مین روڈ پر جاتے ہوئے با ئیں طرف ایک بڑی گنجان آبادی ہے۔ جو راستہ آبادی کو جاتا ہے اس سے باہر سڑک کے دونوں طرف بہت سی دکانیں ہیں۔آبادی کے داخلی راستے کے کارنر پر ایک دودھ دہی کی دکان ہے۔میں عموماً اس دکان سے دہی لیتا ہوںکیونکہ اس کی دہی بہت صاف ستھری اور میٹھی ہوتی ہے۔ آج بھی مجھے دہی کی ضرورت تھی۔ میں نے دکان کے سامنے گاڑی روکی اور دہی کے لئے دکاندار کے پاس گیا۔ مگر دہی ختم ہو چکی تھی۔ دکاندار نے مجھے قریب ہی اندر آبادی میں جا کر وہاں سے دہی لانے کا کہا۔میں گلی میں پیدل چل دیا کہ ایک تنگ راستے پر گاڑی لے جانا جوئے شیرلانے سے کم نہ تھا۔آبادی میں تھوڑا آگے جا کر مجھے ایک دکان مل گئی۔بڑی صاف ستھری دکان تھی۔لمبی جس کے شروع میں دکان اور پچھلے حصے میں پکوان جاری تھا۔ چونکہ آگے دکان پر کوئی بیٹھا نہیں تھا۔میں سائیڈ سے سیڑھیاں چڑھ کر دکان کے اندر چلا گیا۔ ایک صوفہ بچھا تھا جس پر ایک پچپن ساٹھ سال کے صاحب براجمان تھے۔ رسمی سلام کے بعد میں نے دہی کا پوچھا۔جواب ملا مل جائے گی۔ ایک کلو دے دیں۔ اس نے مجھے بیٹھنے کا کہا اور بیٹے کو،جو قریب ہی دکان کے پچھلے حصے میں چولہا لئے بیٹھا تھا، کہا کہ بیٹا، بزرگوں کو ایک کلو دہی دے دو۔ بیٹا دکان کے پچھلے حصے میں بیٹھا ہنڈیا پکا رہا تھا۔ یہ روس اورچین کے دکانداروںجیسا کلچر ہے کہ دکاندار کی کل کائنات ایک دکان ہوتی ہے ۔ اسی میں کاروبار کرتے اور اسی میں سوتے اور رہائش پذیر ہوتے ہیں۔ایک الماری میں چند کپڑے اورمعمولی برتن وغیرہ رکھے ہوتے ہیں۔ اصل گھر کہیں گائوں میں ہوتا ہے ۔شہر میں علیحدہ گھر نہیں لیتے۔ دکان ہی میں رہ کر گزارہ کرتے ہیں۔سنکیانگ میں ایک پورا پلازہ روس کے تاجروں کی دکانوں پر مشتمل ہے ۔اس پلازے کی ہر دکان میں ایک روسی خاندان مقیم ہے۔ روسیوں کی دکانوں کے دروازے بھی زیادہ اونچے نہیں ہوتے۔ جھک کر اندر جانا پڑتا ہے اور اندر آگے دکان اور پیچھے مکمل گھر کا ماحول نظر آتا ہیِ۔چیزیں تو بہت کم ہوتی ہیں مگر دکاندار، اس کی بیوی اور بچے سبھی موجود ہوتے ہیں۔اگلے حصے میں کاروباری چیزیں بھری ہوتی ہیں۔ گاہک آئے تو گھر کا ایک آدھ فرد بڑھ کر اس کا استقبال کرتا اور اس سے ڈیل کرتا ہے۔میں اپنے اسی تجربے کو یاد کرتا اس دکان کے مالک کے پاس صوفے پربیٹھ کر دکان کا جائزہ لینے لگا۔ اتنے میں بچے نے دہی دی ، پیسے وصول کئے اور واپس جا کر ہنڈیا پکانے لگا۔ میں نے ساتھ بیٹھے ہوئے بزرگ سے سوال کیا کہ یہ بچہ آپ کا کیا لگتا ہے۔ کہنے لگے، بیٹا۔ میں نے کہا۔کہیں پڑھتا ہے۔کہنے لگے یہاں سے فرصت ہی نہیں ہوتی، کیا پڑھنا۔صبح جب سکول کا وقت ہوتا ہے، دکان پر ناشتہ کرنے والوں کا رش ہوتا ہے۔یہ بچہ کہیں جا نہیں سکتا۔مگر اس کی عمر بمشکل گیارہ یا بارہ سال ہو گی۔ یہ اس کے پڑھنے کے دن ہیں، اپنے ساتھیوں اور ہم عمروں کے ساتھ کھیلنے کے دن ہیں۔ آپ نے اس کا بچپن اس سے چھین لیا ہے ۔ آج کے دور میں پڑھائی بہت ضروری ہے جو یہ نہیں کر رہا، اس کی شخصیت نا مکمل رہے گی۔ یہ بڑا ہو کر سوچے گا کہ والدین نے اس پر ظلم اور زیادتی کی کہ اسے بچپن سے واقف ہی نہیں ہونے دیا۔ بزرگ ہنسنے لگا۔آپ جیسے پڑھے لکھے بڑے بندے یہاں آتے اور ایسی ہی باتیں کرتے ہیں۔ مجھے دیکھ لیں ساٹھ سال کا ہونے والا ہوں ،بچپن بھی مشقت میں گزرا اور آج بھی وہی مشقت میرا معمول ہے وقت فرصت ہی نہیں دیتا کہ سوچوں ، مجھے تو اپنے والدین سے کوئی گلہ نہیں بلکہ ان کا مشکور ہوں کہ انہوں نے اپنی عمر میری خوشیوں پر قربان کی۔بھائی کیسا بچپن اور کیسی جوانی۔ اصل مسئلہ بھوک کا ازالہ ہے۔ جس کے پاس پیسے ہیں اسے تعلیم جیسی ساری چیزیں نظر بھی آتی ہیں اور محسوس بھی ہوتی ہیں۔جو اس مہنگائی میں مشکل کاشکار ہیںان کی مشکلات کا کوئی دوسرا اندازہ ہی نہیں کر سکتا۔ ہم گھر کے اخراجات کے لئے ان آلام سے چھوٹیں تو کچھ سوچیں۔ میں بوڑھا آدمی ہوں ۔ مجھے کسی سہارے کی ضرورت ہے، اب میرے بیٹے سے بہتر کون میرا سہارا ہو سکتا ہے۔ہم مل جل کر رہتے، ایک دوسرے کا خیال کرتے اور یہ سوچ کر کہ اسی کمائی سے گھر کے دوسرے افراد کو بھی کماکر کھلانا ہے، پوری محنت کرتے ہیں۔ ہمارے لئے گھر کی بھوک ختم کرنا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ان آلام سے جان چھوٹے تو پڑھائی کا سوچیں گے۔ میرا بیٹا بڑا حساس ہے اسے پتہ ہے اس کی دو بہنیں اس سے بڑی ہیں۔ دو تین سالوں میں وہ شادی کی عمر کو پہنچ جائیں گی۔ان کی فکر مجھ سے زیادہ اس کو ہے۔اس کا ایک بھائی اور ایک بہن اس سے چھوٹے ہیں۔اس کے علاوہ چاروں بہن بھائی سکول جاتے ہیں۔ان کی فیسیں، ان کی کتابیں ان کا جیب خرچ سبھی اس دکان سے حاصل کرنا ہے۔جس کے لئے یہ بچہ مجھ سے زیادہ ذمہ داری کا مظاہرہ کرتا ہے۔میں اسے بھی سکول بھیج دوں تو اکیلے یہ دکان چلانا میرے بس کی بات نہیں۔ دکان پر روز پڑھے لکھے لوگ پند و نصیحت لئے آتے ہیں ۔ رنگ برنگے مشورے دیتے ہیں ۔ کوئی چارہ ساز کبھی نظر نہیں آیا۔کسی نے کوئی معقول حل کبھی نہیں بتایا۔شہروں کی صورت کچھ مختلف ہے مگر گائوں کے ہر گھر میں بچے مشقت نہ کریں تو گھر چل ہی نہیں سکتے۔ آپ نے اچھا مشورہ دیا، آپ کا شکریہ مگر یہ شہری مشورہ ہے۔ کبھی دیہاتوں کی زبوں حالی بھی جا کر دیکھیں آپ کو سمجھ آ جائے گی۔میں سوچنے لگا کہ شاید وہ صحیح کہتا ہے ۔ ہماری لہلہاتی فصلیں کسانوں اور ان کے گھر کے ایک ایک فرد کی محنت کا شاہکار ہیں۔ مشینی نظام سے ابھی ہم دور ہیں۔سب کام انسانی ہاتھ کرتے ہیں۔یہ گائوں کے لوگ اپنے بچوں کی تعلیم کی قربانی دے کر ہمیں راشن مہیا کرتے ہیں۔اس لئے جب تک دیہاتوں میں کوئی تبدیلی نہیں آتی ہماری شرح خواندگی جو پچھلے پندرہ سال سے ساٹھ فیصد ہی پر لٹکی ہوئی ہے بہتر نہیں ہو سکتی۔