بحیثیت قوم ہم کھاٹے کے سودے کو تسلیم کرنے پر مجبور ہیں، کوئی ہے جو عام پاکستانی کی امید کو جلا بخشے، کوئی ایسا نہیں جو قوم کو مایوسی سے باہر نکال سکے، کم ازکم قائم ہونے والی وفاقی حکومت سے عوام کو ایسی کوئی توقع نہیں، وجہ اس کی زبان زد عام ہے، مسند اقتدار پر بیٹھے کسی "دیدہ ور" کے پاس کوئی ایجنڈا تک نہیں، ایسے میں انجام گلستاں کیا ہوگا؟ عام آدمی اس کی سب سے خوب تشریح کر رہا ہے، 8 فروری کے انتخابات تاحال متنازعہ قرار پا رہے ہیں، مخصوص نشستوں پر اپنایا گیا طریقہ کار اور اسمبلی کے ہر اجلاس سے اٹھنے والا طوفان متعدد ایسے سوالات کو جنم دیتا ہے، جن کا پوچھنا تک دشوار ہے، بڑے بڑے سیاسی پنڈت اپنی جگہ عام آدمی کہتا سنائی دیتا ہے کہ موجودہ حکومت اپنی مدت پوری نہیں کر سکتی اور نہ ہی ملک سے معاشی و اقتصادی بدحالی کے خاتمے کا خواب شرمندہ تعبیر ہوسکتا ہے، شہباز شریف وزیر اعظم منتخب ہوئے تو اسمبلی میں اپنے خطاب کے دوران ملک و ملت کی ترقی کی خاطر ایک بات بھی نہیں کی، پھر عوامی صفوں سے وہ طوفان اٹھا کہ اگلے ہی روز معاشی اصلاحات کے عنوان سے ہنگامی اجلاس کے انعقاد کی تشہیر شروع ہوگئی، سوال ہے کہ کیا ایسا کرنے سے ہماری حالت زار بہتر ہوسکے گی؟ عوام ایسے حربوں کے مزید جھانسے میں آنے کو تیار نہیں، درحقیقت 8 فروری کے انتخابات سے وابستہ عوامی خوابوں کی تکمیل اس انداز میں ممکن نہیں کہ اول و آخر مطمع نظر فقط کسی کا راستہ روکنا ہو موجودہ وفاقی کابینہ میں کہا جا رہا ہے کہ اسحاق ڈار وزارت خزانہ کا قلمندان حاصل کرنے کے خواہاں نہیں جبکہ وزیر اعظم شہباز شریف اور ان کی ٹیم اسحاق ڈار کے پی ڈی ایم پارٹ ون حکومت کے دوران آئی ایم ایف سے کیے معاہدوں کی خوب تعریف و توصیف کرنے میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ یا پرہیز کرنے کا تکلف تک گوارہ نہیں کر رہی، گویا انھیں اس بات کا خمار ضرور ہے کہ یہ قوم کے مینڈیٹ کے حقیقی نمائندہ نہیں۔ لہذا انھیں عوامی احساسات سے کوئی غرض نہیں ہے، ان حالات میں معاشی و اقتصادی محاذ پر جو چومکھی کشمکش جاری ہے معذرت کے ساتھ اس تلخ حقیقت کو تسلیم کرنا ہوگا کہ حکومت اپنی قیام سے قبل ہی عوامی اعتماد کھو چکی ہے اور اس کی بہت بڑی وجہ عوام کے مینڈیٹ کو تسلیم نہ کرنا ہے، مادر وطن کی ساری کی ساری تاریخ اس امر کی گواہ ہے کہ عوامی اعتماد سے جب بھی کوئی حکومت محروم ہوئی، آخر کار اس کا جانا ٹھہر گیا، ن لیگ وفاق اور پنجاب میں اگر اسی طرح عوامی اعتماد اور پیپلز پارٹی کے بغیر تن تنہا سارا بوجھ اٹھانے پر بضد رہی تو آئندہ ن لیگ کی سیاست کے غبارے سے پوری کی پوری ہوا نکل جائیگی لیکن اقتدار کے اس کھیل میں ملک و ملت کے نقصان کا ازالہ ایک دشوار گزار مرحلہ بن کر رہ جائیگا اور تاریخ کبھی موجودہ حکمرانوں کو معاف نہیں کریگی، قوم کا سوال بجا ہے کہ ایسے انتخابات کا کیا حاصل جب جمہور کی حاکمیت کو تسلیم نہیں کیا جانا۔ ظاہر ہے جب خبریں گردش میں ہوں کہ آئی ایم ایف سے حکومت نئے معاہدے کے مراحل کو کامیابی سے عبور کر لے گی اور آئی ایم ایف کی شرائط پر متواتر بجلی، گیس اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا رہے گا، ایسے میں عوام کا غم و غصّے سے لبریز ہونا نہ صرف فطری عمل ہے بلکہ ان کا حق ہے، تاہم حکومت نے معشیت کی بحالی کیلئے اپنے اقدامات کا تاثر قائم کرنے کیلئے چند اقدامات اٹھانے شروع کیے ہیں، جیسے بتایا گیا کہ وزیراعظم نے پی آئی اے کی نجکاری پر عملدرآمد کے لیے حتمی شیڈول طلب کرلیا ہے، اس تناظر میں وزیراعظم شہباز شریف کا کہنا ہے کہ لاپراوہی برداشت نہیں کی جائے گی، شفافیت کو یقینی بنایا جائے۔ وزیراعظم نے ایف بی آر کی آٹومیشن کے نظام کے مجوزہ روڈ میپ کی منظوری بھی دیدی ہے اور متعلقہ اجلاس میں عالمی معیار کے مطابق ڈھانچہ جاتی اصلاحات ٹیکس میں اضافے کا جائزہ لیا گیا ہے۔کرپشن و اسمگلنگ کے خاتمے، ان لینڈ ریونیو اور کسٹم کے شعبے الگ کرنے پر بھی غور کیا گیا ہے، اسی اجلاس میں وزیراعظم کو بریفنگ دی گئی کہ ٹیکس ٹو جی ڈی پی پاکستان میں دنیا بھر کے مقابلے میں کم محض 9.5 فیصد ہے، انھیں کوئی سمجھائے کہ ٹیکس ٹو جی ڈی پی میں اضافہ اشرافیہ کو بھاری بھرکم مراعات کے خاتمے کے بغیر ممکن نہیں، عوام پر ڈائریکٹ اور ان ڈائریکٹ ٹیکسز کی بھرمار نے عالمی مالیاتی اداروں کو بھی کہنے پر مجبور کر رکھا ہے کہ پاکستان میں اکنامک انفراسٹرکچر غیر حقیقی بنیادوں پر رواں دواں ہے جہاں غریب امیر کا پیٹ بھرنے میں مصروف ہے، موجودہ دور انفارمیشن ٹیکنالوجی کا دور ہے جہاں ہمیں خود کو حقیقت پسند بنانا ہوگا مگر حکمران طبقہ ماضی کی طرح آج بھی اپنی ڈگر سے ہٹنے کو تیار نہیں۔ایف بی آئی کے مسائل اور اس صورت میں ٹیکس نیٹ ورک اور ٹیکس کولیکشنز میں اضافہ نہ ہونے کی وجوہات سے کیا حکمران واقف نہیں؟ یقیناً وہ سب جانتے ہیں مگر افسوس انھیں نتائج سے زیادہ سیاسی تاثر اور اشرافیہ کیساتھ حکمران اشرافیہ کے مفادات عزیز ہیں، جس نے آج ملک اور اس کی معیشت کو اس نہج پر پہنچا دیا ہے جدھر مڈل کلاس طبقہ دم توڑتا جا رہا ہے، پی آئی اے کی نجکاری شائد معشیت کے بحران کا حل نہیں، حل پی آئی اے جیسے اداروں سے سیاسی مداخلت کا خاتمہ ہے، بصورت دیگر نجکاری بھی ایک حل ہوسکتا ہے، چیلنج سیاسی مافیا کا راج ہے لیکن افسوس کیا کہیں؛ سیاسی خانوادوں کے شوق پورے نہیں ہو پا رہے، عوام کا سوچنے کی فرصت کس کو ہے؟ وزیراعلیٰ پنجاب مخترمہ مریم نواز فرماتی ہیں: پنجاب کو معاشی حب بنانا میرا خواب ہے، کابینہ میں فارن کوالیفائیڈ، کچھ تجربہ کار لوگ شامل کئے ہیں، بیرونی سرمایہ کاروں کو ٹیکس فری زون بنا کردیں گے، یہ میرا خواب ہے جسے ہر صورت پورا کریں گے، عوام پوچھتے ہیں: ہمارے خواب کا کیا؟