یہ وقت پاکستان تحریک انصاف پر بہت بھاری ہے۔ آئے دن پریس کانفرنس ہوتی ہے اور کوئی ناں کوئی ایم این اے یا ایم پی اے پارٹی چھوڑنے کا اعلان کرتا ہے۔ کسی کسی دن تو کئی کئی پریس کانفرنسیں ہو جاتی ہیں۔ سندھ، کے پی کے ، پنجاب ہر جگہ سے پاکستان تحریک انصاف سے لاتعلقی اور سیاست سے علیحدگی کے اعلان ہوتے ہیں۔ پرویز خٹک چلے گئے، شیریں مزاری اور چوہدری فواد نے پاکستان تحریک انصاف سے علیحدگی کا اعلان کر دیا ہے۔ پنجاب کے سابق وزیر اعلی عثمان بزدار نے بھی پاکستان تحریک انصاف کو چھوڑ دیا۔ پنجاب سے رانا نذیر کو اپنے پہلے فیصلے پر افسوس ہوا۔رانا نذیر کسی دور میں پاکستان مسلم لیگ نواز کا حصہ تھے بعد میں وہ مشرف کے زیر سایہ چلے گئے۔ نواز شریف کی واپسی پر دوبارہ پاکستان مسلم لیگ نواز میں گئے اور 2018ء میں پاکستان تحریک انصاف کا حصہ بنے۔ اب ایک بار پھر پاکستان تحریک انصاف کو خیر باد کہہ دیا ہے۔اب وہ جس پارٹی کو جوائن کریں گے وہ وہی ہوگی جس کو پیا چاہے کیونکہ ان کا پرانا ریکارڈ بتاتا ہے وہ اس چھتری پر بیٹھتے ہیں جس چھتری کا رنگ جاندار ہوتا ہے۔ پاکستان کی سابقہ تاریخ ایسی بہت سی مثالوں سے بھری پڑی ہے۔بہت سے مواقع پر یہی کچھ ہوتا رہا ہے۔ایوب خان کے دور میں بہت سے سیاستدانوں پر پابندی تھی۔ بھٹو دور میں بلوچ سیاستدان اور اے این پی زیر عتاب تھی۔ضیا کے دور میں پیپلز پارٹی نشانے پر تھی۔دوسری جماعتوں پر بھی پابندی تھی۔ 1985ء کے الیکشن غیر جماعتی تھے ان میں ایک ایسی لاٹ سیاستدانوں کی آئی جو کسی پارٹی اور نظریہ سے وابستہ نہیں تھی۔ ان سب کا تعلق بر سر اقتدار پارٹی سے تھا۔ یہ لیڈران کبھی پاکستان مسلم لیگ نواز میں رہے کبھی پاکستان پیپلز پارٹی میں۔ اور کبھی کبھی کسی نئی پارٹی میں۔پاکستان مسلم لیگ ق اور پاکستان تحریک انصاف اس کی واضح مثالیں ہیں۔ اب تو لوگ اس بات کے اتنے عادی ہو چکے ہیں کہ وہ اس بات کی توقع کررہے ہیں کہ کسی دن عمران خان، شہباز شریف اور آصف زرداری میں سے کوئی یہ اعلان کر سکتا ہے کہ اس نے سیاست کو خیر باد کہہ دیا ہے۔ اب بہت سے لوگ پوچھ رہے ہیں پاکستان تحریک انصاف کا کیا ہو گا۔ جہاں تک پاکستان تحریک انصاف کی قیادت کا تعلق ہے وہ پہلے بھی خان کی ذات کے گرد گھومتی تھی اور اب بھی۔ پاکستان تحریک انصاف کا ووٹر ابھی تک اس سے جڑا ہوا ہے۔ووٹر کی اہمیت کیا ہے اس بات کا سب کو پتہ ہے۔مقبولیت اور قبولیت کے فرق کو سمجھنا ہوگا۔ ووٹ اس پارٹی کا زیادہ ہوتا ہے جو مقبول ہوتی ہے اور اقتدار اس کو ملتا ہے جو سب سے زیادہ قبول ہوتی ہے۔ پاکستان کے تجربہ کار سیاستدان اس بات کو سمجھ چکے ہیں کہ مقبولیت کوئی چیز نہیں قبولیت کا درجہ بڑا ہے۔ اس ایک سال میں جو حالات عوام کے ہوئے ہیں مقبولیت کی بنا پر حکمران اتحاد کبھی بھی الیکشن نہیں جیت سکتا مگر قبولیت کی بنا پر اگلے پانچ سال ان کے اقتدار کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔ پاکستان تحریک انصاف ایک وقت میں مقبول جماعت تھی۔