اچھا پروفیشنل ہونا اچھی بات ہے مگرساتھ اچھاانسان بھی ہونا،اُس سے بھی بڑی بات ہے۔ہمارے ہاں جہالت اور غربت بے پناہ ہے۔ایسے میں کسی کے حصے چند قطرے دولت،طاقت یا شہرت آ جائے تو۔اگر تربیت اچھی نہیں اور احساسِ کمتری پائوں سے لپٹا ہو اہے تو پھر کیا کیا ہوتا ہے۔۔مت پوچھیے۔اسیِ لیے فرمایا گیا ہے کہ طاقت اور دولت انسان کو بدلتے نہیں،بے نقاب کر دیتے ہیں۔ہمارے جیسے سماج میں بیوروکریٹ ہونا اور وہ بھی سٹار بیوروکریٹ ہونا۔ڈریم پوسٹوں پر فائز رہنا اور پھر ایساعجز کہ بندہ حیران رہ جائے۔وہ انسان دوست بھی تھے اور رولز کو سمجھنے والے بھی۔یہ تھے مرحوم عبداللہ سنبل۔جب ان کے اس دنیا سے جانے کی خبر سُنی تو دل بیٹھ سا گیا،آنکھیں نم ہو گئیں اور ذہن خالی سا ہو گیا۔اُن سے ملاقاتیں،اُن کی آواز،اُن کے ایکسپریشنز ۔۔۔تخیل کے دروازے پر بار بار دستک دینے لگے۔ذہن ذرا سا پیچھے چلا گیا،چند ماہ پیچھے۔جب پرویز الٰہی وزیر اعلیٰ تھے اور کامران افضل صاحب چیف سیکرٹری پنجاب۔جب کامران صاحب نے یہ کہا کہ میں ذاتی وجوہات کی بنا پر یہ ذمہ داریاں نہیں نبھا سکتا تو ایڈیشنل چارج عبداللہ سمبل صاحب نے سنبھال لیا۔اس دوران انہوں نے ایسے کئی افتادگانِ خاک کے کام کیے کہ وہ سب انہیں ہاتھ اٹھا کر دعائیں دے رہے ہوں گے۔کئی مناظر میرے سامنے گھوم رہے ہیں۔ان پڑھ بوڑھی عورتیں اور دور دراز گائوں سے آئے ہوئے عمر رسیدہ دیہاتی۔میں ذاتی طور پرافسر شاہی کو زیادہ پسند نہیں کرتا۔اس کا شدید ناقد ہوں۔پاکستان کی75سالہ تاریخ کے پسِ منظر میں افسر شاہی عروج اور زوال کا طالبعلم ہوں۔شاعر بیوروکریٹ جاوید قریشی مرحوم کہا کرتے تھے کہ ہم سب ڈی ایم جی افسران انفرادی طور پر بہترین ہیں مگر اجتماعی طور پر نہیں۔آج کی افسر شاہی کے رویے میں ادارے کا زوال رہ رہ کر جھلکتا ہے۔ایسے میں آپ کو کوئی ڈیسنٹ،انسان دوست اور مسئلے کا حل بتانے والا افسر مِل جائے تو مان لیں آپ کا آدھا مسئلہ حل ہو گیا ہے۔مگر قحط الرجال ہے۔انہیں اپنے ہی غم سے نہیں ملتی نجات۔اس بِنا پر (یہ)فکرِ عالم کیا کریں۔بیوروکریسی ایک پلیٹ فارم ہے جہاں سے آپ مخلوقِ خُدا کے دکھوں اور تکلیفوں کا مداوا کر سکتے ہیں۔اگر آپ کبھی لاہور میں واقع سول سیکرٹیریٹ گئے ہوں تو آپ کو اندازہ ہو گا کہ پروٹوکول اور دبدبے کی فضا کا کیا عالم ہوتا ہے۔ایک عام سائل پر کیسی وحشت اور گریڈ بائیس کی دہشت طاری ہوتی ہے۔ جب مخلوق کی حاجتیں ربِّ کریم آپ سے وابستہ کر دے تو اس کے دو ردِ عمل سامنے آتے ہیں۔آپ کمینے بن کر مخلوق کو اذیت دیتے ہیں اور پھر اپنے اندر اس کی لذت محسوس کرتے ہیں۔یہ ایک بیمار رویہ ہے اور ماشا ء اللہ پاکستان کے ہر شعبے بمعہ نوکر شاہی میں عروج پر ہے۔دوسرا راستہ یہ ہوتا ہے کہ صاحبِ نعمت اُسے اللہ کا احسان سمجھے اور امتحان بھی اور مخلوق کیلئے آسانیاں پیدا کرے۔عبداللہ سنبل ایسے ہی تھے۔اُن کے اور ہمارے ایک مشترکہ دوست اکثر انہیں رات کے کسی پہر داتا دربار لے جاتے تھے۔ سنبل صاحب کو کتاب سے،پڑھنے سے اور پڑھانے سے بہت لگائو تھا۔