سابق نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ اور مسلم لیگ (ن) کے رہنما حنیف عباسی کے درمیان اسلام آباد کے نجی ہوٹل میں تلخ کلامی ہوئی ، حنیف عباسی نے انوار الحق کاکڑ کو کہا کہ قسم کھا تا ہوں تم چور ہو ، تم نے گندم سکینڈل میں پیسے کھائے ہیں ، جواب میں انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ اگر میں نے فارم 47کی بات کی تو آپ اور (ن) لیگ والے منہ چھپاتے پھریں گے۔ الزام اور جوابی الزامات سے ثابت ہوا کہ دونوں کا دامن صاف نہیں ،سابق نگران وزیر اعظم کی فارم 47کے حوالے سے بات دراصل جرم کا اعتراف ہے مگر یہاں کسی کا کچھ نہیں ہوتا، صرف غریب مارے جاتے ہیں ، کسی کو معلوم ہی نہیں کہ سرائیکی وسیب جو کہ ملک کی مجموعی زرعی پیداوار کا 70 فیصد مہیا کرتا ہے آج اس کا کسان کس قدر کنگال اور بے حال ہو چکا ہے، لوگ غربت، تنگدستی اور بیروزگاری سے خودکشیاں کر رہے ہیں ، چند دن پہلے علی پور میں سات بیٹوں اور بیوی کو مار دیا ، واقعے کی تحقیقات ہوئی تو صرف ایک بات سامنے آئی کہ غربت اور تنگدستی سے تنگ آ کر مجرم نے اتنا بڑا سفاکانہ قدم اٹھایا۔ آج کا کسان بدحال ہے، مزدور تنگ ہیں تو اس کی یہی وجوہات ہیں کہ کرپٹ مافیاز کسان کو دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہے ہیں ۔ آخر کیا وجہ ہے کہ قرض لے کر گندم اگانے والے مقروض کسان بہترین فصل ادھار پر اونے پونے بیچنے پر مجبور ہیں ، فلور ملوں کی چاندی ہوگئی ہے جو کہ کسانوں کی مجبوری کا فائدہ اٹھا رہی ہیں، وفاقی حکومت نے گندم کی امدادی قیمت 3900 روپے فی من مقرر کی جب کہ فلور ملوں نے 2800 سے 3300 روپے فی من میں خریدنا شروع کر رکھی ہے ۔ گندم اتنی سستی ہونے کے باوجود فلور ملز تین ماہ بعد کی ادائیگیوں پر گندم خرید رہی ہیں، ٹرک کے ٹرک گندم اتارے جارہے ہیں۔ کسانوں کا کہنا ہے کہ منڈیاں گندم سے بھری ہوئی ہیں لیکن حکومت خرید نہیں رہی، گندم نقصان میں فروخت کرنے کی نوبت آچکی ہے۔ پنجاب حکومت نے نہ گندم خریداری کا ہدف مقرر کیا اور نہ ہی خریداری شروع کی ہے۔ ملتان میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے پاکستان کسان اتحاد کے چیئرمین خالد کھوکھر کا کہنا تھا کہ 10 مئی کو ملتان سے احتجاج شروع کر رہے ہیں، احتجاج میں کاشت کار، ٹریکٹر اور جانوروں کے ساتھ شریک ہوں گے، احتجاج میں زراعت کی علامتی نماز جنازہ پڑھیں گے اور لاہور پہنچ کر قل خوانی کریں گے۔ کسانوں نے یوریا پر 150 ارب روپے زائد ادا کیا ہے، آج بھی یوریا بلیک میں فروخت ہو رہی ہے، گندم کے رقبے پر دو بڑی فصلیں آنی ہیں، ایک کپاس اور دوسرا چاول، کسان کے پاس پیسے نہیں ہوں گے تو وہ اگلی فصلوں پر کیسے اخراجات کرے گا؟ گندم کے اسکینڈل نے کسان کو بد حال کر کے رکھ دیا ہے، ابھی تک ذمہ داروں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔ کہا جا رہا ہے کہ سیکرٹری کابینہ ڈویڑن اور سیکرٹری خوراک نے گندم درآمد کی ابتدائی تحقیقات سے وزیراعظم کو آگاہ کر دیا ہے، نگران حکومت میں یکم ستمبر 2023ء کو سمری وزیر اعظم ہائوس بھیجی گئی اور 4 ستمبر 2023ء کو نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ نے بطور فوڈ سکیورٹی وزیر سمری کی منظوری دی۔ رپورٹ کے مطابق اگست 2023ء سے مارچ 2024ء تک 330 ارب روپے کی گندم درآمد کی گئی، 13 لاکھ میٹرک ٹن گندم میں کیڑے پائے گئے، موجودہ حکومت میں 80 ارب روپے کی7 لاکھ میٹرک ٹن گندم پاکستان پہنچی، مجموعی طور پر گندم کی درآمد کیلئے ایک ارب 10 کروڑ ڈالر بیرون ملک گئے۔ گندم درآمد سکینڈل کی ابتدائی رپورٹ میں جو انکشافات سامنے آئے ہیں، ان کے مطابق نجی شعبے کو گندم درآمد کرنے کی کھلی چھوٹ دی گئی، اضافی گندم درآمد کی گئی جس سے معاشی لحاظ سے غیرمستحکم ہوئے پاکستان کو 300 ارب روپے سے زائد کا نقصان ہوا۔ ایک طرف 1.1 ارب ڈالر قرض کیلئے آئی ایم ایف کے منت ترلے کئے جا رہے اور اس کی ناروا کڑی شرائط عوام پر مسلط کی جارہی ہیں اور دوسری جانب ملک میں گندم کی وافر پیداوار کے باوجود ایک ارب ڈالر کی ناقص گندم درآمد کرلی گئی، رپورٹ میں یہ بھی انکشاف ہوا کہ گندم کی درآمد پر کسٹم ڈیوٹی اور جی ایس ٹی کی چھوٹ بھی دی گئی جس سے بادی النظر میں نگران حکومت کا گندم درآمد کا فیصلہ بدنیتی پر مبنی نظر آتا ہے۔ یہ کوئی معمولی نہیں بہت بڑا سکینڈل ہے، غریب کسان مارے گئے ہیں ، پہلے بھی کسان سے سستی گندم خرید کر کے مافیاز گندم افغانستان اور دیگر علاقوں میں مہنگے داموں فروخت کرتے رہے ہیں۔ کسان کی بدحالی کی حالت دیکھنی ہو تو سرائیکی وسیب کا رخ کیجئے، لوگ گندم کی فصل کو آگ لگا کر احتجاج کر رہے ہیں۔ بھارتی پنجاب میں کھاد نصف سے بھی کم قیمت پر فروخت ہو رہی ہے ، زرعی ادویات، بیج ، زرعی آلات ٹریکٹر وغیرہ سب سستے ہیں ، وہاں کسان کو بجلی مفت فراہم کی جاتی ہے، وہاں کسان کو ریلیف اور سبسڈی ملتی ہے مگر ہمارے ہاں غریب کسان کے صرف کپڑے نہیں اتارے جاتے بلکہ چمڑی بھی ادھیڑ لی جاتی ہے ، ظلم کے اس نظام کو ختم کرنا ہوگا، اس کے سوا اصلاح و احوال ممکن ہی نہیں۔ بے شک نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ صفایاں پیش کرتے پھرے مگر گندم کی درآمدمیں ہونیوالی بے ضابطگیوں کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا، اس لئے اس کی جامع تحقیقات ضروری ہے تاکہ اصل مجرموں کو قانون کے کٹہرے میں لا کر سخت سے سخت سزا دی جائے۔ ٭٭٭٭