پھر وہ قبول جماعت کے درجہ پر آگئی۔ اقتدارسے نکلنے کے بعد یہ جماعت بہت مقبول ہو گئی ہے۔پاکستان تحریک انصاف کی مقبولیت کی وجہ پاکستان تحریک انصاف کی کرکردگی نہیں ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کو مقبول بنانے میں اہم کردار موجودہ حکومت کا ہے۔ یہ حکومت ناں تو ڈالر کو روک سکی ناں مہنگائی کو۔اس وقت برآمدات ، درآمدات سب نیچے کی جانب رواں دواں ہے۔ صرف ڈالر اور مہنگائی اپنے پورے عروج پر ہیں۔ سارے ملک میں سڑکیں بن رہیں ہیں اور پہلا موقع ہے کہ عوام اس ترقی پر خوش نہیں ہیں۔عام آدمی کے حالات ایسے ہیں کہ وہ سفر کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ پاکستان تحریک انصاف آگے چل کر اپنے آپ کو قائم رکھ پاتی ہے یا نہیں۔یہ بہت سنجیدہ سوال ہے۔پاکستان کی سیاست موروثی ہے۔ اس میں باپ کے بعد بیٹا اور اور بڑے بھائی کے بعد چھوٹا بھائی۔پاکستان تحریک انصاف میں یہ سلسلہ نہیں ہے خان کی نااہلی کی صورت میں کون پارٹی کو چلائے گا یہ بھی سوال اپنی جگہ پر بہت اہم ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کی مقبولیت ملک سے زیادہ تارکین وطن میں ہے۔ ان کو ووٹ کا حق نہیں ہے۔ اب بہت سارے لوگ سمجھ گئے ہیں کہ یہ سیاستدان الیکٹرانگ ووٹنگ مشین اور سمندر پار پاکستانیوں کے ووٹ کے اصل مخالف کیوں تھے۔ 9 مئی کے واقعات نے مخالف قوتوں کو ایک نیا اور مضبوط بیانیہ فراہم کر دیا ہے۔ یہ بیانیہ عوام میں کس حد تک مقبول ہے اس کا پتہ آنے والے دنوں میں چلے گا۔ موجودہ دور صحافت کے لئے بھی بہت بھاری ہے۔جتنے صحافی اس حکومت میں گرفتار، جلاوطن اور غائب ہوئے ہیں اس کی مثال سابقہ ادوار میں نہیں ملتی ہے۔ شاید ضیا دور میں ایسا ہو۔ناقدین پر زمین تنگ ہونا تو عام بات تھی مگر اس بار بات اس سے کچھ آگے ہے۔تاریخ کا ایک سبق یہ ہے کہ اس سے کوئی سبق نہیں سیکھتا۔ ایران، روس، ترکی سب کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ انڈونیشیا کی تاریخ بھی ہمارے سامنے ہے جہاں ہزاروں لوگ حکومت مخالف خیالات کی وجہ سے جان سے گئے۔اپنے آپ کو عقل کل سمجھنا حکمرانوں کی پرانی عادت ہے اب زماں پارک میں بیٹھا تنہا شخصیہ بات سوچتا تو ہوگا کہ جس بزدار کی خاطر اس نے حکومت ، پارٹی ، سیاست سب داو پر لگا دیا اس بزدار نے اس کو چھوڑتے وقت ایک لمحہ بھی نہیں سوچا۔ اس شخص کا المیہ یہ ہے اس نے 20 سال پرانے کھرے سکے کھو کر نئے اور کھوٹے سکے حاصل کئے۔اب پتہ چلتا ہے فوزیہ قصوری بہتر آپشن تھی یا پرویز خٹک اور عثمان بزدار۔اب دیکھنے کی بات یہ ہے پاکستان تحریک انصاف کا ورکر کس طرف کا رخ کرتا ہے۔اس کا سامنا پہلی بار فیس بک، ٹوئٹر اور یو ٹیوب کے بجائے عملی سیاست سے پڑا ہے۔ اگر وہ اس امتحان میں کامیاب ہوتا ہے تو پاکستان تحریک انصاف کا مستقبل ہے ورنہ یہ تاریخ کی کہانی ہو گی۔