وہ لاہور کے ایک مشہور یونیورسٹی کی سطح کے ادارے میں جُز وقتی پروفیسر بھی تھے۔ایک دن اُن سے ملاقات کے وقت اُن کیلئے کچھ انگریزی اور اردو کتابیں لے گیا۔کہنے لگے آپ کو کیسے اندازہ ہوا کہ یہ موضوعات میرے پسندیدہ ہیں۔میں نے مسکراتے ہوئے کہا۔آپ کی شخصیت کو دیکھ کر۔ایک مرتبہ اُن کے نمبر ٹو افسر سے کسی دوست کو جائز کام پڑ گیا۔اس افسر کی شہرت یہ تھی کہ چونکہ اس کے والد سٹار بیورو کریٹ تھے۔ اس لیے وہ افسر مسکرا کر ملتا تھا،چائے بھی پلاتا تھا مگر کام اُسی کا کرتا تھا جس کا وہ کرنا چاہتا ۔ سنبل صاحب سے معاملے کا ذکر کیا توکہنے لگے،مجھے دوبارہ سمجھائیے۔ہمارے قریب ہی نوجوان افسر سمیر سیّد بھی موجو دتھے۔مجھے کہنے لگے ۔میں سمجھاتا ہوں۔ سنبل صاحب کو بات سمجھ آ گئی کہ یہ میرے ماتحت افسر کے مزاج اور ٹیمپرامنٹ سے پریشان ہیں۔ کمال شفقت اور محبت سے اُس کا حل نکالا اور اُس مشکل افسر کے پروںکے نیچے سے فائل نکلوا کر آسانی پیدا کر دی۔وہ خواہ پینٹ کوٹ اور ٹائی ہی میں کیوں نہ ملبوس ہوتے،سیکرٹیریٹ میں اذان ہوتی تو وہ سب کے ساتھ مِل کر نماز ادا کرتے۔ جب بھی اُن کے ساتھ جب بھی ملاقات ہوئی اُن کے ساتھی بیوروکریٹس سے مِل کر احساس ہوتا کہ یہ سب مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے وہ افسران ہیں جو اِس کرپٹ اور تعفن زدہ سسٹم میں اُمید کے چراغ ہیں۔انہی میں سے ایک سے میں نے پوچھا کہ آپ سب افسران جب ذاتی زندگیوں میں اکھٹے ہوتے ہیں تو کن موضوعات پر گفتگو زیادہ ہوتی ہے۔ بیوروکریٹ نے کہا آپ سُن کر حیران رہ جائیں گے۔آج کے افسران اکڈیمک باتیں نہیں کرتے۔کیا باتیں کرتے ہیں؟لاہور میں اچھے ہوٹل اور فوڈ پوائنٹس کہاں پر ہیں۔لیڈیز اور جینٹس کے اچھے برینڈز کونسے ہیں؟کہاں پر ملتے ہیں؟کونسی ڈش اٹالین ۔۔فرنچ یا ٹرکش ہے؟کونسے بیوروکریٹ کے کس سیاستدان سے کیسے تعلقات ہیں؟کونسا افسر کس گروپ سے تعلق رکھتا ہے؟اِ س زوال کا سبب افسر شاہی سے زیادہ ہے Shreef'sاورChaudriesبرینڈ کے سیاستدانوں کا ہے۔ چوہدری پرویز الٰہی کے دور میں اور حمزہ شہباز کے دور میں بھی کسی افسر سے یہ نہیں پوچھا جاتا تھا کہ یہ کام غلط ہے یا صحیح۔صرف یہ کہا جاتا تھا کہ کرنا ہے کہ نہیں؟اس سونے پر سہاگہ خاتونِ اوّل اور بزدار ثابت ہوئے اور پاکستان کے آسمان نے پنجاب کے پرنسپل سیکرٹری طاہر خورشید جیسے افسر بھی دیکھے جو ٹرانسفرز اور پوسٹنگز کا ڈیپارٹمنٹل اسٹور کھول کر بیٹھ گئے۔اس ظلمتِ شب میں اگر کوئی اچھا افسر بھی ہو اور اچھا انسان بھی تو اُس کی بے وقت موت پر دِل بجھ سا جاتا ہے۔سنبل صاحب کا چہرہ۔۔آواز،مسکراہٹ،عجز اور انسان دوستی مختلف مناظر کی شکل میں بار بار ہانٹ کر رہے ہیں۔چند دن پہلے مال روڈ پر واقع سول سروس اکیڈمی جانے کا اتفاق ہوا۔تصویروں کی قطار میں ایک درویش جیسے سینئر بیوروکریٹ پر نظر تھم سی گئی۔تصویر میں جو افسر تھا باریش بھی تھا اور دنیا سے بے نیاز درویش بھی۔عبد اللہ سنبل کا مزاج بھی درویشانہ تھا۔خدا حافظ۔۔ عبداللہ سنبل۔