پنجاب حکومت کو اللہ جزائے خیر دے کہ انہوں ے نے " شرائنز آف پنجاب " کے نام سے ایک مبسوط اور موثر پروگرام کے ذریعے خانقاہوں اور مزارات کے انفراسٹرکچر کو بہتر بنانے کے لیے ایک جامع لائحہ عمل مرتب کرلیا ہے۔ جس کے ذریعے ابتدائی طور پر پنجاب کے چار مزارات کی ماسٹر پلاننگ اور دس مزارات کی اَپ گریڈیشن شامل ہے۔ ہمارے قارئین جانتے ہیں کہ حضرت داتا گنج بخشؒ کے مزار سے اِن ترقیاتی کاموں کا آغاز تو ہو ہی چکا ہے۔جہاں مزار شریف کے برآمدوں کی توسیع جاری ہے۔ اس کے ساتھ جنوبی سمت میں 17.4 کنال اراضی،جو کہ بنیادی طور پر وقف لینڈ ہے، کو خانقاہ ِ معلی میں شامل کیا جانا مقصود ہے، حضرت داتا گنج بخشؒکے منظور نظر اور خلیفہ اعظم و آخر شیخ ہندی کے خانوادے کے افراد اس توسیع و تعمیر میں ہمیشہ کی طرح گورنمنٹ کے ساتھ " ایک پیج" پر ہیں، کمشنر لاہور محمد علی رندھاوا کی انتظامی سر پرستی فراواں ہے، اوقاف کا اسٹیٹ ونگ اور داتا دربار ایڈمنسٹریشن مستعد و متحرک، جس کے سبب یہ گراں قدر توسیع کاامکان روشن ھے، جبکہ غربی سمت لینڈ ایکوزیشن کے لیے کلکٹرلینڈ اور ان کا عملہ سرگرمِ عمل ہے، 45 کروڑ کی خطیررقم گورنمنٹ کیطرف سے ابتدائی طور پرجاری ھوچکی، اس ضمن میں متعلقہ ادارے اپنی اپنی سطح پر مسلسل اجلاس منعقد کر کے امور کو تیزی سے آگے بڑھانے کے لیے کوشاں ہیں، جو کہ ایک لائق تحسین اور باعث خیر امر ہے۔ علاوہ ازیں چار مزارات جن کی فزیبلٹی اور ماسٹر پلاننگ حتمی مرحلے میں ہے، ان میں دربار حضرت بابا بلھے شاہؒ قصور، دربار حضرت بابا فرید الدین مسعود گنج شکرؒ پاکپتن، دربار حضرت شاہ شمس سبزواریؒ ملتان اور دربار حضرت سیّد جلال الدین سرخ پوشؒ میر حیدر بخاری اوچ شریف شامل ہیں۔ وزیر اعلیٰ پنجاب کے ویژن کے مطابق ان مقاماتِ عالیہ کو زائرین کے لیے زیادہ سے زیادہ آسودگی و آسائش کا ذریعہ بنانے کے لیے ماہرین فکر و فن پر مشتمل ایک ورکنگ گروپ قائم ہے، جس میں اوقاف، خزانہ، سی اینڈ ڈبلیو، والڈ سٹی اتھارٹی، ضلعی انتظامیہ، انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ اتھارٹی، نیسپاک، بورڈ آف ریونیو، پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ بورڈ سمیت دیگر انتظامی اور تکنیکی ادارے شامل ہیں، برصغیر میں بخاری و نقوی سادات کا مرکز اوچ شریف، بارہویں صدی عیسوی میں، سیّد جلال الدین سرخ بخاریؒ کی علمی و دینی اور روحانی مساعی کے سبب، صرف برصغیر ہی نہیں بلکہ پورے بلادِ اسلامیہ میں معروف و معتبر ہوا، سیّد جلال الدین کا شجرہ نسب نو واسطوں سے امام علی نقی ہادی سے متصل ہوتا ہے،سادات نقوی الحسینی کا یہ اولین کارواں بخارہ سے نقل مکانی کرکے ، مشھد سے ہوتا ہوا سندھ کے ساحلوں پہ اترا۔ میرے لیے یہ امر وجہء سعادت ہوا کہ مجھے اپنے بلند تر اجداد کی اس عظیم خانقاہ کی تعمیر و توسیع کی سعادت کا موقع میسر ہوا، گزشتہ روز اوچ شریف کی حاضری کا اعزاز پایا، ایکسیئن ساؤتھ اور ایڈ منسٹریٹر اوقاف بہاولپور نے تکنیکی اور انتظامی معاونت فراہم کی۔ اوچ شریف صدیو ں سے طریقت و تصوف، علم و ادب اور تہذیب و تمدن کا مرکز ہوا۔ سلاطین کے عہد میں خصوصی اہمیت بالخصوص ناصر الدین قباچہ کے دور میں اس کو بہت زیادہ ترقی میسر ہوئی اور دہلی کا ہم پلہ اور مغربی پنجاب میں اشاعت ِ اسلام کا عظیم مرکز و سادات کرام کا اہم مسکن بنا، پانچ دریاؤ ں کے سنگم"پنجند" کی قربت اس کے لیے زرخیزی اور کبھی تباہ حالی کا باعث ہوئی۔ اوچ کے مزارات و مقابر "ورلڈ ہیرٹیج" کی فہرست میں بھی شامل ہیں۔