فلسطینی لہو میں نہا گئے،ہزاروں بچے بلک بلک کر دم توڑ گئے اور ایک دنیا تماشہ دیکھتی رہ گئی۔ مسلم دنیا کے حکمران اپنے رب سے بے نیاز ہوئے تو کیا وہ نہیں جانتے کہ اللہ سب سے بے نیاز ہے۔جب آفت گرنے کا وقت آیا تو ان کے ہاتھ کچھ نہیں ہو گا۔ جہاں رب کا حکم چلتا ہے وہاں امریکا اور اسرائیل کا بس نہیں چل پائے گا ،بخدا نہیں چلے گا۔ کوئی بتا سکتا ہے کہ غزہ کے بچے کس جرم میں مارے گئے؟ گاہے انسان کو مایوسیاں گھیر تی ہیں تو وہ سوچتا ہے کہ اب اچھے لمحات نہیں آئیں گے اور گاہے انسان خوش گمانی کا شکار رہتا ہے۔ بنی نوع انسان کا سارا فلسفہ سارا علم ردی کی ٹوکری میں جا گرتا ہے جب زندگی کے اصل فلسفے پر نگاہ ڈالتا ہے۔ کائنات کے سب سے محبوب آقاﷺ کی زندگی اسی لیے ہم سب کے لیے بہترین نمونہ ہے۔ کلاشنکوفوں اور توپوں کی دْنیا، یہ میز ائلوں اور بموں کا جہان، یہ انسان کو انسان کے ذریعے کچلنے ، کاٹ کھانے اور لوٹنے کی تگ و دو، یہ ذلت کے گڑھوں کی طرف بلاتے سیاست کار، ہر دم سکون تباہ کرتے خبر نامے، ہر روز بدلتے خوں رنگ مناظر۔ذہنوں کی یکسوئی متاثر کرتے تجزیے اور تبصرے۔ دکھی اور جبر کی ماری خلق خدا چیخ اٹھی ہے۔خدایا تیری زمین ظلم سے بھر چکی۔ کبھی انسان سوچتا ہے اپنی ذات کے حصار سے باہر نکلے۔کبھی سیاست کاری کو ترک کرے، کبھی جاتی عمرہ،گجرات بنی گالہ ،گڑھی خدابخش اور نائن زیروکو چھوڑے۔ روز روز کی چخ چخ اور بک بک سے دور ایسا جہاں آباد کرے جہاں صرف انسان بستے ہوں،جہاں انسان کی قدر اور شناخت ہو۔ حقیقی دْنیا کا تذکرہ ہو، دل کی نگاہوں اور ضمیر کی آواز پر انسان لبیک کہے اور اصل زندگی کی فکر کرے۔ایک ایسا جہاں آباد ہو جہاںکوئی کسی کا حق نہ مارے،کسی کا ہاتھ کسی پر دراز نہ ہو۔ سچ تو یہ ہے کہ یہ دْنیا ظلم سے بھر چکی۔اس نائو کے کھیون ہار اسے جبر کے ایسے گرداب میں ڈال چکے، جہاں سے باہر آنے کے تمام راستے مسدود نظر آتے ہیں۔ایسے میںانسان کبھی حصار سے باہر نکلے اور اْمیدو خوف کا دامن پکڑ لے۔ اس کی طرف پلٹے جو سب کچھ کرتا ہے،وہ رب جو سب کی موت اور رزق کا مالک ہے۔ حضرت عمرؓفرماتے تھے قیامت کے روز اگر آواز لگانے والا یہ کہے کہ سارے لوگ جنت میں داخل کر دیے گئے ہیں سوائے ایک کے ، تو میں سمجھوں گا، وہ میں ہی ہوں اور اگر یہ آواز آئے کہ سارے انسان جہنم میں پھینک دیے گئے سوائے ایک کے، تو میں سمجھوں گا کہ وہ خوش نصیب عمرؓہی ہوگا۔ گاہے عرب کے صحرائوں سے آندھیوں کے بگولے اٹھتے اور وہ طوفان بن جاتے۔ بادوباراں کے جھکڑ چلتے تو اس کائنات کی بلند ترین ہستی ؐکے چہرۂ انور کا رنگ بدل جاتا۔ اضطراب اور بے چینی نمایاں ہونے لگتی۔ آپ کھڑے ہو جاتے اور تیزی سے ادھر ادھر چلنے لگتے۔ آپ کی زبان مبارک پر دْعائیں آجاتیں: ایک بار جو طوفان اٹھا تو آپ ؐپر ایسا خوف طاری ہوا کہ حضرت عائشہ ؓبے قرار ہوگئیں،پوچھا: ’’ اے اللہ کے محبوب! جب بادل آتے ہیں تو لوگ خوشی مناتے ہیں کہ بارش ہوگی اور اس دْنیا کو سیراب کرے گی لیکن آپ ؐ تو ابر کو دیکھ کر فکر مند ہو جاتے ہیں۔‘‘ آپ نے سیّدہ عائشہ ؓکے سوال کے جواب میں ارشاد فرمایا: ’’مجھے کیسے سکون آ سکتا ہے۔ ان بادلوں اور ہوائوں میں رحمت ہے عذاب نہیں، کیا تم نہیں جانتیں کہ قوم عاد کو ہوائوں کے ذریعے عذاب میں مبتلا کیاگیا۔ ان کی بستیوں پر بادل امڈ کر آئے تو وہ خوش ہوئے تھے کہ ان بادلوں سے ٹھنڈاپانی برسے گا لیکن وہ بادل عذاب لے کر آئے۔‘‘ بیم و رجا کی اس دْنیا میں قوم عاد نے خوشی کا ایک پہلو دیکھا ،اْمید کو سامنے رکھ کر وہ عبرت اور خوف کے پہلو کو بھول گئی۔ آپ ؐکی حیات مبارکہ میں ایک دفعہ سورج گرہن ہوا۔ مدینہ منورہ کے کوچہ و بازار سے لوگ نکل آئے۔ جانے یہ کیسا لمحہ تھا کہ ہر ایک پر خوف طاری ہوگیا۔ بچے بوڑھے نبی مہربان ؐکے گرد جمع ہو گئے۔ آپ کے چہرۂ مبارک پر اضطراب اورخوف کے گہرے آثار رونما ہوئے۔لوگوں کو کھلے میدان میں جمع کیا اور نماز کسوف ادافرمائی۔ اس نماز میں آپ ؐنے اس قدر طویل قیام فرمایا کہ بیشتر لوگ غش کھا کر گرنے لگے۔ آپ کا چہرۂ مبارک آنسوئوں سے تر ہوا جاتا تھا اور فرماتے تھے: ’’ اے رب کائنات! کیا تم نے مجھ سے یہ وعدہ نہیں فرمایا کہ میرے ہوتے ہوئے میری قوم پر عذاب نازل نہیں فرمائیں گے ایسے لمحے جب کہ یہ قوم گناہوں سے تمھاری پناہ مانگ رہی ہو۔ ان پر قہر و غضب نازل نہیںہوگا۔‘‘ آپؐ نے رخ انور لوگوں کی طرف کیا اور فرمایا: ’’مسلمانو! جب ایسا منظردیکھو تو گھبرا کر نماز کی طرف لوٹ جایا کرو، میں آخرت کے حالات دیکھ رہا ہوں۔ اگر وہ حالات تمھیں معلوم ہو جائیں تو تمھارا ہنسنا کم اور رونا زیادہ ہو جائے۔ ایسے حالات دیکھو تو نماز پڑھو، دْعا مانگو اور صدقات دیا کرو۔‘‘ آپؐ کے وصال کے بعد یارانِ رسول ؐگاہے ایسے لمحے دیکھ کر رو دیتے۔ ایک بار جو طوفانِ بادو باراں اٹھا تو دن میں تاریکی چھا گئی جیسے کبھی دن طلوع ہی نہ ہوا تھا۔ حضرت خضر بن عبداللہ ؓنے حضرت انس ؓسے پوچھا ’’ حضرت !کیا اللہ کے رسول ؐکے زمانے میں بھی ایسا ہوتا تھا۔ وہ تڑپ اٹھے اور کہنے لگے: رب کائنات کی پناہ! آپ ؐکے زمانے میں ہوابھی تیز ہو جاتی توآپ اور آپ کے صحابہ ؓ خوف آخرت سے تڑپ جاتے اور مسجدوں کی طرف بھاگنے لگتے۔‘‘