سول ایڈمنسٹریشن کا ڈھانچہ انگریز کی قوت و اختیار کی علامت تھا، اسی لئے اسے بے پناہ اختیارات بھی عطا کئے گئے تھے۔ ڈپٹی کمشنر اپنے ضلع میں ایک چھوٹا سا بے تاج بادشاہ ہوا کرتا تھا۔ امنِ عامہ، ترقیاتی منصوبے، سیاسی جوڑ توڑ، ایک حد تک انصاف کی فراہمی بھی اسی ’’امرت دھارے‘‘ کے ذمہ تھی۔ مالیہ اور آبیانہ چونکہ یہی دونوں ٹیکس تھے جن سے حکومت چلتی تھی، انکم ٹیکس اور کسٹم تو برائے نام تھے، یہی وجہ ہے کہ ڈپٹی کمشنر ہی کلکٹر بھی ہوتا جو یہ محصولات وصول کرتا۔ اس قدر محدود پیمانے پر لگائے گئے ان دونوں ٹیکسوں سے پورے برصغیر کا نظام چلتا تھا اور ساتھ ہی سالانہ پانچ کروڑ پائونڈ تاجِ برطانیہ کے اخراجات کے لئے لندن بھی بھیجا جاتا تھا۔ انگریز نے اس ضلعی انتظامیہ کے علاوہ لوکل باڈیز کا بھی ایک مربوط نظام قائم کر رکھا تھا۔ تعلیم، صحت، صفائی، شہر کی سڑکیں، پارک، کھیل کے میدان اور سول ڈیفنس وغیرہ سب یونین کونسلوں اور میونسپل کمیٹیوں کے ذمہ ہوتے تھے اور وہ اس معاملے میں خود مختار بھی تھیں۔ ان تمام کاموں کے لئے ذرائع آمدن کے طور پر محصول چونگی وصول کرتی تھیں۔ یہ ’’گراس روٹ‘‘ سطح کی جمہوریت تھی جسے انگریز نے متعارف کروایا۔ اس سے پہلے برصغیر پاک و ہند میں پنچائت اور جرگہ جیسے مضبوط علاقائی ادارے کام کر رہے تھے جن سے دیہی بلکہ نیم شہری معاشروں کا نظامِ کار چلتا تھا۔ انگریز نے جب ضلعی سطح کو ایک انتظامی یونٹ کا درجہ دیا تو انہی دونوں نظام ہائے کار کے بنیادی خدوخال اور مناصبِ کار کو مختلف اداروں میں تقسیم کر دیا اور یوں ضلع ایک ایسا مربوط یونٹ بن گیا جس میں عام آدمی کے تحفظ کے لئے امنِ عامہ کا نظام، ترقیاتی ضروریات کے لئے میونسپل نظام، اور عدل کے حصول کے لئے سیشن جج کی عدالتیں موجود ہوا کرتی تھیں۔ یہ ایک مرکزی حکومت کا چھوٹا سا ڈھانچہ (Minature) تھا جس کی مرکزیت کے لئے ڈپٹی کمشنر کا عہدہ تخلیق کیا گیا اور اسے وسیع اختیارات دینے کا مطلب بھی یہی تھا کہ لوگوں کی تمام شکایات کا ازالہ یہیں پر ہو جائے اور صوبائی یا مرکزی سطح تک جانا نہ پڑے۔ یہی وجہ ہے کہ اس ایک سو سال کے عرصے میں اعلیٰ عدالتوں میں بہت کم مقدمات آئے اور زیرِ التواء مقدمات کا تو کوئی نام و نشان تک نہ تھا۔ انگریز نے عوام کو یہ کچھ عطا کرنے کے باوجود ایک اہم چیز کا اختیار اس محکوم ہندوستانی قوم کو نہیں دیا اور وہ تھی سیاسی آزادی و خودمختاری۔ ہمیں انگریز نے یہ درس گھوٹ گھوٹ کر پلایا کہ بہترین جمہوریت تو مقامی جمہوریت یا گراس روٹ نظامِ کار ہی ہوتا ہے۔ بنیادی جمہوریت کو اہمیت دینے کا مطلب دراصل یہ تھا کہ، اے ہندوستان کے کُند ذہن باسیو! تمہاری سطح بس اتنی ہی ہے کہ تم سڑکیں، پُل بنائو، صحت و صفائی کا نظام چلائو، سکول اور فائر بریگیڈ قائم کرو، لیکن خبردار یہ مت سوچنا کہ اس ملک کی خارجہ پالیسی کیا ہو سکتی ہے۔ جنگِ عظیم اوّل اور دوّم میں کتنے سپاہیوں کو جھونکنا ہے۔ افغانوں سے کب اور کیوں لڑنا ہے اور ہماری صنعتیں کیسی ہوں گی، کس قسم کی مصنوعات ہونی چاہئیں، ہماری تجارت کس سے ہو گی اور کیا ہم برطانیہ کے علاوہ بھی تجارت کر سکتے ہیں۔ ہمارا نصابِ تعلیم کیا ہو گا، ہمارے قانونِ عدل کی بنیاد کیا ہو گی، یہ اور ایسے تمام ’’اعلیٰ‘‘ کام تم جیسے کُند ذہن، غبی اور محکوم ہندوستانیوں کے بس کی بات نہیں ہیں۔ یہ صرف اور صرف ہم کریں گے۔ انگریز کے بنائے ہوئے یہ اُصول حکمرانی ہی تھے کہ جب کبھی بھی اس ملک پر کوئی ڈکٹیٹر آیا اس نے پاکستان کی قوم کو ’’کُند ذہن‘‘، ’’غبی‘‘ اور ’’جاہل‘‘ سمجھ کر یہی کہا کہ بہترین جمہوریت تو مقامی جمہوریت ہوتی ہے۔ اے پاکستانیو! تم لوکل باڈیز کے نظام پر اکتفا کرو اور اپنے علاقے کو ’’خوبصورت‘‘ بنائو اور یاد رکھو امریکہ سے تعلقات، کیسے اور کس طرح کے ہونے چاہئیں، افغان پالیسی کیسی ہونی چاہئے، آئی ایم ایف سے قرضہ کب لینا ہے، دیہاتوں اور منڈیوں سے مربوط سڑکوں کی بجائے صرف اشرافیہ کے لئے موٹر وے کیوں بنانا ہے، ایف 16 خریدنے ہیں یا جے ایف تھنڈر، ایسے تمام معاملات کا فیصلہ ہم خود کریں گے کیونکہ صرف ہم ہی ان باتوں کا شعور رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ایوب خان، ضیاء الحق اور پرویز مشرف نے پاکستان کو لوکل باڈیز کے ادارے تحفے میں دیئے اور انہیں بہت حد تک خودمختار بھی کر دیا، لیکن صوبائی اور مرکزی سیاست کا ویسے ہی گلا گھونٹا گیا جیسے انگریز دور میں سیاست دانوں کو مطیع و فرمانبردار بنایا جاتا تھا۔ طاقت کے بَل بوتے پر برسراقتدار آنے یا جمہوری طور پر منتخب ہو کر حکمران بننے والے گروہ، دونوں میں کبھی اس معاملے میں اختلاف ہی نہیں رہا کہ انہوں نے پورے انتظامی ڈھانچے کے دو مرکزی کرداروں کی قوت اور طاقت کو اپنے ہاتھ میں لینا ہے۔ ایک ڈپٹی کمشنر اور دوسرا ایس ایچ او۔ یہی وجہ ہے کہ 1958ء کے پہلے مارشل لاء میں انہی دونوں کو استعمال کر کے اقتدار کو مستحکم کیا گیا تھا، یہ تجربہ کامیاب تھا۔ مادرِ ملت کو شکست دینے اور ایوب خان کو جتوانے میں انتظامیہ نے ویسے ہی انتہائی فعال کردار ادا کیا جیسا وہ تاجِ برطانیہ کے مخالفین کو کچلنے میں کیا کرتی تھی۔ ذوالفقار علی بھٹو چونکہ ایوب خان کا چیف پولنگ ایجنٹ تھا، اس لئے اسے ان کی طاقت کا بخوبی اندازہ تھا۔ اس نے اقتدار سنبھالتے ہی اس سول سروس کو تابعِ فرمان بنانے کے لئے آئینِ پاکستان میں موجود وہ ایسے تمام تحفظات (Guaranties) ختم کر دیئے، جس کی وجہ سے یہ افسران خود کو محفوظ خیال کیا کرتے تھے۔ اب ان کی نوکریاں وزیر اعظم کی جنبشِ قلم کی محتاج ہو کر رہ گئیں۔ لاتعداد افسران جو عزت سے زندگی گزارنا چاہتے تھے سیکرٹریٹ کی کھڈے لائن پوسٹنگز پر چلے گئے۔ یحییٰ خان نے تین سو تین اور پھر بھٹو نے چودہ سو افسران کو نکال کر ایک خوف پھیلایا جس کا مطلب یہ تھا، اگر تم ہر جائز و ناجائز بات نہیں مانو گے تو پھر تمہارا انجام اس قدر عبرتناک ہو گا کہ تمہاری کہیں کوئی شنوائی بھی نہیں ہو گی۔ بھٹو کے آئین کو نافذ ہوئے آج 49 برس ہو گئے ہیں، اس کے بعد لاتعداد حکومتیں آئیں، جونیجو جیسے بااُصول وزیر اعظم سے لے کر عمران خان جیسے تبدیلی کے خواہش مند رہنما تک، مگر کسی نے اس سول سروس کو وہ آئینی تحفظات دینے کے بارے میں سوچا تک نہیں جن سے یہ خود کو محفوظ خیال کریں اور ایمانداری پر ڈٹ جائیں۔ ان سیاست دانوں اور جرنیلوں کو معلوم تھا کہ اگر ایسا کر دیا گیا تو کسی سرپھرے ایماندار آفیسر کا ہاتھ ان کے گریبان تک آ سکتا ہے اور وہ بھی اس وقت جب وہ برسراقتدار ہوں۔ اب نواز شریف اور بے نظیر دونوں نے وہ کھیل کھیلا کہ پاکستان کی پوری بیوروکریسی دو وفادار گروہوں میں تقسیم ہو گئی۔ ان افسران کو بددیانتی اور کرپشن کے تمام گُر اَزبر تھے۔ جبکہ ان کے مقابلے میں دونوں سیاسی پارٹیوں کے لوگ کارِ سرکار کی الف ب سے بھی واقف نہ تھے۔ بیوروکریسی نے ان سے مل کراس پاکستان کی شاہراہ سے ایسے تمام سپیڈ بریکر اُڑا دیئے جو کرپشن کی گاڑی کی رفتار کم کر سکتے تھے اور پھر یہ گاڑی فراٹے بھرنے لگی اور پچاس سال سے تیز رفتاری سے دوڑ رہی ہے۔ ضیاء الحق سے لے کر اب تک جو کوئی بھی حکمران ہوا، ان افسران نے اس کی خواہشات کے عین مطابق کرپشن اور بددیانتی کے ’’پراجیکٹ‘‘ نہ صرف تخلیق کئے، بلکہ انہیں وسعت بھی دی۔ گزشتہ چالیس سال کے عرصے میں اس سول سروس کا سائز 1947ء سے دس گنا زیادہ بڑھا ہے اور اس ملک پر قرضوں کا بوجھ پانچ سو گنا زیادہ ہوا ہے۔ پاکستان کی تباہی میں جہاں سیاست دانوں اور جرنیلوں کا حصہ بدرجہ اتم ہے وہیں اس گاڑی کی ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھے سول سروس کے افسران زیادہ مجرم ہیں کیونکہ یہی تو تھے جو سیاست دانوں اور جرنیلوں کے حکم پر کرپشن کی گاڑی کی رفتار ان کی منشاء کے مطابق کبھی تیز اور کبھی سست کرتے رہتے تھے۔