اقتدار پر قابض 'پاجی' قسم کے لوگوں نے عوام کا بھرکس نکال دیا ہے۔ ایک توانہوں نے تعلیم اور صحت پر بجٹ میں بتدریج کمی کی ہے دوسرے تیل اور بجلی پر ٹیکسوں کے ذریعے مالیاتی خسارے پر قابو پانے کی کوشش کرتے رہے ۔ پچھلے ڈیڑھ سال سے اس روش نے زور پکڑ لیا ہیجس کی وجہ سے عوام ہیجانی کیفیت سے دوچار ہیں۔ مان لیتے ہیں کہ آپ نے آزاد معیشت کو اپنایا ہے اور اسے دوام بخشنے کے لیے بین الاقوامی مالیاتی اداروں سے قرضے بھی لیے ہیں لیکن اس مقصد کو بھی تو بھول گئے ہیں جس کے لیے آپ پر یہ عنایت ہوئی تھی۔ نئے معاشی نظام کے تحت حکومتوں کو بنیادی حقوق کی فراہمی تک محدود ہونا تھا اور اس حوالے سے ادارہ جاتی اصلاحات کرنا تھیں تاکہ لوگوں کی بنیادی ضروریات کو انکی دہلیز پر پہنچایا جاسکے۔ بیرونی قرضوں کو، ٹیکس اصلاحات کے ذریعے، نہ صرف واپس کرنا تھے بلکہ ان کے جائز استعمال کو بھی یقینی بنانا تھا۔ لیکن ہوا یہ کہ سیاسی پارٹیوں نے پیسے کی ریل پیل دیکھی تو آپس میں بھائی چارہ قائم کرلیا۔ صوبے آپس میں بانٹ لیے اور مرکز کے لیے ایک بار تم ایک بار ہم کا اصول مقرر کرلیا۔ سرکاری ملازمین کی تنخواہیں آسمان پر پہنچا دیں، مقامی حکومتوں کا نظام لپیٹ دیا اور احتساب کو منجمد کردیا۔ عدلیہ کہنے کو تو آزاد تھی، ججوں نے اپنی تنخواہیں لاکھوں تک بڑھوالیں اور آنکھوں پر پٹی باندھ لی۔ قومی آمدنی اور ٹیکسوں کے مابین شرح کو بیس فیصد کے قریب لے جاناتھا تاکہ عوامی فلاح کا کوئی راستہ نکلے۔ جب یہ اصول طے ہوگیا تھا کہ حکومت کا کام کاروبار کرنا نہیں تو اس کا مطلب یہ تھا کہ نجی شعبہ کو کھلا میدان مہیا کیا جائیگا۔ حالات و شواہد لیکن یہ بتانے ہیں کہ نہ تو سرکاری اداروں نے کارخانے بند کیے ہیں۔ نجی شعبے کو تعلیم و صحت میں آگے بڑھنے کا موقع تو دیا گیا لیکن ان پر نظر رکھنے والے ادارے مفلوج کردیئے گئے۔ نہ ملازمین کو تحفظ اور نہ ہی خدمات کے معیار کی ضمانت۔ چھوٹی صنعتیں متاثر ہوئیں کیونکہ نجی شعبے میں چلنے والے بنک بھی صرف حکومتوں کو ہی قرضہ دیتے ہیں کیونکہ اس نے مالیاتی خسارے پر قابو پانے کے لیے ہمیشہ قرضے کی ضرورت رہتی ہے۔ مطلب، حکومتیں کفایت شعاری کے مطلب و معنی سے بھی آگاہ نہیں۔ کابینہ کے حجم اور مراعات میں اضافہ ہوا ہے تو اراکین اسمبلی کی تنخواہوں میں بھی۔ یوں مشرف دور سے لیکر آج تک صرف قرضوں کے حجم میں اضافہ ہوا ہے۔ پاکستان میں آزاد معیشت کے قیام کا سفرمعاشرتی اونچ نیچ میں اضافے کا سبب بنا ہے، عوام کو دستیاب سہولتیں نہ صرف کم ہوئی ہیں بلکہ ان پر ٹیکسوں کے بوجھ میں اضافہ ہوا ہے۔ معیشت دان اپنی ہانکتے ہیں لیکن سماجی علوم کی رو سے دیکھا جائے تو اسکی بڑی وجہ 'جمہوری' خسارے میں اضافہ ہے۔ جمہوریت جو احتساب اور معیار زندگی کی بلندی سے جڑی ہے، اسکے معیار میں اتنی تنزلی ہوئی ہے کہ آمریت کے مہیب سائے منڈلاتے نظر آرہے ہیں۔ اب جب خرابی بسیار ہوگئی ہے اور عوام بد تمیزی سے ہوتے ہوئے گستاخی پر اترتے نظر آئے ہیں تو 'پاجی' لوگ یہ طرح باندھتے نظر آرہے ہیں کہ بیرونی سرمایہ کاری اور وہ بھی اربوں ڈالرز کی صورت میں بس آیا چاہتی ہے۔ مطلب لوگ صبر کرلیں۔ ذرا بین الاقوامی میڈیا پر نظر ڈال لیں۔ پاکستان برائے فروخت کی سرخیاں لگ رہی ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ آپ وہ اقدامات اٹھاتے اور وہ بھی ہنگامی بنیادوں پر جن سے سرمایہ کار برادری میں پاکستان کی ساکھ بہتر ہوتی۔ بھاری بھرکم تنخواہیں اور مراعات واپس ہوتیں اور سرکاری و ادارہ جاتی سرپرستی میں چلنے والے کاروبار نجی شعبے کے حوالے کرنے کا اعلان کیا جاتا، ٹیکسوں کے دائرہ کار کو بڑھانے کے عملی اقدامات کا کوئی اعلان ہوتا یا پھر اٹھارویں ترمیم کے بعد صوبوں کو منتقل ہوجانے والے وزارتیں اور ادارے ہی بند کردیے جاتے۔ یہ بھی ہوسکتا تھا کہ افسر شاہی کی اصلاح کے لیے قائم ہونے والے متعدد کمیشنوں میں سے کسی ایک کی سفارشات پر فوری طور پر عمل درآمد شروع ہو جاتا۔ پنجاب میں مقامی حکومتوں کے انتخابات ہی منقعد کرنے کا اعلان کیا جاتا اور جہاں یہ حکومتیں قائم ہیں انہیں مکمل اختیارات اور وسائل ہی تفویض ہوجاتے تو عوام کو لازمی خدمات کی ترسیل کی تسلی ہوجاتی۔ حالات اتنے نازک ہیں کہ عوام طفل تسلیوں سے نہیں بہلنے والے۔ جہاں تک بات ہے عام انتخابات کی تو یقین مانیں تو اس میں بڑی اور معروف سیاسی پارٹیوں کے لیے کچھ بھی نہیں رکھا۔ عوام کے سامنے کس منہ سے جائینگی۔ پچھلے ڈیڑھ سال میں انہوں نے جو کل کھلائے ہیں وہ نہ صرف ڈھکے چھپے نہیں بلکہ عوام ان سے براہ راست متاثر ہورہے ہیں۔ اب جبکہ معاملات کو نیم آمریت کے ذریعے پہلے سے ہی چلایا جارہا ہے تو اگلا انتہائی قدم اٹھانے سے پہلے سرکار یہ ضرور سوچ لے کہ اس کی ساکھ صرف متاثر ہی نہیں بلکہ خراب ہوچکی ہے ۔ جتنا نقصان اسکا ہوچکا ہے سرکار کا غضبنا ک ، بلکہ جلال میں آنا بنتا ہے۔ ایسے میں لازم ہے کہ عدل کے تقاضے اختیار کیے جائیں۔ جس نے جو کھایا ہے اس کے حلق میں سے انگلی ڈال کر نکالا جائے ، مراعات ختم کی جائیں، ٹیکس حصہ بقدر جثہ لیے جائیں، بدلتے حالات کے تناظر میں تنخواہوں اور مراعات کا از سر نو تعین کیا جائے ، سرکار ی عمال کی دہری شہریت پر پابندی لگائی جائے اور ریٹائرمنٹ کے بعد کم ازکم پانچ سال تک ا نہیں بیرون ملک جانے کی اجازت نہین ہونا چاہیے۔ جہاں تک عام انتخابات کا معاملہ ہے ، پہلے سیاسی پارٹیاں اپنے اندرون خانہ جمہوریت اور پالیسی سازی کی صلاحیت کو ثابت کریں اور مل بیٹھ کر ضابطہ اخلاق وضح کرلیں تو ہی معاملات آگے بڑھائے جائیں۔ ٭٭٭٭٭