فیصد مساجد میں دوسری جماعت کی اجازت نہیں، دوسرے فرقے والوںکے داخلے کی سخت ممانعت ہے، خواتین کے ساتھ یہاں بھی سوتیلوں والا سلوک ہے ۔ 2023ء میں ایک ستائیس منزلہ عالیشان ہوٹل کے اٹھارھویں فلور پر قیام تھا، جس میں کم از کم تیرہ گھنٹے ناشتے، ظہرانے اور عشائیے کا اہتمام رہتا۔ دنیا بھر کی تازہ ترین اشتہا انگیز اشیا اور لذیذ ڈشیں کھانے والوں کے لیے چشم و دل وا کیے رہتیں۔ہوٹل کی کھڑکی سے مکہ شہر کا نظارہ روح پرور تھا۔ اس سفر میں اب کے میرے ساتھ دو باجیاں، ایک بھاوج( کہ جنھیں حج عمرے کے معاملات اورآداب سبقاً سبقاً اور جزواً جزواً ازبر تھے) اور دو جاپان پلٹ نوجوان بھانجے حمزہ اولکھ اور طلحہ بسرا، اپنی نئی نویلی دلہنوں ڈاکٹر حرا گل اور ڈاکٹر راحمہ اولکھ کے ہمراہ موجود تھے۔ یہ بچے میرے ہاتھوں میں پلے بڑھے تھے، جنھیں کبھی مَیں پوچھا کرتا، پیارے بچو! کیوی کیا ہے؟ ٹی وی کیا ہے؟ اب جی میں آتا تھا کہ دریافت کروں: پیارے بچو! بی وی کیا ہے؟؟ (جاری)