گزشتہ ڈیڑھ سال سے پنجاب کی تقریباً ساری جامعات مستقل وائس چانسلرز کی تعیناتی کی منتظر ہیں۔ سابق نگراں وزیراعلیٰ پنجاب سید محسن نقوی کے دورِ حکومت میں جامعات میں مستقل وائس چانسلرز تعینات کرنے کا عمل شروع ہوتے ہی رک گیا تھا کیونکہ ایکٹنگ وائس چانسلرز نے اپنے کچھ ہرکاروں کے کاندھوں پر بندوق رکھ کر چلوا دی اور عدالتِ عالیہ کے ذریعے مستقل وائس چانسلرز کی تعیناتی کا عمل رکوادیا۔ نگراں حکومت مدت ِ ملازمت پوری کرنے کے بعد چلی گئی۔ آٹھ فروری کے جنرل الیکشن کے بعد پنجاب میں تاریخ کی پہلی خاتون وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف صاحبہ برسرِ اقتدار آئیں تو حلف لینے سے شاید ایک دن قبل انہوں نے سیکرٹری ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کو ہدایات جاری کردیں کہ فوراََ سے پہلے مستقل وائس چانسلرز تعینات کرنے کا عمل شروع کردیا جائے۔ ایک لمحے کو یوں محسوس ہونے لگا کہ محض ایک ماہ کے اندر اندر مستقل وائس چانسلرز تعینات ہوجائیں گے۔ پھر عدالتی حکم ِ امتناع کا جواز بنا کر یہ عمل رکا رہا اور اس حد تک رکا رہا اب تین ماہ کے بعد گزشتہ پنجاب کیبنٹ کی میٹنگ میں ایک ایجنڈہ رکھا گیا جس میں پنجاب کی اٹھائس سرکاری جامعات کے وائس چانسلرز تعینات کرنے کاعمل شروع کرنے کا کہا گیا۔ سرچ کمیٹیوں کی تشکیل پر مختلف حلقوں سے اعتراض ہونے کے باوجود یہ عمل سست روی کا شکار ہے۔ حالانکہ اگر مریم نواز شریف یہ عمل تیزی سے مکمل کرتیں تو اتنی بڑی تعداد میں مستقل وائس چانسلرز کی تعیناتی اور چار سالہ مدت ِ ملازمت پوری ہونے کے بعد مریم نواز شریف ہی وہ وزیراعلیٰ ہوتیں، جو اگلے چار سال کے لئے دوبارہ وائس چانسلر تعینات کرتیں۔ مگر اب یوں محسوس ہورہا ہے کہ اگر یہ عمل مزید تین سے چار ماہ سست روی کا شکار رہا تو شاید موجودہ وزیراعلیٰ پنجاب اپنی پانچ سالہ مدت پوری کرنے پر دوسری بار وائس چانسلر تعینات نہ کرپائیں۔ شاید کچھ حلقے بھی یہی چاہتے ہیں کہ وہ دوبارہ وائس چانسلرز تعینات نہ کرپائیں۔ اگرچہ مریم نواز شریف صاحبہ نے کم مدت میں وہ پروجیکٹس شروع کیے ہیں جن کی ان کے ناقد بھی تعریف کرنے پر مجبور ہیں۔ ائیر ایمبولینس، لڑکیوں کے لئے سکوٹیز ، کینسر ہسپتال کا افتتاح وغیرہ۔ مگر کچھ حلقوں نے مریم نواز شریف کو براہِ راست یا بلاواسطہ ہائر ایجوکیشن کی طرف تیز توجہ مبذول کرانے سے باز رکھا ہے۔ ہائر ایجوکیشن ہی وہ سیکٹر ہے جہاں سے اعلیٰ دماغ پیدا ہوتے ہیں۔ جہاں سے علم کی نئی جہتیں شروع ہوتی ہیں۔ جہاں سے زندگی کو سنوارنے کی جستجو پیدا ہوتی ہے۔ مگر علم کی وہ راہداریاں ہی خاموش ہوجائیں، ان راہداریوں میں سکوت چادر تان کر سوجائے تو ہائر ایجوکیشن کی زبوں حالی نوشتہ ِ دیوار ہے۔ عارضی وائس چانسلرز کی تعیناتی قانون کے مطابق عارضی ہی ہوتی ہے۔ مختلف جامعات کے ایکٹس (قوانین) کے مطابق عارضی وائس چانسلرز محض روز مرہ کے امور ہی چلانے کے قانونی طور ر پابند ہوتے ہیں۔سپریم کورٹ آف اکستان کے فیصلوں کے مطابق عارضی اور ایکٹنگ وائس چانسلر ز سلیکشن بورڈز، سنڈیکیٹ کا انعقاد اورترقیاتی کاموں کی منظور ی نہیں دے سکتے اور نہ ہی پاور ایکسرسائز کرسکتے ہیں مگر چونکہ عارضی وائس چانسلرز اور جامعات کے اندر سیاسی دھڑوں کے یہ بات علم میں تھی کہ نگراں حکومت کے دور میں سیاہ کو سفید اور سفید کو سیاہ کرنا ان کے دائرہ اختیار میں ہے۔ انہیں یقین ہو چلا تھا کہ وہ جو کچھ بھی کریں گے ان کی پوچھ گچھ کرنے والا کوئی نہیں ہوگا۔ اِس سوچ نے سرکاری جامعات میں بدترین بلکہ سیاہ ترین سیاست کا آغاز کیا ہے۔ تعلیمی، مالی اور انتظامی معاملات کی بدحالی کا اندازہ اِس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ چند جامعات اپنے ملازمین کو تنخواہ دینے سے قاصر ہیں مگر عارضی وائس چانسلرز کے سیاسی دھڑوں کے افراد جن اعلیٰ عہدوں پر تعینات ہوئے ان کے محض ٹی اے ڈی اے ، فیول اور دیگر مراعات کا آڈٹ کرایا جائے تو رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ ابھی شنید ہے کہ یہ عارضی وائس چانسلرز بھرتیوں کا عمل بھی شروع کرنے لگے ہیں اور حکومتی عہدیداران کو مختلف حلقوں سے یقین دلا رہے ہیں کہ ’ہم آپ کی خدمت کے لئے حاضر ہیں، اس لئے مستقل وائس چانسلرز کی تعیناتی کا عمل کھٹائی میں ڈال دیا جائے، یعنی ایک ہونہار اور محنتی وزیراعلیٰ کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کا عمل شروع کیا جارہا ہے۔ کچھ یار لوگ کہہ رہے ہیں کہ حکومت پنجاب اس امر پر پوری سنجیدگی سے سوچ رہی ہے کہ عارضی وائس چانسلرز کے دور کا پرفارمنس آڈٹ کرایا جائے اور اندازہ لگایا جائے کہ ان کے دورِ اقتدار میں تعلیمی، مالی اور انتظامی امور مستقل وائس چانسلر ز کے دور سے بہتر ہوئے یا بدترین سطح کوچھونے لگے ہیں۔ اگر یہ عمل شروع ہورہا ہے تو ایک اچھی روایت ہوگی۔ اس سے کم از کم یہ تو ممکن ہوسکے گا کہ ہر وائس چانسلر کو اس بات کا ادراک ہوگا کہ وہ حکومت ِ وقت کو جوابدہ ہے۔ ویسے بھی ملکی معاشی حالات کو مد ِ نظر رکھتے ہوئے سر چ کمیٹیوں کو امیدواران سے پوچھنا چاہئے کہ وہ مالی معاملات کو کس منظم طریقے سے چلانے کا عزم رکھتے ہیں، ان کی مالی منصوبہ بندی کیا ہوگی، اور وہ کن امور کو ترجیح دیں گے جس سے سرکاری جامعات خود کفیل ہوں؟ کیونکہ ترقی یافتہ ممالک میں سرکاری جامعات قومی اور بین الاقوامی اداروں سے فنڈنگ حاصل کرتی ہیں، تحقیق کرتی ہیں اور معاشرتی، معاشی، سماجی، ثقافتی اور سائنسی مسائل کا حل پیش کرتی ہیں۔ (جاری ہے)