عبدالرشید نے کبھی اچھے دن دیکھے ہی نہیں۔اس نے جب سے ہوش سنبھالا ہے نہ زندگی اسے سمجھ سکی اور نہ ہی وہ زندگی کو سمجھ سکا اس نے ایسی زندگی دیکھی کہ بس پیٹ کا ایندھن بھرنے کے لیے اسے صبح سے شام مشقت کرنا پڑی۔ عبدالرشید نے ہوش سنبھالتے ہی زندگی کو اسی صورت میں دیکھا اس کا باپ بھی دیہاڑی دار تھا صبح سے رات گئے تک مشقت کرتا اور مشکل سے اپنے پانچ بچوں کا پیٹ بھرتا۔عبدالرشید کو بچپن کا کوئی ایسا دن یاد نہیں جب اس نے بڑے شوق سے پیٹ بھر کر کھانا کھایا ہو۔ہاں عیدوں پر ان کے گھر میں گوشت پکتا تھا ۔عبدالرشید کی ماں دوسروں کے گھروں میں کام کرتی تھی۔ اسے یاد ہے کہ وہ عید الاضحی پر جب لوگوں کے گھروں میں قربانی ہوتی تو اس کی ماں گھر میں نہیں بیٹھتی تھی۔انہوں نے کبھی عید الاضحی کا دن اس روز نہیں منایا تھا اس کی ماں تین دن لوگوں کے گھروں میں کام کرتی۔ گوشت اکٹھا کرتی اور پھر تین دن کے بعد اپنے بچوں سے کہتی کہ چلو جی اب ہمارے عید شروع ہوئی ہے۔عبدالرشید کے مزدور باپ نے اسے سرکاری سکول پڑھنے بھیجا تھا لیکن اس کا دل ہی نہیں لگا۔اس کے ہم جماعت بھرے ہوئے گھروں سے آتے۔ دو پہر کے کھانوں میں ان کے پاس گھی لگے پراٹھے ہوتے مگر سکول لنچ کے نام پر اس کے پاس کچھ بھی نہ ہوتا بس کبھی کبھار ماں سوتی پونے میں روٹی اور اچار باندھ دیتی تھی۔ عبدالرشید کا دل پڑھائی میں بھی نہ لگا بس چار جماعتیں پڑھی اور دل پڑھائی سے اچاٹ ہو گیا۔پھر اس کے باپ نے بڑے بھائیوں کی طرح عبدالرشید کو بھی اپنے ساتھ کام پہ لگا لیا۔وہ بھی مزدور بن گیا تھا اور صبح سے شام تک دیہاڑی کرتا اور زندگی کے حوالے سے بڑے بڑے خواب دیکھتا جنہیں کبھی تعبیر نہ مل سکی۔انہی حالات میں عبدالرشید کی شادی بھی ہوئی اور بچے بھی ہوئے، غربت کے گہوارے میں اس نے بھی جنم لیا اور اس کے بچوں نے اس تاریک غربت کی دلدل میں جنم لیا۔اس نے اپنے باپ کو اسی کولہو کے بیل کی طرح مشقت کرتے دیکھا اور اب وہ خود اسی مشقت کی چکی میں پس رہا تھا۔ وہ اپنی حسرتوں کے ملبے پر بیٹھا اب اپنے بچوں کی خواہشوں کو حسرتوں میں بدلتا ہوا دیکھتا ہے یہ دکھ اس کے وجود کو تیز آری کی طرح کاٹتا چلاتا ہے ۔وہ چند جماعتیں ہی پاس ہے لیکن ملک کے حالات میں وہ دلچسپی لیتا ہے وہ خبریں سنتا ہے کبھی کبھی اخبار بھی پڑھتا ہے اس کا خبریں اس نے سنا کہ پاکستان کے بڑے بڑے عہدوں پر بیٹھنے والوں کی تنخواہوں میں دو دو لاکھ کا اضافہ ہوا ہے وہ منہ ہی منہ میں بڑبڑا کر بولا دو لاکھ روپے۔۔۔وہ تو پورا سال بھی اپنی دیہاڑیاں جمع کرے تو دو لاکھ جمع نہیں ہوتے۔وہ ادھر ادھر کی خبریں سنتا ہے اور دل ہی دل میں رب سے شکوہ کرتا ہے اور رب سے شکوہ کرتے کرتے وہ پاکستان کے ارباب اختیار سے شکوہ کرنے لگتا ہے۔ اس کے ذہن میں پاکستان کے سارے حکمرانوں کے چہرے گھوم جاتے ہیں وہ بھی جو جمہوریت کے راستے سے آئے اور وہ بھی جنہوں نے خاکی وردی میں حکمرانی کی۔اسے خیال اتا ہے کہ اس ملک کے بڑے صاحبوں نے کبھی اس کے طبقے کے حالات اچھے کرنے کے بارے نہیں سوچا۔یہ جو بڑے اونچے دفتروں بڑے بڑے عہدوں پر بیٹھے ہوئے لوگ ہیں جو اس ملک کے فیصلے کرتے ہیں اور فیصلے کرواتے ہیں کیا اللہ میاں نے ان کے دلوں کی جگہ پتھر رکھ دئیے ہیں۔یہ اسی لیے اونچے عہدوں پر ہیں نا کہ ان پر میرے جیسے کروڑوں لوگوں کی ذمہ داری ہے۔پھر یہ لوگ کیوں نہیں میرے بارے میں سوچتے؟ عبدالرشید دل ہی دل میں سوال کرتا ہے اور اس کے جواب دیتا ہے لیکن اس کو جواب کا سرا نہیں ملتا۔وہ اپنے گھرآتا ہے وہی حسرتیں ہیں وہی خواب ہیں جو کبھی تعبیر تک نہیں پہنچتے!ایک خبر ہے جو آج اس کے اندر عجیب طوفان اٹھائے ہوئے ہے کہ کچھ بڑے صاحبوں کی تنخواہ میں ہزاروں کا نہیں لاکھوں کا اضافہ ہوا ہے ۔اس نے اپنی جیب میں پڑے ہوئے چند سو روپے کے مڑے تڑے نوٹ نکالے اور انہیں بغور دیکھا۔اسے خیال آیا کہ کسی روز اسے دہاڑی سے زیادہ چند ہزار بھی مل جاتے ہیں تو وہ اپنے اپ کو بہت خوش قسمت سمجھتا ہے۔یہ کیسا ملک ہے جہاں پر حکمرانی کرنے والے اپنی تنخواہوں میں اضافہ کرتے ہیں۔ وہ اپنے آسائشوںکے لیے ملک خزانے کا رخ اپنی طرف موڑ دیتے ہیں۔ کیوں اس ملک کے خزانے کا رخ عبدالرشید جیسے لوگوں کی زندگیوں کی طرف نہیں مڑتا ؟ قارئین یہ پاکستان کے کسی ایک شخص کی کہانی نہیں بلکہ عبدالرشید پاکستان کے کروڑوں عام آدمیوں کا نام ہے۔جو دیہاڑی کرتے ہیں۔ کارخانوں میں کام کرتے ہیں ،پرائیویٹ دفتروں میں کام کرتے ہیں۔ ان کی زندگیاں مہنگائی کے تیز رفتار ہولناک تھپڑوں میں ایسے ڈولتی ہیں جیسے رسی پر چلنے والا کوئی مداری ڈولتا ہے۔جو رسی پر چلتا رہتا ہے مگر اس دوران توازن کھو جانے اور گرنے کا خطرہ اس کے سر پر آسمان کی طرح تنا رہتا ہے۔ عبدالرشید ایک شخص نہیں بلکہ پاکستان کے کے کروڑوں عام آدمیوں کا علامتی استعارہ ہے، جو گزشتہ کئی سالوں سے پاکستان میں بدترین مہنگائی بھگت رہے ہیں لیکن ان کی آمدنیوں میں ایک روپے کا اضافہ نہیں ہوا۔ مقتدرہ ایوانوں میں بیٹھے ہوئے کوئی ایسا قانون نہیں بنا سکے کہ ا شیائے ضروریہ کی قیمتوں میں استحکام رہے مہنگائی قابو میں رہے اور بالفرض اگر مہنگائی بڑھے تو اس کے تناسب سے ہر کمانے والے کی تنخواہ میں اضافہ ہوجب کہ کروڑوں پاکستانی پرانی تنخواہوں پر مہنگائی کے تھپیڑے سہنے پر مجبورہیں اور ان حالات میں ریاست کے چند بڑے صاحبوں کی تنخواہوں اور مراعات میں لاکھوں روپے کا اضافہ ظلم نہیں تو کیا ہے ؟