فلسطینی حریت پسند گروپ حماس نے ثالثوں کی طرف سے غزہ میں جنگ بندی کی تجویز پر اتفاق کیا ہے۔حماس نے جنگ بندی معاہدے میں قیدیوں کی رہائی و تبادلہ، غزہ کی تعمیر نو سمیت متعدد مطالبات شامل کئے ہیں۔فلسطین کے صدر اور ترکی نے حماس کی رضامندی کا خیر مقدم کیا ہے لیکن اسرائیل کی ہٹ دھرمی قائم نظر آتی ہے۔اسرائیل کا کہنا ہے کہ معاہدے کی شرائط اس کے مطالبات کو پورا نہیں کرتیں اور معاہدے پر بات چیت جاری رکھنے کی منصوبہ بندی کرتے ہوئے رفح میں حملے جاری رہیں گے ۔سات ماہ سے جاری جنگ میں تازہ پیش رفت اس وقت ہوئی جب اسرائیلی افواج نے غزہ کے جنوبی کنارے پر واقع رفح پر فضائی اور زمینی حملہ کیا اور رہائشیوں کو شہر کے کچھ حصوں کو چھوڑنے کا حکم دیا۔رفح دس لاکھ سے زائد بے گھر فلسطینیوں کی پناہ گاہ ہے۔حماس نے ایک مختصر بیان میں کہا کہ اس کے سربراہ اسماعیل ہنیہ نے قطری اور مصری ثالثوں کو آگاہ کیا ہے کہ گروپ نے جنگ بندی کی ان کی تجویز کو قبول کر لیا ہے۔اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کے دفتر نے بعد میں کہا کہ جنگ بندی کی تجویز اسرائیل کے مطالبات کے مطابق نہیں تھی لیکن اسرائیل ایک وفد بھیجے گا جو مذاکرات کاروں سے ملاقات کرے گا تاکہ کسی معاہدے تک پہنچنے کی کوشش کی جا سکے۔قطر کی وزارت خارجہ کے مطابق اس کا وفد اسرائیل اور حماس کے درمیان بالواسطہ مذاکرات دوبارہ شروع کرنے کے لیے قاہرہ جا رہا ہے۔ نیتن یاہو کے دفتر نے مزید کہا کہ ان کی جنگی کابینہ نے رفح میں آپریشن جاری رکھنے کی منظوری دی ہے۔ اردن کے وزیر خارجہ ایمن سفادی نے ایکس پر کہا کہ نیتن یاہو رفح پر بمباری کرکے جنگ بندی کو خطرے میں ڈال رہے ہیں۔ اسرائیل سمجھتا ہے کہ حماس نے جو تجویز منظور کی ہے وہ مصر کی پیشکش کا ورژن ہے اور اس میں ایسے عناصر شامل ہیں جنہیں اسرائیل قبول نہیں کر سکتا۔دوسری طرف اسرائیلی فوج نے غزہ اور مصر کے درمیان اہم سرحدی گزرگاہ رفح کا کنٹرول سنبھال لیا ہے ۔حماس کا کہنا ہے کہ اس نے قطری اور مصری ثالثوں کو مطلع کر دیا ہے کہ اس نے اسرائیل کے ساتھ غزہ کی نئی جنگ بندی اور یرغمالیوں کی رہائی کے معاہدے کی ان کی تجویز کو قبول کر لیا ہے۔فلسطینی گروپ کا کہنا ہے کہ گیند اب اسرائیل کے کورٹ میں ہے۔رفح پر اسرائیل کا حملہ اس کی ہٹ دھرمی کی علامت ہے ۔اسرائیل کے اتحادی ممالک کے لئے بھی یہ رویہ درست نہیں سمجھا جا رہا ۔خیال کیا جاتا ہے کہ دسیوں ہزار رہائشی اس آپریشن سے متاثر ہوئے ہیں اور بہت سے لوگوں کو گاڑیوں میں سوار ہوتے دیکھا گیا ہے۔