قبل ازیں "ٹورسٹ ٹریل" کے نام سے ایک سکیم بھی تیار ہوئی، جس میں مدینہ السادات اوچ شریف کے سارے مزارات کی زیارت کا اہتمام موجود تھا، اوچ کا سارا قصبہ سادات نقوی و بخاری کے فیضان سے متصف ہے، جن میں سیّد جلال الدین بخاریؒ کے فرزند سیّد سلطان احمد کبیر اور آپؒ کے صاحبزادے سیّدمخدوم جہانیاں جہانگشت کے مقابرو مزارات قابلِ ذکر ہیں۔ جن کے ساتھ متصل مسجد حاجات اور وہ قدیم کنواں، جہاں حضرت بابا فرید الدین مسعود گنج شکرؒ کی عبادت و ریاضت کے نقش بھی جگمگا رہے ہیں، کے آثار موجود ہیں۔ مائی جوئندی کا مقبرہ سیاحوں کی توجہ کر مرکز رہتا ہے۔ از خود حضرت سیّد جلال الدین بخاریؒ کے مقبرہ کی موجودہ عمار ت پونے دو سو سال قبل نواب بہاول خان ثالث رئیس بہاولپور نے نہایت پائیدار اور دلا ویز طر زِ تعمیر میں آراستہ کرائی۔ ازاں بعد نواب صادق محمد خاں رابع نے اس کی مرمت، وسعت اور خوبصورتی کا اہتمام کیا اور مقبرہ کے دروازے پر یہ رباعی درج کروائی۔ یارب یہ رسالت رسول الثقلین یا رب بغزا کنندہ بدروحنین عصیاں مراد و حصہ کن در عرصات نیمے بہ حسن بخش و نیمے بہ حسین یعنی، اے پروردگار!رسول الثقلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رسالت کے صدقے، ا ے پروردگار غزوۂ بدرو حنین والے کے صدقے میدان ِ محشرمیں میرے گناہوں کو دو حصوں میں تقسیم کردے، آدھے کو حسن کے صدقے بخش دے اور آدھے کو حسین کے صدقے۔ اوچ شریف میں تبرکات مقدسہ کے بڑے نادر اور عظیم ذخائر ہیں، جن میں خانوادہ بخاریہ کے ساتھ خاندان گیلانیہ بھی معتبر مقام کا حامل ہے۔ اوچ بخاریہ کی اوچ گیلانیہ بھی معتبر حیثیت کاحامل ھے ، سید عبداللہ شاہ گیلانی المعروف بابابلھے شاہ اسی خانوادے کے فرد وحید اور اسی اوچ شریف سے قصور کی طرف مھاجرت فرما ہوئے۔ حضرت بابا بلھے شاہؒ کے مزار کی ماسٹر پلاننگ ویسے ہی پہلے نمبر پہ ہے۔ جن کا سالانہ عرس بھادوں میں ہوتا ہے، اب اگر بھادوں کا پتہ نہ چلے تو جان لیں کہ حبس اور گرمی کے یہ شدید اور کٹھن والے ایام، ساون اور بھادوں سے موسوم ہیں، جو کہ برصغیر کے قدیم بکرمی کیلنڈر کے مہینے ہیں، یوں آپؒکا سالانہ عرس 12،13،14 بھادوں بمطابق 27،26،25 اگست 2023ء کو ہوگا، امید ِ واثق آپ کے مزار شریف کی تعمیر و توسیع کے پراجیکٹ کا سنگ بنیاد عرس شریف کے موقع پر وزیر اعلیٰ پنجاب رکھیں گے۔ دربار کمپلیکس، از حد وقیع اور جامع ہے اوراس کے کنسلٹنٹ معروف ماہر تعمیرات نیر علی دادا، اس کے آرکیٹیکچر اور ڈیزائن میں بلھے شاہؒ کا اس سرزمین سے تعلق، پنجاب کے کلچر اور مقامی زبان و ادب میں اس کے رچاو، اہمیت و افادیت کو پیش نظر رکھے ھوئے ھیں،مزید یہ کہ صوفیاء کی محبت آمیزی، رواداری اور انسان دوستی، جس کی سوسائٹی اور معاشرے کوآج بہت ضرورت ہے، کا خصوصی رنگ نمایا ں کیا گیا ہے۔ حضرت بابا بلھے شاہ ؒ سترہویں صدی کے ممتاز صوفی بزرگ اور پنجابی ادبیات میں ایک مستقل حیثیت کے حامل ہیں، ان کا لب و لہجہ از حد موثر اور حسینی انگ اور آہنگ سے متصف ہے۔ ان کی فکرو دانش کو بلاتفریق رنگ و نسل اور مذہب و ملت پذیرائی میسر آئی، لیکن ان کی درگاہ ِ معلی ایسی ادارہ سازی سے محروم رہی، جہاں سے آپؒ کے فکر و فن کا ابلاغ ممکن ہوسکتا۔ چنانچہ اس پراجیکٹ میں لائبریری، سما ع ہال، ایمفی "Amphi"تھیٹر کو بطور خاص شامل کیا گیا، تاکہ وہ ادبی ، ثقافتی اور روحانی اقدار و روایات اورلوک ورثہ۔۔۔ جن سے محرومی کے سبب آج سوسائٹی تھوڑ پھوڑ کا شکار ہے، کو از سرنو زندہ اور تازہ کیا جائے۔ علاوہ ازیں لنگر، سیکیورٹی، صفائی، واش رومز، وضو خانے، سرائے پارکنگ، جنازگاہ، لینڈ سکیپ سمیت ضروری اجزاء شامل ہیں۔