ہم کتنے بدقسمت ہیں کہ وقت کے اس تنہا سفر میں کوئی بھی ایسا شخص نہیں جو ہماری ہمت بندھا سکے۔ رہبری کرسکے ،جو بتا سکے کہ ہم اس سیاسی اخلاقی اور معاشی بحران سے کیسے نکلیں ۔ وہ کون سی آفت ، کون سا بانچھ پن تھا جو 24کروڑ لوگوں کے ریوڑ پر اترا اور ہم نے ایسے لوگوں کو میر کارواں بنا لیا۔ ورنہ اس خطے میں کیا کمی تھی یہاں قائد اعظم تھے، بات انگریزی میں کرتے اور سننے والے اردو تک سے نابلد تھے لیکن ایک ایک شخص اٹھ کر گواہی دیتا کہ یہ شخص جو کچھ کہہ رہا ہے وہ دنیا کا سب سے بڑا سچ ہے۔ لیاقت علی خان تھے جب آخری سانس لی تو جیب میں چند روپے اور اچکن کے نیچے پھٹی ہوئی بنیان تھی۔ اخلاص ایمانداری اور ذہانت کے مرقع چودھری محمد علی تھے ۔محمد علی بوگرا تھے۔ حسین شہید سہروردی تھے۔ جن کی وطن سے محبت کسی بھی شک و شبے سے بالاتر تھی۔ یہاں سردار عبدالرب نشتر تھے جن کے بچے گورنر ہائوس سے سکول پیدل آتے جاتے تھے۔ میں نے تمام اخبارات چھان ڈالے میں ٹی وی چینلز کے تمام خبروں کے بلیٹن اور ٹاک شوز میں دانشوری کے تمام مظاہرے دیکھ لئے ہیں۔ سوشل میڈیا اور ڈیجیٹل ایپ پر تصاویر خبروں تبصروں کی بھر مار آنکھ جھپکائے بغیر ذہن میں پیوست ہو گئے ہیں لیکن لوگوں کی آنکھ کی محرومی اور ہونٹوں پر مہنگائی کے شکوے کوئی دیکھ نہیں رہا ،کوئی سن نہیں رہا ۔وہ دکھ جو آنکھوں میں بچھا ہوا ہے کوئی لکھ نہیں رہا ۔کرپشن لوٹ کھسوٹ اور ہیرا پھیری کی اس سرزمین پر افلاس اور غربت غریبوں کا لہو چوس رہے ہیں۔ فاقے برداشت کی بنیادیں ہلا رہے ہیں، محرومی اور بیماری گریب کے لہجے کی شوخی چرا لی ہے۔ برسوں کی بے روزگاری نے اس کی آنکھوں کی چمک ویرانی میں بدل دی ہے۔ وقت ریت کی طرح پھسلتا جا رہا ہے اور ہم وقت اور حالات کی غلام گردشوں میں پھنستے جا رہے ہیں اسی سناٹے اور مایوسی میں اآرمی چیف جنرل عاصم منیر نے نئے جذبے اور امنگ سے قوم کو نئی امید دلائی ہے۔ان کی باتوں سے محسوس ہو رہا ہے کہ وہ فیصلہ کن انداز میں کچھ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں وہ حوصلہ دے رہے ہیں جی ہاں کہ قوموں کی زندگی میں اس سے برے وقت بھی گزرے ہیں انہوں نے سرمایہ کاروں اور بزنس کمیونٹی کے چیدہ نمائندگان سے خطاب میں ان کی بھی سنی اور اپنی بھی سنائی۔ سپہ سالار نے دو ٹوک انداز میں اعلان کیا کہ پاکستان میں مختلف شعبوں میں سرمایہ کاری کے لئے نہ صرف سازگار فضا پیدا کی جائے گی بلکہ سرمایہ کاروں کو ہر ممکن سہولتیں فراہم کرنے کے ساتھ اس پالیسی کو تسلسل میں پاک فوج کا کلیدی کردار رہے گا اور فوج اس حوالے سے ان تمام اقدامات کی ضامن ہو گی ان کے عزم سے ظاہر ہو رہا ہے کہ وہ معیشت بچائو پاکستان بچائو جیسے مائنڈ سیٹ کی خود قیادت کر رہے ہیں۔ انہوں نے قوم کو یہ ڈھارس دی کہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات 25-25بلین ڈالر کی سرمایہ کاری پاکستان میں کرنے پر آمادہ ہیں ساتھ ساتھ قطر اور بحرین نے کارپوریٹ فارمنگ، کانکنی اور کئی دوسرے شعبوں میں سرمایہ کاری کرنے میں اپنی دلچسپی کا اظہار کیا ہے جنرل عاصم منیر نے چین کی جانب سے پاکستان کی معیشت کو دوبارہ توانا کرنے کے لئے اس تعاون کا ذکر بھی کیا اور یہ بات پورے یقین سے کہی کہ چین نے کہا ہے کہ حالات خواہ کتنے ہی دگرگوں کیوں نہ ہوں چین پاکستان کو کسی قیمت پر ڈیفالٹ نہیں ہونے دے گا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان میں معاشی صورتحال کو بہتر کرنے کے لئے آرمی چیف کو متحرک ہونا پڑا۔ نگران حکومت کوئی بھی ایسا کام نہیں کر سکی جس سے عوام کا دل جیتا جا سکے۔ پہلے ہی مہنگائی سے بے حال ہمدردی کے مستحق عوام پر جس طرح بجلی کے بل‘بجلی بن کر گرے ہیں اور اس پر طرہ یہ کہ وزیر اعظم قوم کو حقیقت احوال سے آگاہ کرتے۔ کہ یہ آفت کیوں اور کیسے نازل ہوئی انہوں نے تسلی دینے کے بجائے جھانسہ دینے کی کوشش کی ۔پہلے 36سے 48گھنٹے میں کسی ریلیف کی نوید سنائی پھر صورتحال سے آگاہی کے بعد اپنی بات سے پیچھے ہٹ گئے۔ بلوں کی قسط وار ادائیگی کا دوسرا تیر چلایا۔ پھر اس سہولت کی فراہمی سے بھی سٹپٹا کر دو قدم پیچھے ہٹ گئے۔ان لمحات میں وزیر خزانہ شمشاد اختر صاحبہ نے یہ بیان داغ کر ڈوبتی نائو میں ایک اور سوراخ کر دیا کہ انہیں اندازہ ہی نہ تھا کہ معاشی صورتحال اتنی دگرگوں ہے۔ مناسب ہوم ورک کے بغیر حماقتوں پر مبنی بیانات نے جو فضا پیدا کی اس کے نتیجے میں اسٹاک ایکسچینج کریش کر گئی اور وزیر خزانہ کو اپنے الفاظ چبانے پڑے۔ لامحالہ سپہ سالار کو میدان میں آنا پڑا ۔جنرل عاصم منیر نے اپنے اہداف کو سامنے رکھ کر تاجر برادری کے بڑوں کو یہ اعتماد دلانے کی کوشش کی کہ ہم سب یکجا ہو کر ملک کو اس تباہ کن صورتحال سے نکال سکتے ہیں۔ اس کے بعد اب مختلف طبقہ فکر اور ماہرین نے اپنی اپنی رائے کا اظہار کیا ہے۔ایک تجویز یہ ہے کہ کم از کم 6ماہ سے ایک سال تک تمام مارکیٹوں کو چھ بجے شام کو بند کر دیا جائے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس کا تجربہ ہم کورونا کے دور میں کر چکے ہیں۔ لوگ پھر بتدریج اپنی خریدوفروخت اور معمولات کو انہی اوقات کار کا عادی بنا لیتے ہیں اس میں کوئی شک نہیں کہ اس سے ہم اپنی انرجی بچا سکیں گے اور لامحالہ اس سے پٹرولیم کا امپورٹ بل کم ہو جائے گا۔ جو پاکستان کی معیشت پر سب سے بڑا بوجھ ہے۔چھوٹی گاڑیوں کے استعمال کرنے کے متعلق حکم نہیں تو کم از کم ترغیب ضرور دی جائے اور اس سلسلے میں قوم کو بتایا جائے کہ اس بچت کی کیا اہمیت ہے۔ کرنسی ایکسچینج کمپنیوں کی سرگرمیوں کو کچھ عرصے کے لئے محدود کر دیا جائے اور ان کے آپریشن کو سخت قوانین کے دائرے میں رکھنے کے لئے اقدامات کئے جائیں۔5000کے کرنسی نوٹ کو ختم کر دیا جائے۔ اسمگلنگ کے تمام چینلز پر تمام ممکنہ زاویوں سے روک تھام کی جائے۔ سرمایہ کاری سے یقینا ملک میں ترقی کے امکانات بڑھتے ہیں ۔ملازمتوں کے وافر مواقع پیدا ہوتے ہیں لیکن جو ممالک سرمایہ کاری کرتے ہیں وہ پروجیکٹ کی تکمیل کے سلسلے میں سرمایہ کاری کو ڈالر کی صورت میں باہر لے جاتے ہیں اس وقت ہمارا بنیادی مسئلہ ڈالر ہے ہمیں ہر قیمت پر ڈالر چاہئیں جس سے معاشی اعشاریوں میں توازن پیدا ہو گا۔ ہمیں اپنے ٹیکسیشن ڈھانچہ کو توسیع دینی ہو گی۔ریٹیلرز اور ہول سیلرز آڑھتی اور بے شمار کاروباری لوگوں پر ٹیکس ہر قیمت پر لگایا جائے۔ زرعی ٹیکس کا اجراء ہونا چاہیے۔ سب سے اہم پوری سول بیورو کریسی کے ڈھانچے کو ازسرنو ترتیب دینا چاہیے۔ یہ کارکردگی اور اہلیت کے اعتبار سے برباد ہو ہو چکا ہے۔ ملک میں موجود مافیاز کے قلع قمع کے لئے بھر پور آپریشن ہونا چاہیے یہ ایک طویل بحث ہے۔ حالات بہتر نہیں قوم قدم بہ قدم پیچھے کھسک رہی ہے۔لیکن اب بھی ہم ان بحرانوں سے کوسوں دور ہیں جن سے امریکہ جاپان چین برطانیہ روس جرمنی فرانس اور اٹلی جیسے ملک گزرے تھے۔ ابھی شام کو بہت دیر باقی ہے کیونکہ ابھی ہم خدا سے اور خدا ہم سے مایوس نہیں ہوا۔