کیا پدی کیا پدی کا شوربہ! یہ نام نہاد دانشور اپنی دانشوری سنبھال کر رکھیں ۔ جن کی شکلوں کو دیکھ دیکھ کر آنکھیں تھک گئی ہیں۔ یہ چہرے سرشام مختلف چینلز پر آ ٹپکتے ہیں اور اپنے افلاطونی خیالات سے اس الم نصیب قوم کو ’’بہرہ ور‘‘ کرتے ہیں۔آج پچھہتر برس بعد یہ قوم کو بتا رہے ہیں کہ پاکستان کیوں بنایاگیا تھا۔مقصد وجود کی اس بحث میں وہ بھول جاتے ہیں کہ قائد اعظم ؒ ان سے زیادہ عقل اور فہم کے مالک تھے۔قائد اعظم ؒ کے کردار اور عظمت کی گرد کو بھی یہ دانش فروش نہیں پہنچ سکتے ۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ جو بات ان کو آج سمجھ آ رہی ہے پون صدی پہلے قائد کو سمجھ نہیں آئی جو بھنور میں پھنسی کشتی کو اپنے حوصلے اور فراست سے کھینچ کر کنارے لائے تھے۔ پاکستان کا مقصد وجود کیا تھا؟ ہمارے اینکرز کو غیر جانبداری ثابت کرنے کے لیے رنگ برنگ دانشور میسرز آ گئے ہیں ۔ جو اپنے نظریے اور خبث باطن کو ’’ فرمان قائد ‘‘ کا لبادہ پہناکر پیش کرتے ہیں ۔ سید ھی سی بات یہ ہے کہ اگر پاکستان کو ایک سیکولر اسٹیٹ بننا تھا تو متحدہ ہندوستان میں کیا برائی تھی ؟ جہاں ہندو ‘ سکھ ‘ مسلمان ‘ عیسائی ‘ بودھ ‘ حتیٰ کہ ساٹھ سے زائد اقوام اکٹھی رہتی تھیں ۔ اس سے بہتر سیکولر ملک کیا ہوتا؟اس میں کوئی شک نہیں کہ آج کا پاکستان بانیان پاکستان کے خوابوں کے مطابق نہیں لیکن اس میں بھی کوئی کلام نہیں کہ نام نہاد دانشور اس کی منزل کھوٹی نہیں کر سکتے ۔ کوئی خدا کا بندہ اٹھے اور ان سے درخواست کرے کہ وہ کسی ایسے ملک میں منتقل ہو جائیں جہاں وہ اپنے شوق کھل کر پورے کر سکیں ۔ یہ اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے۔دنیا میں درجنوں لادین ملک ایسے ہیں جہاں یہ دانشور اپنی مرضی سے رہ سکتے ہیں ۔ انسان کو خدا نے آزاد پیدا کیا ہے ۔ وہ اپنی اس ’’ آزادی ‘‘ سے استفادہ کریں ‘ ڈیڑھ فی صد سے بھی کم اقلیت ایک بھاری اکثریت کو غلام بنا کر اغیار کی گود میں ڈالنا چاہتی ہے۔ کیاپدی کیا پدی کاشوربہ ۔ صدی کے رجل عظیم نے کہا تھا۔ ’’انسان کی سب سے بڑی ذلت یہ ہے کہ وہ باطل کو طاقت ور دیکھ اس کی غلامی قبول کرنے پر آمادہ ہو جائے ۔‘‘ پون صدی کے بعد بھی یہ قوم اغیار کی غلامی قبول کرنے اور اسلام کا دامن چھوڑنے پر آمادہ نہیں ۔لیکن یہ ’’ دانشور‘‘ کہتے ہیں کہ امریکہ کو خدا مان لو‘سیکولرازم اپنا لو ‘ دنیا میں اپنا امیج بہتر کر لو ۔جن لوگوں نے پاکستان بننے کی مخالفت کی وہ اپنی جگہ بات درست ہو سکتی ہے لیکن پاکستان بننے کے بعد ان کی وفاداریاں شک سے بالا رہی ہیں ‘لیکن کیمرے کے سامنے بیٹھنے والے پاکستان کے مقصد وجود کو ہضم نہیں کر پائے۔قائد ؒ سات دیواروں کے پار دیکھنے کی صلاحیت رکھتے تھے ۔ چنانچہ انہوںنے 30اکتوبر1947ء کو پنجاب یونیورسٹی اسٹیڈیم میں عوام سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا۔ ’’ہم نے اپنی منزل مقصود ’’ آزادی ‘‘ پا لی ہے اور ایک خود مختار دنیا کی پانچویں بڑی مملکت پاکستان قائم ہو چکی ہے۔ اس بر صغیر میں رونما ہونے والے حالیہ اندوہناک واقعات سے یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ کوئی قوم ابتلاء اور ایثار کے بغیر آزادی حاصل نہیں کر سکتی ۔ ہم بے مثال دشواریوں اور نا گفتہ بہ مصائب میں گھرے ہوئے ہیں ۔ ہم خوف اور اذیت کے تاریک ایام میں سے ہو کر گزرے ہیں لیکن پورے وثوق سے کہہ سکتاہوں کہ حوصلے ‘ خود اعتمادی اور اﷲ کی تائید سے کامیابی ہمارے قدم چومے گی۔بعض لوگ یہ سوچتے ہیں کہ 3جون کا منصوبہ قبول کرنا مسلم لیگ کی ایک غلطی تھی ۔ میں انہیں بتا دینا چاہتا ہوں کہ کسی اور متبادل صورت میں نتائج و عواقب اس قدر تباہ کن ہوتے کہ ان کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا ۔ اپنی جانب سے ہم نے اس منصوبے کو کھلے دل اور نیک نیتی سے عملی جامہ پہنانا شروع کر دیا ۔ زمانہ اور تاریخ اس کی گواہی دیں گے۔ دوسری جانب تاریخ اپنا یہ فیصلہ بھی صادر کر دے گی کہ کچھ لوگوں کی غداری اور سازشوں نے اس بر صغیر میں بد نظمی اور افراتفری کی قوتوں کو بے لگام چھوڑ دیا جس کی وجہ سے لاکھوں اموات واقع ہوئیں ۔ بہت وسیع پیمانے پر املاک کی تباہی اور بربادی ہوئی اور لاکھوں انسانوں کو اپنے گھر بار اور اپنی محبوب اشیاء سے جدا کر کے اذیت اور مصائب میں مبتلا کر دیاگیا۔ جس باقاعدہ طریقے سے نہتے اور معصوم لوگوں کا قتل عام کیاگیا اسے دیکھ کر تو تاریخ کے بد ترین جابروں کی وحشیانہ سفاکیاں بھی شرم سے پانی پانی ہو گئیں ۔ ہم ایک نہایت گہری اور خوب سوچی سمجھی سازش کا شکار ہو ئے جس کا ارتکاب کرتے ہوئے دیانتداری ‘ شجاعت اور وقار کے بنیادی اصولوں کا بھی مطلق لحاظ نہیں کیا گیا ۔ ہم اس تائید ایزدی کے لیے سراپا شکر گزار ہیں کہ اس نے طاغوتی قوتوں کا مقابلہ کرنے کے لیے ہمیں ہمت ‘ حوصلہ اور ایمان کی قوت عطا کی ۔ اب میں آپ سے صرف اتنا چاہتا ہوں کہ ہر شخص تک میرایہ پیغام پہنچا دیں کہ وہ یہ عہد کرے کہ پاکستان کو اسلام کا قلعہ بنانے اور اسے دنیا کی ان عظیم ترین قوموں کی صف میں شامل کرنے کے لیے بوقت ضرورت اپنا سب کچھ قربان کر دینے پر آمادہ ہوگا جن کا نصب العین اندرون ملک بھی اور بیرون ملک بھی امن رہتا ہے۔اس کے ساتھ ساتھ اپنا حوصلہ بلند رکھیے۔ موت سے نہ ڈریے۔ ہمارا مذہب ہمیں سکھاتا ہے کہ ہمیں ہمیشہ موت کا استقبال کرنے کے لیے تیار رہنا چاہیے ۔ ہمیں پاکستان اور اسلام کا وقار بچانے کے لیے اس کا مردانہ وار سامنا کرنا چاہیے ۔ صحیح مقصد کے حصول کی خاطر ایک مسلمان کے لیے جام شہادت نوش کرنے سے بہتر اور کوئی راہ نجات نہیں۔میں یہ بات اس ملک کے ہر شہری بالخصوص اپنے نوجوانوں کے ذہن نشین کردینا چاہتا ہوں کہ وہ دوسروں کی رہنمائی کرنے کے لیے لگن ‘ حوصلے اور استقلال کے صحیح جذبے کا اظہار کریں اور آئندہ آنے والوں اور نئی نسلوں کے لیے اعلیٰ و ارفع مثال قائم کر دیں ۔ یاد رکھیے ! قانون کا نفاذ اور امن کی بحالی ترقی کے لوازمات میں سے ہیں ۔ اسلامی اصولوں کی روشن میں یہ ہر مسلمان کا فرض عین ہے کہ وہ اپنے ہمسائیوں کی حفاظت کرے اور بلا لحاظ ذات پات اور عقیدہ اقلیتوں کو تحفظ دے ۔ ہندوستان میں مسلم اقلیتوں کے ساتھ جو سلوک روا رکھا جا رہا ہے ‘ اس کے باوجود ہمیں اس بات کو اپنی عزت و وقار سمجھنا چاہیے کہ ہم اس احساس تحفظ پیدا کر یں۔ اپنا فرض ادا کیجیے اور خدا پر بھروسہ کیجیے ۔