حماس نے رفح کے مشرقی علاقوں سے انخلاء کے حکم کو خطرناک پیشقدمی قرار دیا ہے۔ مبصرین کا خیال ہے کہ حماس اپنی مسلح جدوجہد کے خاتمے پر غور کر رہی ہے،مجوزہ جنگ بندی معاہدے کے مطابق اندازہ ہے کہ یہ دو مرحلوں پر مشتمل جنگ بندی کے معاہدے پر اختتام پذیر ہوگا، جس کا ہر مرحلہ 42 دن تک جاری رہے گا۔پہلے مرحلے میں اسرائیلی جیلوں میں قید 50 فلسطینی قیدیوں کے بدلے میں یرغمال بنائی گئی خواتین اسرائیلی فوجیوں کی رہائی شامل ہے، جن میں سے کچھ عمر قید کی سزا کاٹ رہی ہیں۔اس دوران اسرائیلی فوجی غزہ میں موجود رہیں گے۔ لیکن جنگ بندی کے نافذ ہونے کے 11 دنوں کے اندر، اسرائیل علاقے کے مرکزی حصے میں اپنی فوجی تنصیبات کو ختم کرنا شروع کر دے گا اور صلاح الدین روڈ و ساحلی سڑک سے پیچھے ہٹ جائے گا۔ حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہ کا کہنا ہے کہ گروپ اب بھی ایک جامع جنگ بندی تک پہنچنے کا خواہاں ہے جو اسرائیلی جارحیت کو ختم کرے، اسرائیل کے غزہ سے انخلاء کی ضمانت دے اور فلسطینی قیدیوں کی رہائی کے بدلے اسرائیلی قیدیوں کی رہائی کے لیے سنجیدہ معاہدہ کرے۔ وہ نیتن یاہو پر جارحیت کے جاری رہنے اور تنازعات کے دائرے کو وسعت دینے اور ثالثوں اور مختلف فریقوں کے ذریعے کی جانے والی کوششوں کو سبوتاژ کرنے کا بھی الزام لگاتے ہیں۔یہ جنگ صرف غزہ تک محدود نہیں، 7 اکتوبر کو حماس کے اسرائیل پر حملے کے بعد سے لبنان پر اسرائیلی حملوں میں حزب اللہ کے 250 سے زائد ارکان اور 75 عام شہری ہلاک ہو چکے ہیں۔ اسرائیلی ذرائع کا کہنا ہے کہ اسرائیل میں لبنان سے آنے والے میزائل فائر کے نتیجے میں ایک درجن کے قریب اسرائیلی فوجی اور متعدد شہری ہلاک ہو ئے ہیں۔غزہ کی وزارت صحت کے مطابق، اسرائیل کے حملوں میں 34,600 سے زائد فلسطینی شہید اور 77,000 سے زیادہ زخمی ہوئے۔جنگ اگر جاری رہتی ہے تو فلسطینی شہریوں کی اموات بڑھ سکتی ہیں، اسرائیل خطے کے دوسرے ممالک تک جنگ پھیلا سکتا ہے اور مشرق وسطیٰ کی کشیدگی عالمی طاقتوں کو مزید رسوا کر سکتی ہے۔ اقوام متحدہ ، امریکہ اور اسرائیل کو نقد و اسلحہ کی صورت میں مدد فراہم کرنے والے ممالک کی ذمہ داری ہے کہ وہ غزہ میں فلسطینیوں کے قتل عام کو رکوائیں۔اقوام متحدہ کا بنیادی حقوق کا چارٹر، ریاستوں کے باہمی تعلقات کے بین الاقوامی قانون ، تحریک حریت کا حق سمیت کتنی ہی عالمی دستاویزات فلسطینیوں پر اسرائیلی مظالم روکنے کا کہتی ہیں ۔آج فلسطینیوں کو نہ بچایا گیا تو وہ وقت دور نہیں جب کوئی دوسری قوم دراز دست ظالم کا نشانہ بن کر عالمی امن کو جھنجوڑتی نظر آئی گی۔