ابھی ایک دن پہلے ہی ایک دوست نے اپنے مقبول یوٹیوب چینل پر مجھ سے سعودیہ سرمایہ کاری کے مختلف پہلووں پر رائے لی۔سب سے اہم سوال یہ اٹھ رہا ہے کہ آخر یورپ، امریکہ، افریقہ اور جنوب مشرقی ایشیا کے ممالک کیوں پاکستان میں سرمایہ کاری نہیں کر رہے اور سعودیہ ایسا کیوں کر رہا ہے۔ ایک سوال یہ تھا کہ کیا چین کی طرح سعودی منصوبوں کو بھی سکیورٹی کے چیلنج لاحق ہوں گے۔بلوچستان میں کارپوریٹ فارمنگ اور آئل ریفائنری کا جیو پولیٹکس سے کیا تعلق ہو سکتا ہے؟ اور بھی سوال اہم تھے جن پر اچھی گفتگو آگے بڑھی۔پاک سعودیہ تعلقات کا آغاز کس بنیاد پر ہوا، دونوں کے مشترکہ مفادات کب ترتیب پائے اور پھر سٹریٹجک پارٹنر شپ کب بنی ، اس پر بات کرنے سے پہلے اپنے قارئین کی خدمت میں کچھ سامنے کی باتیں دوبارہ پیش کرتا ہوں جو سعودیہ سے آنے والے حالیہ سرمایہ کاری وفد کی موجودگی میں ہم اور آپ کر رہے ہیں۔ درجنوں سرمایہ کاروں پر مشتمل ایک اہم سعودی وفد سرمایہ کاری کے مواقع تلاش کرنے کے لیے تین روزہ دورے پر اسلام آباد پہنچا۔ پاکستان کا مقصد سعودی کمپنیوں کے ساتھ مل کر اپنی برآمدات کو بڑھانے کے لیے غیر ملکی سرمایہ کاروں کو خوش کرنا ہے۔ سعودی نائب وزیر سرمایہ کاری ابراہیم المبارک کی قیادت میں وفد کا نور خان ایئربیس پر وزیر تجارت جام کمال اور وزیر پیٹرولیم مصدق ملک نے استقبال کیا۔وزیر تجارت کے مطابق اس دورے کا مقصد دونوں ممالک کے سرمایہ کاروں کے درمیان تجارتی روابط کو بڑھانا اور قومی معیشت کے مختلف شعبوں میں تجارت اور سرمایہ کاری کے مواقع کی نشاندہی کرنا ہے۔انہوں نے کہا کہ وزارت نے سعودی سرمایہ کاروں کے ساتھ بزنس ٹو بزنس (B2B) ملاقاتوں کے لیے متعدد پاکستانی کمپنیوں کا انتخاب کیا اور انکشاف کیا کہ "سرکردہ" پاکستانی کمپنیاں مختلف شعبوں میں کم از کم 30 سعودی کمپنیوں کے ساتھ معاملات کریں گی۔ملاقاتوں کے دوران مقامی کمپنیوں نے سعودی دوستوں کو اپنے کاروبار اور سرمایہ کاری کی تجاویز پیش کیں۔B2B اجلاسوں میں زراعت، کان کنی، انسانی وسائل، توانائی، کیمیکلز اور میری ٹائم جیسے شعبوں پر توجہ دی جائے گی۔ بات چیت میں آئی ٹی، مذہبی سیاحت، ٹیلی کام، ایوی ایشن، تعمیرات، پانی اور بجلی کی پیداوار سمیت دیگر شعبوں میں سرمایہ کاری کے امکانات کا بھی احاطہ کیا گیا۔ سعودی عرب تیل پر مبنی معیشت ہے اور بڑی اقتصادی سرگرمیوں پر حکومت کا مضبوط کنٹرول ہے۔ تاہم، اب یہ وژن 2030 کے تحت تیل پر انحصار کم کرنے، آمدنی کے ذرائع کو متنوع بنانے اور مسابقت کو بڑھانے کے لیے ایک تبدیلی سے گزر رہا ہے۔فی الحال مملکت سعودیہ کی بڑی برآمدات میں معدنی ایندھن، معدنی تیل، پلاسٹک اور نامیاتی کیمیکل شامل ہیں جب کہ یہ مشینری، گاڑیاں اور زرعی مصنوعات کی درآمد کر رہی ہے۔ رواں مالی سال کی پہلی ششماہی کے دوران پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان دوطرفہ تجارت 248 ملین ڈالر سے زائد ریکارڈ کی گئی جس میں پاکستان کی برآمدات 262.58 ملین ڈالر اور سعودی عرب کی برآمدات 2.219 بلین ڈالر تھیں۔ پاکستان سعودی عرب کو بڑی مقدار میں چاول، مویشیوں کا گوشت، پھل ، سبزیاں ، خیمے اور کیمپنگ کا سامان بھیجتا ہے۔ سعودی سرمایہ کار پاکستان میں مختلف شعبوں میں سرمایہ کاری میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ کانفرنس کے افتتاحی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے ملک کو برآمدات میں فروغ کی طرف لے جانے کے لیے نجی شعبے کو مکمل سہولت فراہم کرنے کے عزم کا اظہار کیا۔انہوں نے کہا کہ حکومت مختلف شعبوں کی بہتری کے لیے براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری لانے پر توجہ دے رہی ہے۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ گنے، چاول اور گندم سمیت بمپر فصلوں کی وجہ سے زراعت کی جی ڈی پی 5 فیصد کی شرح سے بڑھ رہی ہے۔اس امید افزا صورتحال میں ماہرین کو یقین ہے کہ رواں مالی سال کے دوران ملک کا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ ایک ارب ڈالر سے کم رہے گا۔حکومت کا کہنا ہے کہ ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر بڑھ کر 9 سے 10 بلین ڈالر تک پہنچ چکے ہیں، گزشتہ 10 ماہ کے دوران مقامی کرنسی مستحکم ہے جبکہ افراط زر تقریباً 17 فیصد تک کم ہے۔ پاکستان سٹاک مارکیٹ میں بھی غیر ملکی سرمایہ کاری آرہی ہے۔ پاکستان میکرو اکنامک استحکام اورانفراسٹرکچر اصلاحات کے لیے آئی ایم ایف کے ساتھ ایک وسیع تر اور طویل پروگرام کا خواہاں ہے۔ آئی ایم ایف کا مشن اگلے سات سے دس دنوں میں پاکستان میں آنے والا ہے تاکہ نئے پروگرام کی شکل پر بات چیت کی جا سکے۔سعودی وفد کے ساتھ ٹھوس بات چیت سے آئی ایم ایف کو پیش کئے جانے والے ڈیٹا میں بہتر امکانات آ سکتے ہیں۔ پاکستان میں سعودی سرمایہ کاری کے تحفظ کی بابت میں سمجھتا ہوں کہ اس کے لئے چین سے الگ ماڈل بنانا ہو گا۔چین کو کئی شکایات ہیں۔سعودی سرمایہ کاری آئی تو بلوچستان میں دہشت گردی کو قوم پرستی کی جگہ فرقہ وارانہ شکل میں ڈھالنے کی کوشش کی جا سکتی ہے۔اس سلسلے میں پاکستان کے سکیورٹی اداروں کو چوکس رہنے کی ضرورت ہے۔بلوچستان میں کون کون گڑ بڑ کر رہا ہے اداروں کے علم میں ہے، ان شر پسند عناصر کے بین الاقوامی ہینڈلروں کے ساتھ سفارتی رابطے بہتر کرنا ہوں گے۔ پاکستان کو چاہئے کہ سعودی سرمایہ کاری ایسے شعبوں میں کرائے جہاں سے دولت پیدا ہو۔ پاکستان ایک ایسا ملک ہے جس میں بے پناہ صلاحیت ہے۔ یہ ایک بڑھتی ہوئی مارکیٹ ہے ۔ سرمایہ کاری کے مواقع تلاش کرنے والی غیر ملکی کمپنیوں کو پاکستان کی یہ حیثیت نظر انداز نہیں کرنی چاہیے۔ پچیس کروڑ کے لگ بھگ افراد کے ساتھ، پاکستان دنیا کا چھٹا سب سے زیادہ آبادی والا ملک ہے جو اسے ہر قسم کے کاروبار کے لیے ایک پرکشش مارکیٹ بناتا ہے۔ پاکستان میں سوشل میڈیا اور موبائل کنکشنوں کا ڈیٹا نمایاں اور بڑھتی ہوئی آن لائن موجودگی کو ظاہر کرتا ہے، جو کاروباروں کو ڈیجیٹل پلیٹ فارمز کے ذریعے صارفین سے منسلک ہونے کا بہترین موقع فراہم کرتا ہے۔ 2023 کے اوائل میں، پاکستان میں 36.63 ملین ایکٹو سوشل میڈیا صارفین تھے، جن میں فیس بک، انسٹاگرام، اور ٹک ٹاک سب سے زیادہ مقبول پلیٹ فارمز میں شامل تھے۔ یہ کاروباری اداروں کے لیے اپنی مصنوعات اور خدمات کی تشہیر کرنے اور متنوع صارفین کے لیے اشیامارکیٹ کرنے کا ایک بہترین موقع فراہم کرتا ہے۔ سعودی سرمایہ کاری وفد کی آمد کو مفید شکل میں ڈھالنا ایک چیلنج ہو گا ، بہتر ہو گا کہ حکومت بیورو کریسی کو ان سے دور رکھے اور تمام معاملات سپیشل انوسٹمنٹ فیسلی ٹیشن کونسل کے ذریعے آگے بڑھائے۔ ٭٭٭٭٭