اگر آپ جدید عرب کو دیکھیں تو صرف چند سال میں وہ تقریباً یوٹرن لے چکے ہیں۔ عرب بہار جس کا نام تھا وہ اس سے گزر چکے۔ تمام اہم عرب حکمران بڑے بولڈ فیصلے کر رہے ہیں انہیں نظر آرہا تھا کہ قدرتی وسائل پر آخر کب تک انحصار کیا جائے گا۔ دنیا ان سے جان چھڑا رہی ہے ایک وقت تھا ان کا دارومدار صرف معدنی وسائل پر ہی تھا۔ دولت کی ریل پیل تیل کی بدولت تھی مگر اب دوسرے ذرائع پر بھی تیزی سے کام جاری ہے ۔ سعودی عرب کو ہی دیکھ لیں ان کے موجودہ حکمران حیران کن طور پر جدت اپنا رہے ہیں۔ جدید شہر بن رہے ہیں ترقی کے نئے راستے دریافت ہورہے ہیں۔ صدیوں سے جاری نظریات کی جنگ بھی بدستور کاروباری رفاقت میں تبدیل ہو رہی ہے انہیں ایسے فیصلے کرنے میں کسی مزاحمت کا سامنا بھی نہیں کرنا پڑرہا۔ عرب قوم نے دل سے تسلیم کیا کہ ان کے مستقبل کے لئے یہی بہترین ہے سب سے پہلے دبئی نے چھلانگ لگائی تو اس وقت لوگ دانتوں میں انگلیاں لیکر کر توبہ کر رہے تھے اور آج ہر کوئی نہ صرف وہاں جارہا ہے بلکہ رہائش پذیر بھی ہے ۔ایک ہی گلی میں آمنے سامنے مسجد اور کلب عجیب منظر پیش کرتے ہیں نہ تو آپ کو کوئی مسجد جانے سے روکتا ہے اور نہ ہی کلب مندر یا گرجا گھر جانے سے۔ اگر آپ دبئی کے آسمان کی طرف دیکھیں تو آپ کو جہاز ہی جہاز نظر آئیں گے دنیا کے مصروف ترین ائیرپورٹس میں دبئی کے ایئرپورٹ کا بھی نام آتا ہے۔ اور ہمارے ہاں اسے قرب قیامت کے آثار سمجھا جاتا ہے اور یہی کچھ آپ کو اگلے چند سال میں جدہ ریاض ایئرپورٹس پر نظر آئے گا۔ یہی عرب ابھی کل ہی کی بات ہے کراچی میں کام کے لیے آتے تھے دنیا کی ترقی کا راز کیا ہے یا موجودہ عالم اسلام نے مادی ترقی کیسے حاصل کی کون کون سی رکاوٹیں انہوں نے عبور کیں کیسے نبٹے۔ کاش ہم سمجھ جائیں وہاں تو اسلام کو کوئی خطرہ نہیں ہوا یا فلاں کی سازش کامیاب نہیں ہوئی جو ہمارے ہاں ایسا ہوتا ہے پہلی بات کسی میں بھی اتنی جرات ہی نہیں کہ کوئی بات کرسکے اگر کردی تو فلاں کا ایجنٹ ہے فلاں کی سازش ہے کہہ کر فورا تاثر زائل کردیا جاتا ہے۔ آج بھی عالم اسلام میں سعودی عرب کو مرکزیت حاصل ہے اور اگر وہ تبدیل ہو رہا ہے تو ہمیں کیا مسئلہ ہے۔ ذرا ٹھنڈے دماغ سے آنے والی نسلوں کا سوچیں غور تو کریں اس وقت ملک کہاں کھڑا ہے اور کیسے خوفناک مسائل میں الجھ چکا ہے۔ ہمیں کسی سے خطرہ نہیں اگر ہے تو معاشی تباہی سے ہے۔ سعودیہ اور ایران کے آپس میں موجودہ رویے کو ہی دیکھ لیں دنیا کیساتھ چلنا ہوگا ورنہ ہم تنہا رہ جائیں گے بلکہ ہو چکے ہیں۔ پچھلی نصف دہائی سے کتنی سرمایہ کاری آئی ہمارے ملک میں یقین جانئے کچھ بھی نہیں تو ہم آگے کیسے بڑھیں گے بہت ہوگئی ضد انا پرستی فرقہ بندی برادری ازم سیاسی تقسیم افسر شاہی یہ سب سپیڈ بریکرز ہیں۔ جو ہمیں ہٹانے ہوں گے مقصد اولین ملک کی ترقی ہونا چاہیے سب کو پتہ ہے ہم کیوں پیچھے رہ گئے۔ آج ہمیں تو قرض دینے والا ہونا چاہیے تھا کیسی افسوسناک صورتحال ہے ہم آئی ایم ایف کے کیسے کیسے ناز نخرے اٹھا رہے ہیں کوئی خود داری ہوتی ہے۔ یہ نوبت کیوں آئی پتہ سب کو ہے مگر اس کا تدارک کرنے سے ہر کوئی راہ فرار ڈھونڈتا ہے۔76 سال سے عارضی حل ہی ہو رہے ہیں خدارا کوئی مستقل حل کریں ۔زخم گہرا ہے سنی پلاسٹ نہ لگائیں اس کا مستقل علاج کریں بھلے آپریشن کرنا پڑے ۔گزشتہ روز آرمی چیف کی باتیں جو انہوں نے زراعت اور ملکی ترقی کے لیے کی ہیں بڑی اہم اور وقت کی ضرورت ہیں کون نہیں چاہتا کہ ملک ترقی کرے آج الیکشن کروا دیں گے تو کیا نتیجہ نکلے گا۔ اتحادی حکومت کوئی ایک جماعت بھی واضح اکثریت حاصل کرنے کی سکت ہی نہیں رکھتی تو بھلا استحکام کیسے آئے گا بولڈ فیصلے کیسے ہوںگے سابقہ روایات کے عین مطابق ایک یا دو پارٹیاں اسے تسلیم نہیں کریں گی اور اتحادی حکومت تو ویسے ہی خسارے کا سودا ہے۔ چند سیٹوں والی جماعت بڑی جماعتوں کو سرعام بلیک میل کر رہی ہوتی ہے۔ آئے دن ان کے مطالبات آج واقعی ملک نازک دور سے گزر رہا ہے پہلے پہل کام چل جاتا تھا مگر اب تو ممکن ہی نہیں رہا یہاں ہر کسی کے پاس صرف دعوے ہی ہیں غریب آدمی تو گیا اس کی زندگی تو حسرتوں کی عادی ہو چکی۔ اب تو سفید پوش چیخ رہا ہے۔ مسئلہ یہ نہیں کہ زرداری نواز شریف یا عمران خان آ جائے بدقسمتی یہ ہے کہ خود ہی ایک دوسرے کو چلنے نہیں دیتے ہر طرف رکاوٹیں مصلحتیں کمزوریاں تو پھر کیسے آگے بڑھیں گے۔ آنکھوں کے سامنے دنیا کہاں سے کہاں چلی گئی۔ دقیانوسیت نہیں تو اور کیا ہے ڈر کیا ہے کا کیا ہم نے ٹھیکہ اٹھا رکھا ہے دنیا بھر کے مسائل کا ہمارے اپنے مسائل ناسور بن چکے یہ نہ ہوجائے وہ نہ ہوجائے کیسا حفظ ماتقدم ہے۔ جس نے ہماری منزل ہی اوجھل کردی کیا ہم اندر سے کھوکھلے نہیں ہوچکے اس سیارے پر ہمیں تنہائی کیوں نہیں محسوس ہوتی اور کتنی نسلیں ہم برباد کریں گے۔ ترقی یافتہ ہونا کوئی جرم ہے کب تک صبر تسلیم و رضا پر قوم چلے گی کب تک بس کچھ دیر بس تیل نکل آیا تانبا نکل آیا معجزات کے متلاشی خوابوں کو حقیقت کا روپ دینے والے بھی منزلوں تک کبھی پہنچے ہیں؟ ایک سراب ہے جس کے پیچھے دوڑے ہی چلے جا رہے ہیں فیصلے قوم نے کرنے ہیں لیڈران نے یا کسی اور نے ہم ایک آزاد خودمختار ملک ہیں۔ ہمیں آگے بڑھنے کے لیے دنیا کے ساتھ چلنے کے لیے اب صرف ناگوار فیصلے ہی کرنے پڑیں گے چاہے کچھ بھی ہو جائے۔